اسلام اور جمہوریت میں فرق از پروفیسر حافط عبداللہ بہاولپوری
(پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری کی تقریبا 35 سال قبل کی لاجواب تحریر)
پاکستان کو بنے ہوئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا‘ کہ مشرقی پاکستان ٹوٹ گیا۔ اب ٹوٹ پھوٹ کا وہی عمل مغربی پاکستان میں شروع ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جس رشتہ سے مختلف زبانیں بولنے والے ‘ مختلف قوموں اور مختلف علاقوں کو ایک لڑی میں پرو کر پاکستان بنایا تھا۔ اب وہ رشتہ کمزور ہو گیا ہے۔ یہ اسلامی جذبہ ہی تھا جس نے پاکستان بنا دیا۔ ورنہ مغرب کو مشرق سے ‘پٹھان کو پنجابی سے‘ سندھی کو بلوچی سے جھوڑنے والی سوائے اسلام کے اور کوئی چیز نہ تھی۔ جب یہ جذبہ علاقائی اور لسانی عصبیتوں تلے دب گیا ‘تشتت اور افتراق کا عمل شروع ہو گیا ‘ یہی قومیں تھیں جنھوں
نے متحد ہو کر اسلام کے نام پر پاکستان بنایاتھا ‘ اب وہی قومیں ہیں جو مختلف عصبیتوں کاشکار ہو کر پاکستان کوختم کرنے کے درپے ہیں۔ اس کا واحد سبب اسلام کا نافذ نہ ہونا اور اس کی جگہ جمہوریت کا رواج پانا ہے۔ یہ جمہوریت جہاں جاتی ہے
وہاں کے عوام کو لادین بناتی ہے اور مختلف عصبیتیں پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے اس کا اسلام کے ساتھ تصادم ہے۔ اسلام ایک دین ہے اور یہ ایک لادینیت ہے۔ تجربہ گواہ ہے کہ جب اور جس ملک میں یہ جمہوریت آئی ‘ مسلمان لا دین ہو گئے ۔ اوران میں طرح طرح کی عصبتیں پیدا ہو گئیں ۔ اور جب مسلمان لادین ہو جاتا ہے ‘ اس کی دینی غیرت و حمیت اور اسلامی اخوت و مودت ختم ہو جاتی ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جب دینی غیرت گئی تو جذبہ جہاد گیا‘ اور جب دینی اخوت گئی تو اتحاد گیا۔ اور جب دونوں گئے تو اسلام گیا۔
مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں جمہوریت ہی رہے خواہ اسلامی جمہوریت کے نام سے ہی ہو۔ ان کو خطرہ ہے کہ اگر مسلمان جمہوریت کے چنگل سے نکل گئے تو وہ ضروراسلام کے نظام خلافت کی طرف دوڑیں گے۔ مسلمانوں کو تو خلافت یاد نہیں رہی ‘ لیکن کفر کو وہ کبھی نہیں بھولتی۔کفر کے لیے وہ پیغام موت ہے اور اسلام کے لیے وہ آب حیات ۔ کفر کو جو نقصان پہنچا ہے وہ خلافت سے ہی پہنچا ہے۔ وہ خلافت راشدہ ہو یا خلافت بنو امیہ ‘ خلافت عباسیہ ہو یا خلافت عثمانیہ۔ بیت المقدس کو فتح کیا تو خلافت نے‘قسطنطنیہ کو سر کیا تو خلافت نے۔ ہندوستان کو مسلمان کیا تو خلافت نے۔ یورپ کو تاراج کیا تو خلافت نے۔ جمہوریت نے تو خلافت کے فتح کیے ہوئے علاقے دئیے ہیں ۔ لیا کچھ نہیں۔ اسلام کے عروج او ر فتوحات کا زمانہ یہ خلافتیں ہی ہیں ۔ جمہوریت نہیں۔ خلافت کے تصور میں مسلمانوں کے شاندا ر ماضی کی یاد ہے۔ خلافت اور جہاد دو ایسے لفظ ہیں کہ جن سے کفر بہت خائف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ان الفاظ سے مسلمانوں کی وہ دینی حس بیدار ہوتی ہے جو جمہوریت کی پیدا کردہ تمام عصبیتوں کو ختم کرکے مسلمان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیتی ہے اور مسلمان اپنے آپ کو ملت واحدہ کے ارکان سمجھنے لگ جاتے ہیں اور سب جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
کفر خلافت کے تصور کو کبھی برداشت نہیں کرتا۔ وہ بہرصورت اسے مسلمانوں کے ذہنوں سے مٹانا چاہتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو جمہوریت کا سبق پڑھاتا ہے تاکہ مسلمان اﷲ کی حاکمیت کو بھول کر اپنی حکمرانی میں لگ جائیں۔ مختلف عصبیتیں پیدا کرکے الیکشن لڑیں اور انتشار کا شکار ہو جائیں ۔ خلافت کا عالمگیر تصور اور جہاد کا جذبہ ان کے دلوں سے نکل جائے۔ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی جمہوریتیں بنا کر آپس میں دست وگریبان رہیں اور کمزور ہو کر کفر کے دست نگر ہو جائیں۔ کفر نے جمہوریت کی اسی تکنیک سے ترکوں کا ستیاناس کیا‘ اسی تکنیک سے عربوں کو پارہ پارہ کیا۔ اسی جمہوریت سے پاکستان کو دولخت کیا‘ اسی آزمودہ ہتھیار سے وہ اب بقیہ کو ختم کرنے کی فکر میں ہیں۔ جب ہی دن رات بحالی جمہوریت کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔
مغرب جو جمہوریت کا مطالبہ کرتا ہے وہ کرے‘ وہ تو مغرب ہے ‘ اسلام دشمنی اسی کا کام ہے۔ پاکستان کے مسلمان مغرب کی آواز میں آواز ملاکر جمہوریت کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں ؟ کیا انھوں نے جمہوریت کی تباہ کاریاں نہیں دیکھیں یا وہ مغرب اور بھارت کو جو ہمارے لیے جمہوریت چاہتے ہیں پاکستان کا خیر خواہ سمجھتے ہیں۔ اگر جمہوریت مسلمانوں کے لیے ذرا بھی مفید ہوتی تو ہمارے دشمن کبھی اس کا نام نہ لیتے۔ جیسا کہ وہ کبھی خلافت کا نام نہیں لیتے‘ جو تیرہ سو سال تک مسلمانوں کا نظام رہا ہے۔
وہ جانتے ہیں کہ خلافت کا تصور اسلام اور اتحاد بین المسلمین کے احیا کا تصور ہے۔ اس لیے وہ اس کا کبھی نام نہیں لیں گے۔ وہ جمہوریت کا ہی نام لیں گے۔ جو کافروں کا نظام ہے اور مسلمانوں کو کافر بناتا ہے۔ قرآن نے کیا خوب کیا ہے ۔
( وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَاءً )[4:النساء:89]
کافر تو تمھیں اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں( تاکہ ان کو تم سے کوئی خطرہ نہ رہے )
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جمہوریت سے خبردار ہی رہیں۔ یہ مسلمانوں کے لیے زہر ہلاہل ہے۔ اسے دشمن ہی سمجھیں۔ اسے کبھی اسلام نہ سمجھیں۔ کفر کبھی اسلامی نہیں ہوتا۔ دشمن کبھی خیر خواہ نہیں ہوتا۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ جمہوریت اسلام کی دشمن کیسے ہے ؟ اسلام اور جمہوریت کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی حقیقت کیا ہے اور ان میں فرق کیا ہے؟ جمہوریت کی لوگوں نے بہت سی تعریفیں کی ہیں۔ سب سے بہتر اور جامع ابراہیم لنکن کی تعریف مانی جاتی ہے جس کے الفاظ ہیں:
Government of the people, by the people for the people
جس کا مطلب یہ ہے کہ جمہوری نظام میں عوام ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں‘ وہ اپنے ملک کا خود ہی دستور بناتے ہیں‘ خود ہی قانون ۔ اکثریت جو چاہے قانون بنا دے۔ شراب کو حلال کر لے‘ یا حرام۔ لواطت (Sodomy)کو جائز کر لے یا ناجائز۔ چنانچہ برطانیہ وغیرہ یورپی ملکوں میں(Sodomy) یعنی لواطت جیسا غیر فطری فعل بھی اگر رضا مندی سے کیا جائے تو جائز ہے‘ کوئی جرم نہیں۔ جمہوریت میں جو پارٹی بھی اکثریت میں ہوتی ہے وہ رول کرتی ہے اور جو اقلیت میں ہوتی ہے وہ رول ہوتی ہے۔ اس طرح جمہوریت میں انسان انسان پر حکومت کرتا ہے‘ اﷲ کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ انسانوں کی انسانوں پر ‘ مخلوق کی مخلوق پر حکومت ہوتی ہے۔ جو بالکل غیر فطری عمل ہے۔ برعکس اس کے اسلام ایک دین ہے‘ جو مکمل نظام حیات ہے‘ اس میں حاکمیت اعلیٰ اﷲ کی ہوتی ہے۔ سب انسان اس کے حکم کے تابع ہوتے ہیں۔ راعی اور رعایا سب اﷲ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اسلام میں قانون اﷲ کا ہوتا ہے۔ کوئی انسان کسی انسان پر اپنے قانون کے ذریعے حکومت نہیں کر سکتا۔ حکومت سب پر اﷲ کی ہوتی ہے۔ کاروبار مملکت چلانے کے لیے خلافت کا منصب ہے‘ جس کا کام اﷲ تعالیٰ کے احکام کی تکمیل کرنا اور کرانا ہوتا ہے‘ حکومت کرنا نہیں۔وہ کوئی قانون اﷲ کی منشا کے خلاف نہیں بنا سکتا۔اسلام میں حکومت کا مقصد اﷲ کی حاکمیت کو قائم کرنا ہے ‘ تاکہ راعی اور رعایا ‘ حاکم و محکوم سب کی عبودیت اور اﷲ کی معبودیت ظاہر ہواور یہی مقصود تخلیق انسانی ہے۔
( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ )[51:الذاریات:56]
امن و امان کا قیام اسلامی حکومت کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے‘ ورنہ یہ نہ مقصود حکومت ہے ‘ نہ مقصد حیات۔ مقصد اﷲ کی بندگی اور اس کی رضا کا حصول ہے تاکہ انسان ترقی کرکے آخرت کی ابدی زندگی حاصل کر لے۔ جیسے یہ دنیا خو دEnd نہیں بلکہ آخرت کمانے کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح امن وامان کا قیام بھی کوئی End نہیں کہ اس کے قیام پر مقصد زندگی پورا ہو جائے۔ امن وامان کا قیام بھی مقصد زندگی کے حصول کے لیے ایک ذریعہ ہے۔ جب مقصد حیات اﷲکی بندگی ہے تو مقصد حکومت بھی اﷲ کی بندگی کرنا اور کرانا ہونا چاہیے۔ چنانچہ یہی مقصد اسلامی حکومت کا ہے۔ جب اﷲ نے بندے کو بندگی کے لیے پیدا کیا ہے ‘ حکومت کے لیے نہیں تو اسلام اور جمہوریت میں تضاد ہوا۔کیوں کہ حکومت اور بندگی میں تضاد ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ بندہ بندگی کرے ‘ حکومت کا خیال نہ کرے‘ حکومت اﷲ کا حق ہے۔ جمہوریت کہتی ہے کہ حکومت عوام کا حق ہے۔ اگر تقابل کر کے دیکھا جائے تو واضح ہو جائے گاکہ جمہوریت اسلام کی ضد ہے‘ ند نہیں۔ غیر ہے‘ عین نہیں۔ ذیل میں ہم اسلام اور جمہوریت کا مقابلہ کرتے ہیں تاکہ سمجھنے والوں کے لیے اس کا بعد واضح ہو جائے۔
اسلام اور جمہوریت میں فرق
1– اسلام کی بنیاد اﷲ کے تصور پر ہے۔
جمہوریت کی بنیاد عوام پر ہے ‘ اﷲ کا کوئی تصور نہیں۔
2– اسلام اﷲ کا نظام ہے جو ساری کائنات میں جاری و ساری ہے ‘ جس کی روح یہ ہے کہ ہر جگہ اﷲ کا حکم چلتا ہے۔ کیا جمادات‘ کیا نباتات‘ کیا حیوانات۔
جمہوریت صرف کافروں کا ایک سیاسی نظام ہے۔
3– اسلام انسانوں کا بنایا ہوا نہیں‘ جمہوریت کافروں کا بنایا ہوا نظام ہے۔
4– اسلام مکمل نظام حیات ہے‘ سیاست صرف اس کا ایک شعبہ ہے اس لیے اسلامی سیاست کا باقی نظاموں کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ اسی لیے اسلامی سیاست اسلام کے اخلاقی اور روحانی ضابطوں کی پابند ہے۔ جمہوریت صرف ایک نظام سیاست ہے ‘ مکمل نظام حیات نہیں۔ اس لیے یہ اخلاقی اور روحانی ضابطوں سے بے نیا ز ہے۔
5– عرف میں اسلام اﷲ کا حکم ماننے کو کہتے ہیں‘ جمہوریت اکثریت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کو۔
6– اﷲ کو تسلیم نہ کرنے سے اسلام کا تصور ختم ہو جاتا ہے‘ آدمی مسلمان نہیں رہتا۔ اﷲ کو تسلیم کرے یا نہ جمہوریت میں کوئی فرق پڑتا ۔
7– اسلام میں اﷲ کا ماننے والا مسلمان‘ نہ ماننے والا کافر۔جمہوریت میں جب اﷲ کا کوئی تصور ہی نہیں تو مسلمان اور کافر کا فرق بھی کوئی چیز نہیں۔
8– اسلام میں مسلمان اور کافرکبھی برابر نہیں ہو سکتے۔جمہوریت میں کوئی فرق نہیں مسلمان اورکافر سب برابر ہیں۔
9– اسلام میں حاکم اعلیٰ اﷲ ہے‘ اصل حاکمیت اسی کی ہے‘ جمہوریت میں اصل حاکمیت عوام کی ہوتی ہے۔ اﷲ کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔
10– اسلام میں حاکمیت اور اطاعت اﷲ کا حق ہے‘ جمہوریت میں یہ عوام کا حق ہوتا ہے۔
11– اسلام میں اقلیت اور اکثریت کوئی چیز نہیں‘ بالادستی صرف حق کو حاصل ہوتی ہے‘ جمہوریت میں حق کوئی چیز نہیں ‘ بالادستی اکثریت کو حاصل ہوتی ہے۔
12– اسلام میں اﷲ ہی سب کچھ ہے‘ جمہوریت میں عوام ہی سب کچھ ہے۔جمہوریت کا خدا عوام ہیں۔
13– اسلام میں حق وہ ہے جو اﷲ کہے‘ باقی سب باطل‘ خواہ وہ اکثریت کا ہی فیصلہ ہو۔ جمہوریت میں حق و باطل کوئی چیز نہیں‘ جو اکثریت کہے وہی حق ہے۔
14– اسلام میں امیر و حاکم وہ صحیح ہے جو اﷲ کے معیار پر پوراترے ‘ جو خود اسلام کا پابند ہو اور لوگوں کو اسلام کا پابند بنائے‘ خواہ منتخب ہو یا نہ۔جمہوریت میں جو عوام کے ووٹ زیادہ حاصل کرے ‘ خواہ وہ بدترین خلائق ہی ہو ۔
15– اسلام میں کافر امیر اور حاکم نہیں بن سکتا‘ جمہوریت میں ہر کوئی حاکم بن سکتا ہے‘ کافر ہو یا مسلمان۔
16– اسلام میں دستور قانون بنانے کا اصولاً سوائے اﷲ کے کسی کو حق نہیں‘ جمہوریت میں یہ کام عوام کے نمائندوں کا ہے۔
17– اسلام میں حاکم اﷲ کی مقرر کردہ حدوں کے اندر ہی قانون بنا سکتا ہے ‘ جمہوریت میں عوام کی منتخب کردہ اسمبلی جیسے چاہے قانون بنا سکتی ہے‘ اس پر کوئی پابندی نہیں۔
18– اسلام کا نظام ہمیشہ نیک لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں۔
جمہوریت کا نظام ہمیشہ اکثریت کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اکثریت ہمیشہ برے لوگوں کی ہوتی ہے۔اس لیے جمہوری طریقوں سے نہ اسلام آ سکتا ہے ‘ نہ اسلام رہ سکتا ہے۔ اسلام صرف اس صورت میں رہ سکتا ہے جب معاشرے کی باگ ڈور نیک لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔ جونہی باگ ڈور عوام کے ہاتھ میں آئی اسلام گیا۔ کیوں کہ عوام میں اکثریت بدوں کی ہوتی ہے۔
19– اسلام میں جو ایک دفعہ خلیفہ بن جائے منتخب ہو یا غیر منتخب اس کا ہٹانا جائز نہیں‘ الا یہ کہ وہ کفر کا ارتکاب کرے۔ایک خلیفہ کی وفات کے بعد ہی دوسرا خلیفہ بن سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ ‘ حضرت عمرؓ ‘ حضرت عثمان ؓ حضرت علیؓ کی خلافت میں اس کے بعد خیر القرون میں ہمیشہ اسی پر عمل رہا۔
جمہوریت میں تین یا پانچ سال بعد انتخابات ضروری ہیں۔ منتخب شدہ صدر یا وزیر اعظم کیسا ہی اچھا اور کامیاب کیوں نہ ہو الیکشن ضروری ہیں۔ جمہوریے اپنی لڑکی کو تو خاوند بار بار نہیں کرواتے جمہوریت کو ہر تین یا پانچ سال بعد نیا خاوند ضرور کر وا دیتے ہیں۔
20– اسلام میں حکومت انسانوں کا حق نہیں ‘ کہ ہر ووٹر امید وار بن کر الیکشن لڑنے کے لیے کھڑا ہو جائے ۔ اسلام میں حکومت اﷲ کے احکام کو نافذ کرنے کی ذمہ داری کا م ہے ۔ اس ذمہ داری کا اہل ہر کوئی نہیں ہو سکتا۔ نہ اس ذمہ داری کے اہل کا ہر کوئی انتخاب لڑ سکتا ہے۔ اس لیے اسلام میں جمہوری الیکشنوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جمہوریت میں حکومت عوام کا حق ہے۔ اس لیے ہر کوئی ووٹر بن سکتا ہے اور ہر کوئی امید وار بن کر الیکشن لڑسکتا ہے۔ اہل ہو یا نااہل‘ مسلمان ہو یا کافر۔
21– اسلام میں سب انسان برابر ہیں‘ کیوں کہ جب اﷲ کی مخلوق ہیں‘ اسی لیے کسی انسان کو کسی انسان پر حکومت کرنے کا حق نہیں۔حکومت کرنے کا حق صرف اﷲ کو حاصل ہے جو خالق ہے اور ساری مخلوق کا واحد مالک ہے۔ وہ جس کو جتناحکومت کا حق دے وہ اس حق کے اندر رہ کر حکومت کر سکتا ہے۔ مثلا خاوند بیوی پر ‘ راعی رعایا پر ‘ مالک نوکر پر‘ آقا غلام پر‘ بڑا چھوٹے پر۔ استاد شاگرد پر۔
جمہوریت میں انسان انسانوں پر حکومت کرتے ہیں۔ جس کو اکثریت حاصل ہو جائے وہ اکثریت کے زور سے اقلیت پر حکومت کرتا ہے۔
22– اسلام ایک دین ہے جو اﷲ کا ہے‘ جمہوریت میں مذہب اور دین کوئی چیز نہیں۔ مذہب ہر آدمی کا اپنا ذاتی اور پرائیویٹ مسئلہ ہے۔ جمہوری ریاست کو مذہب سے کوئی غرض نہیں۔
23– اسلام باطل کو برداشت نہیں کرتا‘ بلکہ اسے مختلف طریقوں سے مٹاتا ہے (جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ)[17:الاسراء:81]جو اسلام سے پھر جائے ‘یعنی مرتد ہو جائے ‘ اسلام اسے قتل کرتا ہے۔
جمہوریت میں مذہب سے آزادی ہے‘ ہر کوئی جو چاہے مذہب رکھے۔ کوئی پابندی نہیں‘ جس طرح چاہے مذہب بدلے‘ کوئی رکاوٹ نہیں‘ کوئی سزا نہیں۔ اس لیے جمہوریت میں لوگ پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔
24– باطل کو مٹانا اسلا م کا فرض ہے اور یہی جہاد ہے‘ جو قیامت تک فرض ہے ‘جمہوریت میں باطل سے جہاد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جمہوریت جہاد کو ختم کرتی ہے۔
25–اسلام کہتا ہے اگرتو اکثریت کی پیروی کرے گا یعنی جمہوری راہ پر چلے گا تو جمہوریت تجھے گمراہ کر دے گی ۔(واِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ ﷲِ )[6:الانعام:116]جمہوریت اکثریت کی پیروی کرتی ہے اس کے بغیراس کا گزارا نہیں۔
26– اسلام میں نہ حز ب اقتدار کا تصور ہے ‘نہ حزب اختلاف کا۔ اسلام پارٹیوں کے سخت خلاف ہے۔ خاص طور پر سیاسی پارٹیوں کی تو قطعاً اجازت نہیں۔
جمہوریت پارٹیاں بنانا سکھاتی ہے اور پارٹیوں کے بل بوتے پر چلتی ہے۔ پارٹیوں کے بغیر جمہوریت چل ہی نہیں سکتی۔ حزب اقتدا ر اور حزب اختلا ف کا ہونا لازمی ہے۔
27– اسلام میں عورت حاکم نہیں ہو سکتی ‘ سربراہ مملکت ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جمہوریت میں عورت بھی سربراہ مملکت ہو سکتی ہے‘ کوئی پابندی نہیں۔
28– اسلام میں طاقت کا سرچشمہ اﷲ ہے۔
جمہورت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔
29– اسلام میں عالم اور جاہل کی رائے برابر نہیں ہو سکتی۔
جمہوریت میں عالم اور جاہل کا ووٹ برابر کا درجہ رکھتا ہے۔
30– اسلام میں ایک حق والا لاکھوں کی اکثریت پر بھاری ہے۔
جمہوریت میں جدھر زیادہ ووٹ ہوں گے وہی طرف بھاری ہے۔ حق ‘ ناحق کا کوئی معیار نہیں۔
31– اسلام میں مرد اور عورت کا درجہ برابر نہیں۔
جمہوریت میں عورت کا ووٹ مرد کے برابر ہے۔
-32 اسلام اور جمہوریت میں ایک بڑا فرق یہ بھی ہے کہ وطن اور قوم جمہوری دور کے خدا ہیں۔ ان کے بغیر جمہوریت چل ہی نہیں سکتی۔
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
ج و پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اسلام میں ایسے خداؤں کا کوئی تصور نہیں۔ جب اﷲ رب العالمین[1:الفاتحہ:1]ہے ۔ رسول (رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ )[21:الانبیاء:107]ہے۔ مرکز ملی (ھُدًی لِّلْعَالَمِیْنَ )ہے۔ جب اﷲ نے اپنے رسول کو (کَافَّۃً لِّلنَّاسِ )[34:السباء:28]کہہ کر تمام دنیا کی طرف بھیجا ہے۔ قرآن کو( بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ )[14:ابراہیم:52]اور( بَصَائرُ لِلنَّاسِ )[28:القصص:43]کہہ کر تمام دنیا کے لیے پیغام ہدایت بنایا ہے۔ بیت اﷲ کو( وُضِعَ لِلنَّاسِ )[3:آل عمران:46]کہہ کر تمام دنیا کے لیے مرکز ہدایت بنایا ہے۔ امت مسلمہ کو( اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ )[3:آل عمران:110]اور( شُہَدَاءُ عَلَی النَّاسِ )[2:البقرہ:143]کہہ کر تمام دنیا پر نگران مقرر کیا ہے تو اسلام اورمسلمان کسی خاص علاقے یا مخصوص وطن میں محدود کیسے رہ سکتے ہیں اور قومیت کا محدود جمہوری تصور اسلام میں کیسے ہو سکتا ہے۔ جو صحیح مسلمان ہوگا جمہوری نہ ہوگا۔ اس کا ایمان تو یہی ہوگا۔
ہر ملک ملک ماست
کہ ملک خدائے ماست
یا دوسرے لفظوں میں
چین و عرب ہمارا ‘ ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم‘ وطن ہے سارا جہاں ہمارا