__
مقبول احمد سلفی
__
بیوہ اس خاتون کو کہتے ہیں جس کا شوہر وفات پاجائے ۔ ایسی خاتون کے لئے شوہر کی وفات بڑا صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے ۔ ایک طرف والدین کا گھر چھوٹ چکا ہوتا ہے یعنی ان کی معاشی کفالت سے آزاد ہوکر شوہر کی کفالت میں آچکی ہوتی ہے تو دوسری طرف زندگی کی تنہائی، بچوں کی پرورش وپرداخت اور گھر کے اخراجات جیسے اہم مسائل اس کے سامنے ہوتے ہیں ۔ ایسے صبر آزما مرحلہ میں اولین وقت پر صبر کرنے والی عورتوں کو اللہ کی طرف سے اجر وثواب ملتا ہے ۔ بخاری شریف میں ایک عورت کا کسی قریبی کی وفات پر رونے کا ذکر ملتا ہے، مسلم شریف میں بچے کی وفات پر رونے کا ذکر ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
مرَّ النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ بامرأةٍ تبكي عند قبرٍ ، فقال : اتَّقي اللهَ واصبري قالت : إليكَ عَنِّي ، فإنكَ لم تُصَبْ بمصيبتي ، ولم تعرفْهُ ، فقيل لها : إنَّهُ النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، فأتت باب النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، فلم تجد عندَهْ بوَّابِينَ ، فقالت : لم أعرفْكَ ، فقال : إنما الصبرُ عند الصدمةِ الأولى .(صحيح البخاري:1283)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک عورت پر ہوا جو قبر پر بیٹھی ہوئی رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ وہ بولی جاؤ جی پرے ہٹو۔ یہ مصیبت تم پر پڑی ہوتی تو پتہ چلتا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان نہ سکی تھی۔ پھر جب لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے، تو اب وہ ( گھبرا کر ) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر پہنچی۔ وہاں اسے کوئی دربان نہ ملا۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو پہچان نہ سکی تھی۔ ( معاف فرمائیے ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبر تو جب صدمہ شروع ہو اس وقت کرنا چاہیے۔
جو اللہ کی طرف سے فیصلہ ہوجاتاہے وہ ہوکر رہتاہے ،اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ، ایک مومن کو اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا ہے اور آنےوالی مصائب ومشکلات پر صبر کرنا ہے اور مذکورہ حدیث سے ہم نے جان لیا کہ صبر بعد میں نہیں مصیب کے نزول کے وقت ہی کرنا ہے ۔وفات پر یا نزول بلا پر آنکھوں سے آنسو بہ جائے ، بے اختیار رونا آجائے اس میں کوئی حرج نہیں ہے مگر قصدا پھوٹ پھوٹ کر دیر تک روتے رہنے ،آہ وبکا کرتے رہنے، جزع فزع کرنے ، زبان سے برے کلمے نکالنے اور نامناسب کام کرنے سے صبر کا اجر ضائع ہوجائے گا۔میت کی بیوہ یا ا س کے کسی رشتہ دار کو میت کے پاس جزع فزع کرنے کی ممانعت ہے ، وہاں چیخنے چلانے کی بجائے میت کے حق میں دعائے خیر کرنا چاہئے ۔ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت ان کے گھر والے چیخنے چلانے لگے تو آپ ﷺنے فرمایا:
لا تَدعوا علَى أنفسِكُم إلَّا بِخيرٍ ، فإنَّ الملائِكَةَ يؤمِّنونَ على ما تَقولون ثمَّ قالَ : اللَّهمَّ اغفِر لأبي سلَمةَ وارفع درجتَهُ في المَهْديِّينَ ، واخلُفهُ في عقبِهِ في الغابِرينَ ، واغفِر لَنا ولَهُ ربَّ العالمينَ ، اللَّهمَّ افسِح لَهُ في قبرِهِ ، ونوِّر لَهُ فيهِ(صحيح أبي داود:3118)
ترجمہ: اپنے لیے بد دعائیں مت کرو بلکہ اچھے بول بولو کیونکہ جو تم کہتے ہو اس پر فرشتے آمین کہتے ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( بطور دعا ) فرمایا: اے اللہ ! ابوسلمہ کی بخشش فرما، ہدایت یافتہ لوگوں کے ساتھ اس کے درجات بلند کر اور اس کے پیچھے رہ جانے والوں میں تو ہی اس کا خلیفہ بن ۔ اور اے رب العلمین ! ہماری اور اس کی مغفرت فرما، اے اللہ ! اس کی قبر کو فراخ اور روشن کر دے ۔
اسی طرح مصیبت لاحق ہونے کے وقت یہ دعا پڑھنی چاہئے ۔ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إذا أصابَ أحدَكم مصيبةٌ فليقل إنَّا للَّهِ وإنَّا إليهِ راجعونَ اللَّهمَّ عندَك أحتسبتُ مصيبتي فأجرني فيها وأبدلني منها خيرًا. (صحيح الترمذي:3511)
ترجمہ: جب تم میں سے کسی کوکوئی مصیبت لاحق ہو تو اسے : "إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، اللَّهُمَّ عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي فَأْجُرْنِي فِيهَا وَأَبْدِلْنِي مِنْهَا خَيْرًا”پڑھنا چاہئے۔
ایسے وقت میں سماج کے دوسرے افراد کو چاہئے کہ بیوہ کو دلاسہ دے اور اس کی تعزیت کرے اور اگر سماج میں مجبور ولاچار قسم کی بیوائیں ہیں تو سماج کے ذمہ دار طبقوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کی خبر گیری کرے اور ان کے ماتحتوں کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرے ۔
سطور ذیل میں ہم بیوہ خاتون کے احکام ومسائل بیان کرنے جارہے ہیں تاکہ ہمیں اس سلسلے میں اسلام کی رہنمائی سے آگاہی رہے ۔اسے ہم چند مسائل کے تحت ذکر کریں گے۔
پہلا مسئلہ :
بیوہ کا پہلا مسئلہ عدت سے متعلق ہے اور اس میں چند امور قابل ذکر ہیں ۔
(1)شوہر کے انتقال پہ بیوہ کو عدت کے طور پر چار مہینے اور دس دن گزارنے ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا(البقرة: 234)
ترجمہ: اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں ۔
یہ عدت چار مہینے دس دن (ایک سو تیس دن تقریبا)ان تمام بیوہ عورت کی ہے جو بڑی عمر کی ہو یا چھوٹی عمر کی خواہ حیض والی ہو یا غیر حیض والی اور مدخولہ ہو یا غیرمدخولہ البتہ اگر حاملہ ہے تو پھر عدت وضع حمل ہوگی یعنی عورت حمل وضع کرتے ہی عدت پوری ہوجائے گی جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ(الطلاق:4)
ترجمہ: اورحمل والیوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے۔
(2) عدت کی شروعا ت اس دن سے ہوگی جب شوہر کی وفات ہوئی ہے ۔ اگر کسی بیوہ کو کچھ دن تاخیر سے شوہر کی وفات کی خبر ملتی ہے توبھی عدت کی شروعات اسی دن سے مانی جائے گی جب وفات ہوئی ہو یعنی انجانے میں گزرے ایام بھی عدت میں شمار کئے جائیں گےاوراس درمیان عورت سے لاعلمی میں زینت کی چیزیں استعمال کرنے یا باہر نکلنے کی وجہ سے وہ معذور ہے ۔
(3) اس میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ بیوہ اپنی عدت کہاں گزارے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیوہ عورت اس جگہ عدت گزارے گی جہاں شوہر کا انتقال ہواہے ۔ بیوہ کے لئے نبی ﷺ کا فرمان ہے :
امْكُثي في بيتِكِ الَّذي جاءَ فيهِ نعيُ زوجِكِ حتَّى يبلغَ الْكتابُ أجلَهُ(صحيح ابن ماجه:1664)
ترجمہ: تم اپنے اس گھر ميں عدت بسر كرو جہاں تمہيں اپنے خاوند كى موت كى خبر ملى تھى حتی کہ کتاب اللہ کی بیان کی ہوئی مدت پوری ہوجائے۔
(4) اگر شوہر نے طلاق رجعی دی تھی یعنی ایسی طلاق جس میں شوہر کورجوع کا اختیار ہوتا ہے، وہ پہلی اور دوسری طلاق ہے۔ اور دوران عدت شوہر کی وفات ہوگئی تو ایسی مطلقہ رجعیہ کو چار مہینے دس دن بطور عدت گزارنے ہیں ۔ ہاں اگرشوہر نے تیسری طلاق دیدی یا طلاق رجعی کی عدت ختم ہوگئی پھر شوہر کا انتقال ہوا تو اسے وفات کی عدت نہیں گزارنی ہے کیونکہ شوہر سے جدا ہوچکی ہے ۔
(5) عدت کے دوران سفر کرنا منع ہے اس لئے حج وعمرہ کا سفر ہویا تفریح کا سفر یا بلاضرورت سفر(گھر سےباہر نکلنا) ہو یہ سب بیوہ کے لئے دوران عدت ممنوع ہیں لیکن وہ ضرورت کے تحت سفر کرسکتی ہے مثلا شوہر کے گھر عدت گزارنا مامون نہ ہویا دوسرے کا گھر ہوتو مامون ومناسب جگہ منتقل ہوکر عدت گزارسکتی ہے ، اسی طرح کوئی ضرورت کی چیز لادینے والا نہ ہو تو خود سے باہر نکل کر اشیاء ضروریہ خرید سکتی ہے اور اگر بیمار پڑجائے تو علاج کی غرض سے بھی گھر سے نکل سکتی ہے یعنی بیوہ کے لئے دوران عدت ضرروت کے تحت باہر جانا جائز ہے ۔ایک اور بات اہم ہے کہ اگر عورت سفر پہ ہو اور ابھی دور نہیں گئی ہووہاں شوہر کی وفات کی خبر ملے تو سفر سے لوٹ جائے اور شوہر کے گھر عدت گزارے لیکن سفر ضروری ہواور منزل کے قریب پہنچ گئی ہومثلا حج یا عمرہ کا سفر تو اپنا حج وعمرہ مکمل کرلے ۔
دوسرا مسئلہ :
بیوہ کے لئے جہاں چار ماہ دس دن عدت گزارنا ہے وہیں اس کے لئے ان دنوں سوگ منانے کا بھی حکم ہوا ہے ۔ نبی ﷺکا فرمان ہے : لا يحلُّ لامرأةٍ تؤمنُ باللهِ واليومِ الآخرِ أنْ تحدَّ على ميِّتٍ فوقَ ثلاثِ ليالٍ ، إلَّا على زوجٍ أربعةَ أشهُرٍ وعشرًا (صحيح البخاري:5334)
ترجمہ: کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے ، صرف شوہر کے لیے چار مہینے دس دن کا سوگ ہے ۔
اب ہمیں جاننا یہ ہے کہ سوگ منانے کا اسلامی طریقہ کیا ہے ؟ سوگ میں زینت اور بناؤسنگار کی چیزیں استعمال کرنا منع ہیں۔ خوشبو اور سرمہ سے بھی پرہیزکرنا ہےجیساکہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ سے روایت کرتی ہیں ۔
كنا نُنْهَى أن نُحِدَّ على مَيِّتٍ فوق ثلاثٍ، إلا على زوجٍ أربعةَ أشهرٍ وعَشْرًا، ولا نَكْتَحِلَ، ولا نتطيبَ، ولا نلبَسَ ثوبًا مَصْبوغًا إلا ثَوْبَ عَصْبٍ، وقد رُخِّصَ لنا عند الطُّهْرِ، إذا اغتسلَتْ إحدانا من مَحِيضِها، في نُبْذَةٍ مِن كُسْتِ أظفارٍ، وكنا نُنْهَى عن اتباعِ الجنائزِ .(صحيح البخاري:313)
ترجمہ: ہمیں کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے منع کیا جاتا تھا لیکن شوہر کی موت پر چار مہینے دس دن کے سوگ کا حکم تھا۔ ان دنوں میں ہم نہ سرمہ لگاتیں نہ خوشبو اور عصب ( یمن کی بنی ہوئی ایک چادر جو رنگین بھی ہوتی تھی ) کے علاوہ کوئی رنگین کپڑا ہم استعمال نہیں کرتی تھیں اور ہمیں ( عدت کے دنوں میں ) حیض کے غسل کے بعد کست اظفار استعمال کرنے کی اجازت تھی اور ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے سے منع کیا جاتا تھا۔
اس حدیث کی روشنی میں بیوہ عدت کے دوران رنگین وچمکدار کپڑے،ریشمی اور زعفرانی لباس،زینت کی چیزیں مثلا کان کی بالی، نان کا نگ، ،پازیب، کنگن، ہار،انگوٹھی، چوڑیاں، کریم ، پاؤڈر، خوشبودارتیل ، عطر، سرمہ ، مہندی وغیرہ استعمال نہیں کرے گی ۔حیض سے پاکی پر معمولی مقدار میں بخور وغیرہ استعمال کرسکتی ہےاور دوا کے طور پرسرمہ بھی استعمال کرسکتی ہے مگر صرف رات میں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ سوگ میں عورت پر غم کے آثار ظاہر ہوں اس وجہ سے زینت کی چیزیں استعمال کرنا منع ہے۔ سفید کپڑا ہی بیوہ کی علامت نہیں ہے کوئی بھی عام سادہ کپڑا جو خوبصورت نہ ہو پہن سکتی ہے اور ضرورت کی چیزیں انجام دینے مثلا کھانا پکانا، پانی بھرنے، جھاڑو دینے، غسل کرنے، کپڑا صاف کرنے ، بات چیت کرنے اور گھریلو امور انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے یہاں تک کہ اگر کوئی ملازمت ہواور چھٹی کی کوئی گنجائش نہ ہو توبناؤسنگار سے بچتے ہوئے ملازمت بھی کرسکتی ہےکیونکہ یہ ضرورت میں داخل ہے۔ بلاضرورت بات چیت، ہنسی مذاق، گھر سے نکل کر کام کرنا (الایہ کہ اشد ضرورت ہو)، ٹیلی ویزن ،ریڈیو ، اخبار اور موبائل کا بلاضرورت استعمال کرنا یعنی وقت گزاری کے لئے منع ہے ۔ خالی وقت میں قرآن کی تلاوت، ذکرواذکار، دعاواستغفاراورکتب احادیث وسیر کا مطالعہ بہتر ہے ۔
تیسرہ مسئلہ:
جب بیوہ کی عدت مکمل ہوجائے یعنی وہ بطور عدت ایک سو تیس دن پورے کرلے تو جہاں چاہے دوسرے دیندار مرد سے شادی کرسکتی ہے ۔ اس سے تنہائی کی حفاظت اور پاکدانی نصیب ہوگی نیزمعاش کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ سماج میں اولاد والی خاتون کا شادی کرنا معیوب مانا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے ۔ یہاں میں ان مردوں کو بھی مخاطب کرنا چاہتا ہوں جن کی بیوی کی وفات ہوگئی وہ کسی بیوہ خاتون سے شادی کرکے اپنی اور اس کی زندگی بہتر بنالیں ۔ بیوہ سے کوئی ضروری نہیں ہے کہ شادی شدہ مرد ہی شادی کرے ، غیرشادی شدہ مرد بھی شادی کرسکتا ہے ۔ نبی ﷺ کا پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا آپﷺ غیر شادی شدہ اور خدیجہ رضی اللہ عنہا بیوہ تھیں۔ ان کے علاوہ کئی بیوہ خاتون سے آپ ﷺ نے نکاح کیا۔
یہاں یہ خیال رہے کہ دوسری شادی عدت کے بعد ہی ہوگی ، عدت کے دوران نکاح اور پیغام نکاح دونوں غلط ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ لڑکی باکرہ ہو یا ثیبہ دونوں کو ولی کی اجازت لینی ہوگی۔
شیخ البانی ؒ نے صحیح ابن ماجہ (1537) کے تحت ذکر کیاہے : "لا نِكاحَ إلَّا بوليٍّ” نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ بغیر ولی کے نکاح نہیں ہے ۔ اسی طرح صحیح ابوداؤد للالبانی (رقم : 2083)میں ہے :أيُّما امرأةٍ نَكَحَت بغيرِ إذنِ مَواليها ، فنِكاحُها باطلٌ ، ثلاثَ مرَّاتٍ۔ یعنی جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔یہ بات آپ ﷺ نے تین بار کہی ۔
چوتھا مسئلہ :
شوہر کی وفات کے بعداس کا چھوڑا ہوا مال اس کے وارثین میں تقسیم کیا جائے گا۔ وارثین میں بیوہ بھی داخل ہے۔ اگر بیوہ کو اولاد ہو تو کل مال کا آٹھواں حصہ ملے گا لیکن اگر کوئی اولاد نہ ہو تو چوتھائی مال کا مستحق ہے۔ میت کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو آٹھواں یا چوتھائی حصہ میں سے سب برابر برابرمال لے گی۔ میراث اس بیوہ کو بھی ملے گا جس سے صرف عقد ہوا ہو اور شوہر نے دخول نہیں کیاہو، اسی طرح مطلقہ رجعیہ بھی میراث کا مستحق ہے۔
پانچواںمسئلہ :
بیوہ سے متعلق لوگوںمیں کئی قسم کی غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں اس میں ان کا ازالہ کیاجاتا ہے۔
(1) عورتوں میں ایک خیال عام ہے کہ بیوہ کو لازما سفید کپڑا ہی پہننا ہوگا ، اسی عقیدہ کے تحت بہت سی بیوہ خواتین جو دوسری شادی نہیں کرتیں مرتے دم تک سفید لباس ہی لگاتی ہیں جبکہ یہ خیال غلط ہے ۔ کالا، ہرا، نیلا کوئی بھی سادہ لباس بیوہ عدت میں لگاسکتی ہے۔
(2) بیوہ کا مردوں سے بات کرنا یا موبائل وٹیلی فون سے رابطہ کرنا بھی برا سمجھا جاتا ہے ۔ یہ خیال بھی درست نہیں ہے ،ہاں بس ضرورت کی حد تک بات کرے۔
(3) گھر میں بغیر چپل کے چلنا، چاندنی رات میں نکلنا یا ہفتہ میں ایک سے زائد بار نہانا غلط تصور کیا جاتا ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ بیوہ چیل وبغیر چل سکتی ہے، چاندنی رات میں گھر کے آنگن یا چھت پہ ٹہل سکتی ہےاور جتنی بار نہانے کی ضرورت ہو نہا سکتی ہے۔ نہانے میں بغیر خوشبو کے صابن استعما ل کرے۔
(4) عدت مکمل کرنے پر مخصوص طریقہ بھی کہیں کہیں رائج ہے مثلا ضرروی طور پر نہانا، ضروری طور پر خوشبو استعمال کرنایا لازما خواتین میں زینت کا اظہار کرنا ، یہ سب دین اسلام میں سے نہیں ہے یعنی عدت مکمل کرنے کا کوئی مخصوص طریقہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ دوسروں کی جانکاری کے لئے لازما زینت استعمال کرے۔
(5) بیوہ کو حقارت کی نظر سے دیکھنا یا اس کے شوہر کی وفات سے کسی قسم کی نحوست لینا بھی بے دینی وجہالت ہے ۔
(6) بیوہ سے شادی یا بیوہ کی شادی بھی نادانوں کی نظر میں غلط معلوم ہوتی ہے حالانکہ شادی سکون ، عفت، برکت، روزی اور بے حیائی سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔
(7) ایک بھیانک غلط خیال یہ بھی عوام الناس میں منتشر ہے کہ شوہر کی وفات سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے اس لئے میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوجاتے ہیں لہذا بیوی شوہر کو چھو نہیں سکتی، دیکھ نہیں سکتی، غسل نہیں دے سکتی ۔ یہ ساری باتیں غلط ہیں ۔ شوہر سے نکاح ٹوٹ جانے کی کوئی دلیل نہیں اور نہ ہی زوجین ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں ۔ وفات کے بعد بیوی شوہر کو دیکھ سکتی ہے ، چھو بھی سکتی ہے اور نہلا بھی سکتی ہے۔
بیوہ سے متعلق یہ مختصر احکام تھے ، ان کی جانکاری دوسروں کوبھی دیں تاکہ لوگوں میں بیوہ کے دینی احکام عام ہوں اور لوگ جہالت سے بچ سکیں ۔