"ماما! آج پھر ردا کی بچی نے میرا لنچ کھا لیا اور اس گندی سی ہما نے میری کاپی لے لی تھی۔” اس نے حسبِ معمول گھر آتے ہی روداد سنانا شروع کردی۔
"چلو بیٹا، کوئی بات نہیں۔ آپ اپنی دوستوں کے ساتھ لنچ شئیر نہیں کرتیں کیا؟؟” اس کی ماں نے پیار سے پوچھا۔
"نہیں! بھلا میں کیوں کروں شئیر؟؟ اپنا لنچ خود لایا کریں ناں!” اس نے منہ پھلا کر جواب دیا۔ اس سے پہلے کہ اس کی ماں اسے کچھ کہتیں، وہ اپنا بستہ اٹھا کر دوسرے کمرے میں چل دی۔
وہ بچپن ہی سے ایسی تھی…. ذرا ذرا سی بات پر بپھر جانے والی…. وہ اپنے آگے کسی کو بڑھتا نہ دیکھ سکتی تھی۔ خود کو نمایاں رکھنے کے شوق نے اس کے دل میں عجیب روگ پیدا کردیا تھا….. اسی مزاج کے ساتھ اس نے اسکول کی زندگی مکمل کی۔ وہ اس دوران کم ہی سہیلیاں بنا سکی…. کہ وہ دوستی نبھا نہیں سکتی تھی!! اس کی انا کا بت اسے ہر کسی سے گھلنے ملنے نہ دیتا تھا۔
…………………………………..
دھڑ سے دروازہ کھلا اور نمرہ اس کے سر پر کھڑی تھی۔ "تمہیں پتہ ہے کہ ماہا کی شادی میں صرف دو ہفتے رہ گئے ہیں۔ تم نے کوئی تیاری نہیں کرنی؟”
"ہاں کرنی تو ہے۔ آج چلتے ہیں بازار!” وہ بھی جیسے تیار بیٹھی تھی۔
کچھ ہی دیر بعد دونوں گاڑی میں تھیں۔ انہیں باہر گھومنے اور لانگ ڈرائیو کا ہمیشہ سے شوق تھا۔ نمرہ اس کی کزن اور بچپن کی سہیلی تھی۔
"اس دفعہ ہما سے زیادہ اچھی شاپنگ ہونی چاہیئے۔” گاڑی چلاتے ہوئے اچانک اس نے کہا۔ یہ اس کے دل کی وہ جلن تھی جس کا وہ کبھی کبھار اظہار کردیا کرتی تھی۔ اور نمرہ اس کے اس انداز پر مسکرانے لگی۔”
"ہاں بھئ ٹھیک ہے!” نمرہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
ماہا کی شادی کا دن بھی آگیا۔ اس دن ان دوستوں نے خوب ہلہ گلہ کیا۔ وہ شوخ و چنچل مشہور تھی۔ اس لئے جہاں بھی ہوتی وہاں خوب شور شرابا ہوتا…. اس دن بھی وه سب سے نمایاں تھی۔ بہت سی نگاہیں اس پر اٹھتی تھیں… کچھ تعریفی اور کچھ تنقیدی……! البتہ اُسے کسی کی ذات سے کوئ فرق نہ پڑتا تھا۔
…………………………………..
اس رات وہ سیمسٹر کے امتحانات کی تیاری میں مصروف تھی کہ امی کی آواز سے چونکی۔ اس کی امی گزشتہ کئی دنوں سے بیمار تھیں، اور اب تکلیف کی شدت سے کراہ رہی تھیں۔ وہ امی کے کمرے کی طرف بھاگی۔ ان کا چہرہ زرد پڑ چکا تھا۔ بدحواسی کے عالم میں اس نے ابو کو اٹھایا اور کچھ ہی دیرمیں وہ ICU میں ایڈمٹ تھیں۔ لیکن قدرت کے لکھے کو کب کوئی ٹال سکا ہے۔ وہ ان کے کمرے کے باہر انتظار کے کرب لمحات کاٹ رہی تھی….. جب ڈاکٹر کا اُترا چہرہ اور جھکا سر سب کو بتانے کے لیے کافی تھا! اس کے بعد تدفین تک کے مراحل تک اسے کچھ ہوش نہ تھا۔ بس ماں کا آخری مرتبہ دیکھا چہرہ اس کے ذہن میں گردش کرتا رہا۔ آگے کی زندگی اسے تاریک نظر آنے لگی۔ اپنا آپ زندگی کی شاہراہ پر تنہا محسوس ہوا، اور اسے…… زندگی سے اور نفرت ہوگئی!!
جیسے تیسے کرکے وہ امتحانات سے فارغ ہوئی۔ گھر کے زیادہ تر کام نوکر چاکر اور خادمائیں کرجاتی تھیں۔ ماں کی وفات کے بعد وہ اکثر تنہائی میں رویا کرتی تھی، لیکن وہ سب کے سامنے رہ کر اپنی کمزوری کا اعتراف نہیں کرنا چاہتی تھی۔ البتہ اس دن جب نمرہ اس سے ملنے آئی….. کافی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے بعد جب ماں کا تذکرہ ہوا تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ وہ دل کھول کر روئی تھی۔ کتنی ہی دیر نمرہ اسے دلاسا دیتی رہی۔
نمرہ کے جانے کے بعد سونے سے قبل اس نے اپنی ڈائری نکالی۔ وہ بچپن ہی سے ڈائری لکھنے اور شاعری کرنے کی شوقین تھی۔ ماں کی وفات سے اب تک کی ساری کیفیات اس نے صفحہ قرطاس پر منتقل کردی تھیں۔ آخر میں یہ شعر قلم بند کرکے اس نے ڈائری واپس شیلف پر رکھ دی اور نیم دراز ہوگئی۔
مجھے اپنے ضبط پر ناز تھا، سرِ بزم رات یہ کیا ہوا…..
میری آنکھ کیسے چھلک پڑی مجھے رنج ہے یہ برا ہوا!
…………………………………..
وقت بڑا مرہم ہوتا ہے….. اس کی زندگی بھی آہستہ آہستہ سابقہ ڈگر پر رواں ہوگئی۔ اس دن بھی وہ لیپ ٹاپ پر کام میں مگن تھی جب نمری اس کے کمرے میں آئی۔
"شفاء…….. "
"میں نے سنا ہے تم کیلی فورنیا جارہی ہو؟ مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے؟ ایم فل کرو گی؟” اس نے ایک ساتھ ہی کئی سوال کرڈالے۔
"ہاں….. سات دنوں بعد فلائٹ ہے۔” شفاء نے مختصر جواب دیا۔
"اتنی دور….. رہ لو گی اکیلے؟؟”
"ہوں….. ظاہر ہے! کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا تو پڑتا ہے۔”
…………………………………..
اگلے دن وہ کالج اپنے ڈاکومنٹس کےکسی ضروری کام سے گئی تھی، آفس سے کام کروا کے وہ باہر نکلی تو وہیں راہداری میں بوا صفائی
کررہی تھیں کہ اچانک ان کا ہاتھ شفاء کے پاؤں سے لگ گیا۔ اس کا غصہ لمحے میں آسمان تک پہنچ گیا۔
"تمہیں نظر نہیں آتا؟” اس نے سخت لہجے میں ان کی طرف مخاطب ہو کر کہا۔
"بیٹا! آپ لوگ ایک طرف ہو کر چلا کرو ناں”
"تمہیں خود خیال ہونا چاہیے…. تم لوگوں کے منہ لگنا ہی بیکار ہے!” اس کی انا کا بت اسے خاموش رہنے نہیں دے رہا تھا۔
بوا کچھ لمحے کے لئے خاموش ہوگئیں۔ پھر جھاڑو اٹھا کر کہنے لگیں، بیٹا! "تجھے تو مرض لاحق ہے……!”
"اونہہ…. شفاء غصے میں پیر پٹختی ہوئی آگے چلی گئی۔”
لیکن ان کا کہا یہ جملہ ”تجھے تو مرض لاحق ہے” اس کے ذہن میں گونجتا رہا۔
گھر آنے کے بعد سے اگلے دن تک سارا وقت تیاریوں میں گزرا،اسے سر کھجانے کی فرصت نہیں تھی،تو گذ شتہ دن کے واقعے کو وہ تقریباً بھول چکی تھی۔اور پھر بہت سی امیدیں اور خدشات لئے وہ اُڑان بھر چکی تھی۔
…………………………………..
دو ہفتوں کے اندر اندر وہ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ایڈجسٹ ہوچکی تھی۔ اس کے کمرے میں اس کی اپنی روم میٹس سے بھی بہت اچھی دوستی نہ ہوسکی۔ وہ بس کام کی بات کرتی، ورنہ زیادہ تر اپنے کاموں میں ہی مصروف رہتی تھی۔ اس کے پڑھائی کے شیڈول نے ویسے ہی اسے بہت مصروف کردیا تھا۔
اُس رات بھی وہ کافی دیر تک بیٹھ کر اسائنمنٹ بنا رہی تھی،کہ اُس بوا کا وہ جملہ پھر سے اُسے یاد آگیا،اور نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کے دماغ پر ہتھوڑے برساتا رہا۔ رات گئے وہ تھک ہار کر بیڈ پر لیٹی تو تکیے کی پُشت سے ٹیک لگا کر اُس نے اپنی ڈائری کھول لی،تاکہ ذہن کا بوجھل پن قرطاس پر منتقل کر سکے۔ بس ایک جملہ لکھ کر اُس نے ڈائری واپس رکھ دی۔ "شفاء! مرض….. تمہیں کون سا مرض لاحق ہے آخر……”
اگلے دن اسائنمنٹ جمع کروا کے جب وہ شام ڈھلے واپس اپنے روم میں پہنچی تو کچھ دیر بعد ہی گھر سے فون آیا اور نمرہ کی شادی کی اطلاع ملی۔ وہ ویسے ہی خاندان کی کافی تقاریب، دور ہونے کی وجہ سے چھوڑ چکی تھی۔ لیکن یہ نہیں چھوڑ سکتی تھی اور ابو کا بھی اصرار تھا کہ کم از کم ایک دو ہفتے کے لئے آجاؤ۔ سو وہ ذہنی طور پر تیار ہوگئی۔
"گڈ مارننگ” صبح صبح ایک لڑکی مسکراتے ہوئے اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔
وارڈن اس کے ساتھ تھیں، جس سے اندازہ لگانا مشکل نہ رہا کہ وہ اس کمرے میں اس کی روم میٹ ہوگی، کیونکہ ایک ہفتہ قبل ہی دو لڑکیوں نے اپنے رومز تبدیل کروا لیے تھے۔
اس نے اسے اندر بلا لیا۔ "آپ کا تعارف؟” شفاء نے پہل کی۔
"میرا نام جولیا یے۔ میں یہیں کیلی فورنیا میں رہتی ہوں۔ آپ کا نام کیا ہے؟”
!مجھے شفا کہتے ہیں۔ چلیں باتیں تو ہوتی رہیں گی، آپ اپنا سامان سیٹ کرلیں۔”
شکریہ کہتے ہوئے جولیا اپنا سامان بیگ سے نکالنے لگی۔
"میں تو اپنی ہم مذہب کی لڑکیوں کے ساتھ نباہ نہ کرسکی، یہ غیر مذہب کی لڑکی کے ساتھ نہ جانے کیسے گزارا ہوگا۔” اس کے دل کے کسی گوشے میں خیال وارد ہوا۔ جسے اس نے فوراً یہ کہہ کر جھٹک دیا۔ "خیر مجھے اس سے کیا، اس کا اپنا معاملہ یے، میری اپنی زندگی…..”
…………………………………..
"تم مسلمان ہو ناں؟؟” رات کافی کا مگ شفاء کو پکڑاتے ہوئے جولیا نے اس سے پوچھا۔ جس پر وہ چونکی تھی…….. مسلمان……دل میں احساسات منتشر ہوئے تھے….. ایک لمحے کے لئے شرمندگی کی کیفیت اُبھری، اور اگلے ہی لمحے اس نے خود کو سنبھالا "ہاں!” اس نے مختصر جواب دیا۔
"تمہیں پتہ ہے میں اس شہر میں رہتے ہوئے بھی ہاسٹل کیوں آئی؟؟”
"کیوں؟” شفاء نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی باتیں سننے کےلئے فارغ ہوگئی۔
"گزشتہ دو سالوں سے میں عجیب بے چینی میں مبتلا ہوں۔ سکون کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا۔ میں نے ان دو سالوں میں اطمینانِ قلب کے لیے موسیقی سے لے کر شراب تک….ہر چیز کا سہارا لیا! مجھے وقتی سکون نصیب ہوا، لیکن مجھے لگتا ہے کچھ خلا یے جو میرے اندر پُر نہیں ہوتا۔ کسی خاص چیز کی طلب……! لمحہ بھر توقف کے بعد وہ پھر بولی "ان دو سالوں میں شاید ہر مذہب کا مطالعہ کیا لیکن…..تشنہ لب ہی رہی۔”
"اسلام کا مطالعہ بھی کرلیا؟” شفاء نے اس کی بات کاٹی۔ شاید اس کے اندر کا کہیں کا چھپا ہوا مسلمان کچھ وقت کےلئے بیدار ہوا تھا۔
"نہیں!” ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے جواب دیا۔ اسلام کے بارے میں خوف اتنا تھا۔ معذرت کے ساتھ…. لیکن اسلام اور دہشت گردی، اس کے جبر و زبردستی کے اُصولوں کے خوف سے اس کی طرف بڑھی ہی نہیں۔ خوف آتا تھا اور مجھے جس سکون کی تلاش تھی، وہ مجھے پتہ تھا کہ یہاں نہیں مل سکے گا۔”
کچھ لمحے وہ خاموش ہوئی۔ "اوہ…….اچھا!” شفاء کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
"ہاں تو پھر تم یہاں کیوں آئی؟”
وہ پھر گویا ہوئی "انسانوں کو پرکهنے کےلئے…… "لوگوں کو پڑ ھنے، اُن کے معاملات کو جاننے کےلئے۔ سوچا بقیہ پڑھائ یہیں مکمل کروں۔ شاید کوئی سرا ہاتھ آجائے، جو اندر کے خلا کو پُر کر سکے۔ میں چرچ بھی گئ، وہاں فادر سے بہت سی تعلیمات بھی حاصل کیں، میں مندر گئی، گرجا گھر گئی، ایک دو ماہ کےلئے ترکِ دنیا کرکے رہبانیت کا تجربہ بھی کیا۔ مجھےلگتا تھا جیسے…… "اس کے لہجے میں نمی محسوس ہوئی۔ "جیسے مجھے کوئی بیماری لگ گئی ہے، میں نے ماہر نفسیات کو بھی دکھایا….. وہ کہتے ہیں کہ آپ بالکل نارمل ہیں۔ لیکن میں خود سے کہتی ہوں کہ جولیا! تمہیں کوئی بیماری ہے! کوئی ناسور جو میری روح کو چھلنی کر کے رکھتا ہے، کوئی دل کا مرض جو مجھے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی مضطرب رکھتا ہے۔ میرے ماں باپ نے مجھے ہر چیز لا کر دی۔ میں نے تعلیمی دنیا میں شاندار کامیابی حاصل کی، مرے پاس لذت کے لئے ہر سامان موجود تھا، لیکن…….. میری تشنگی ختم نہ ہوئی۔”
وہ خاموش ہوگئی۔ کافی رکھے رکھے ٹھنڈی ہو رہی تھی۔ شفاء نے مگ اٹھا کر اس کے ہاتھ میں تھمایا۔ وہ اسے کیا تسلی دیتی، اس کا ذهن تو جولیا کے انہی الفاظ میں گردش کرتا رہا۔ "کوئی ناسور” کوئی بیماری جو میری روح کو چھلنی کردیتی ہے۔ "کوئی دل کا مرض……”
کمرے کی ٹھنڈک، موسم کی خنکی کا احساس دلارہی تھی۔ سردی کی شدت کے ساتھ رات بھی گہری ہوتی جارہی تھی۔ اطراف کی خاموشی میں کبھی کبھار کسی پرندے کی چہچہاہٹ، کسی گاڑی کا ہارن، فضا کو چیرتا اور پھر گہری خاموشی…… اندر بهی اسی خاموشی کا بسیرا تھا۔ ایک ظلمت میں بھٹکتی شفاء کی تلاش میں اور ایک شفاء کے ہوتے ہوئے بھی تاریکیوں کا شکار!……
یہ سکوت جولیا نے توڑا۔ "چلو اب تم آرام کرلو۔ تمہاری کل دوپہر کی فلائٹ بھی ہے۔ وہاں سے آجاؤ پھر کبھی آرام سے بات کریں گے۔”
اور شفاء اثبات میں سر ہلاتی ہوئی اپنے بیڈ پر آگئی۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ "مذہب کے فرق کے باوجود ہم دونوں کی دلی کیفیات ایک جیسی کیوں ہیں….” وہ پہلی بار اس پر سنجیدگی سے سوچنے لگی۔ اسے جولیا کی ساری باتیں پھر سے یاد آنے لگیں۔ اس نے وہ خلا اپنے اندر تلاش کرنے کی کوشش کی۔ بوا کی وہ بات پھر سے اس کا ذہن منتشر کرنے لگی۔ "تجھے تو مرض لاحق ہے۔” اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
"یا اللّه” اس کے دل کی گہرائیوں سے یہ لفظ ادا ہوا۔ ورنہ محض رسمی طور پر کبھی کبھار نکل جاتا تھا۔
"یا اللّه تُو ہی کوئی شفاء کردے۔” پھر اسے پتہ بھی نہیں چلا اور وہ نیند کی وادیوں میں جاچکی تھی۔
…………………………………..
اگلے دن کی فلائٹ سے وہ پاکستان آچکی تھی۔ سب سے مل کر اسے آسودگی کا احساس ہورہا تھا۔ بھائی اس کے آگے نچھاور ہورہے تھے، دادا جان اور ابو اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہورہے تھے۔ وہ دن اس کے گھر والوں کے ساتھ گزرے، باہر گھومتے پھرتے، سیر و تفریح کرتے ہوئے….. ان دنوں وہ ہاسٹل، جولیا سب باتیں تقریباً بھول چکی تھی۔
"یہ بچے کیسے کچرا چنتے ہیں اور وہیں سے اپنے کھانے کی چیزیں بھی جمع کرتے ہیں۔” اس نے گاڑی سے باہر افغان بچوں کو دیکھ کر حقارت اور افسردگی کے ملے جلے جذبات سے کہا۔
"بیٹا، یہ اسی میں خوش ہوتے ہیں۔ اللّہ تعالیٰ ہر بندے کو رزق دیتا ہے۔ اصل چیز دل کا سکون ہے۔ ان کی زندگی محلوں اور بنگلوں میں رہنے والوں سے زیادہ آسودہ ہوتی ہے۔ ہنستے ہیں، کھلکھلاتے ہیں، ان میں زندگی مسکراتی ہے! ان کے دلوں کا اطمینان ان کے چہروں سے چھلکتا ہے۔” دادا جان نے محبت سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
اور وہ خاموش ہوگئی۔ یہ الفاظ پھر اس کے دل میں کھلبلی مچا گئے۔ اس کا دل چاہا وہ زور زور سے روئے، چیخے اور پوچھے کہ کوئی ہے جو اس کے مرض کا بھی علاج کرسکے، جس کی وہ تشخیص بھی نہیں کر پارہی؟ لیکن ضبط کیے اندر ہی اندر وہ اس طوفان سے لڑتی رہی۔
ایک ہفتہ شادی کی مصروفیت میں گزرا۔ دنوں کا پتہ ہی نہ چلا۔ بہت عرصے بعد خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد وہ ہلکی پھلکی سی ہوگئی تھی۔ شادی کے دوران بهی شفاء سب کی آنکھوں کا مرکز رہی۔ ہمیشہ کی طرح وہ نمایاں نظر آرہی تھی۔ نمرہ اپنے گھر رخصت ہوئی اور یہ سب اپنے اپنے گھروں میں واپس آگئے۔ شفاء کی واپسی میں چار دن رہ گئے تے اور وہ یہ وقت آرام سے گھر گزارنا چاہتی تھی۔
اگلے دن ناشتے سے فارغ ہوکر وہ دادا جان کے کمرے میں دودھ کا گلاس دینے گئی۔ لیکن وہ قرآن پڑھنے میں مصروف تھے تو اس نے انہیں ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اس کے سامنے اُن کی پشت تھی، وہ وہیں کھڑی ہوکر ان کا انتظار کرنے لگی۔ اُن کی آواز کا سوز اس کے دل میں اُتر رہا تھا، کتنے سالوں بعد اس نے قرآن کی تلاوت سنی تھی۔ بچپن میں اکثر دادا جان کی آواز سے صبح اس کی آنکھ کھل جاتی تھی۔ بلند آواز میں تلاوت کرنا ان عادت تھی، وہ ساتھ ساتھ ترجمہ بھی پڑھتے تھے۔ وہ محو ہوگئی………..
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ وَ ہُدًی وَّ رَحمَۃٌ لِّلمُؤۡمِنِینَ ْ
"اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کرلیں مومنین کےلیے رہنمائی اور رحمت ہے۔”
(یونس ۵۷: ۱۰)
وہ یہاں سن کر ٹھٹھک گئی، اسے اپنا آپ سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا…… اس کا دل اتھل پتھل ہورہا تھا….. اس نے وہیں کرسی پر بیٹھنا چاہا، لیکن اس کے قدموں کی آہٹ سے دادا جان متوجہ ہوگئے۔ انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو شفاء کرسی پر ڈھے سی گئی تھی۔ "کیا ہوا بیٹی” تم کب آئیں؟ ادھر آجاؤ…..”
وہ ہمت مجتمع کرتی ہوئی اُن کے قریب آکر بیٹھ گئی۔ "دادا جان یہ جو ابھی آخر میں آپ نے پڑھا تھا۔ یہ دوبارہ پڑھیے گا…… دادا جان نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پھر سے پڑھنا شروع کیا۔ اور شفاء کا ذہن بس اسی ٹکڑے کے گرد گھوم رہا تھا۔ "جو دلوں کے امراض کی شفاء ہے……….” آنکھوں کی نمی آنسو بن کر تیرنے لگی۔
دادا جان کے اصرار پر اس نے گزشتہ ہفتوں کی ساری کییفیت اور تمام واقعات ان کے گوش گزار کر دیے۔ یہ امراض اور امراض کی شفاء کیا ہوتی ہے دادا ابو؟ وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح ان سے پوچھ رہی تھی جسے اُمید ہونے لگی کہ جس چیز کی اسے تلاش تھی وہ ملنے والی ہے۔
"بیٹا یہ دلوں کے جو امراض ہوتے ہیں ناں، یہ جسمانی امراض سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ حسد لوگوں میں نمایاں آنے کی خواہش، دلوں میں بغض، خود پسندی، دوسروں کو کمتر سمجھنا اور انا کا بت ہمیں جھکنے نہیں دیتا…..” وہ بیماریوں کے نام لے رہے تھے اور شفاء کی نظروں کے سامنے گزشتہ زندگی کی فلم چل رہی تھی جہاں یہ سب کچھ تھا۔ اس کی زندگی اسی محور کے گرد تو گھومتی تھی……
"اور بیٹی! یہ جس شفاء کا ذکر ہے…..” وہ پھر ہمہ تن گوش ہوگئی۔
"یہ وہ قرآن ہے۔” انہوں نے پاس رکھے مصحف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"یہ زخمی دلوں پر مرہم رکھتا ہے، بے چین روحوں کو سکون عطا کرتا ہے۔ اس کے پاس آنے والا کبھی تشنہ لب نہیں رہتا۔”
"یہ شفاء کیسے بن جاتا یے دادا جان؟؟”
"زندگی گزارنے کا کیا پیارا طریقہ بتاتا ہے یہ۔..
"اللّه کا رنگ اختیار کرو اور اس سے اچھا رنگ اور کس کا ہوگا۔” (البقرة: ۱۳۸)
دادا جان چونک کر رک گئے۔ انہیں اپنے پاؤں پر نمی سی محسوس ہوئی، شفاء سر جھکائے بیٹھی تھی کہ آنسو چھلک کر دادا جان کے قدموں پر گر پڑے۔ "اوہ سوری دادا جان!” وہ شرمندہ ہوگئی۔
اور دادا جان اس کی اس ادا پر بھرپور انداز میں مسکرا اٹھے۔ اسے قریب کرکے کاندھے سے لگا لیا تاکہ اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے۔ وہ کتنی ہی دیر روتی رہی۔ "دادا ابو میں نے زندگی کے ۲۴ سال اسی اندھیرے میں گزار دیے۔”
"شکر ادا کرو بیٹا اس رب کا جس نے تمہیں پلٹنے کی توفیق دی….. وہ بندے کی توبہ کا منتظر ہوتا ہے۔ ہم علاج کے موجود ہوتے ہوئے بھی اس سے مدد نہیں لیتے۔ کتنے سالوں سے تمہارارب تمہارا منتظر تھا، آج وہ بہت خوش ہوگا تم سے۔ جاؤ بیٹی، وہ تمہارا منتظر ہے۔”
دادا جان نے اسے نمازِ عشاء پڑھنے کی تاکید کی، اس کا کاندھا تھپتھپایا اور وہ آہستگی سے پُرسکون دل کے ساتھ اپنے کمرے میں واپس آگئی۔
نمازِ عشاء کی ادائیگی کے بعد وہ ہلکی پھلکی ہوگئی۔ دیر تک رب سے راز و نیاز کرتی رہی۔ پھر صوفے پر بیٹھ کر اس نے دادا جان کا دیا ہوا قرآن کھولا۔ "جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔”
"جو دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے، اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے۔”
سورۃ فرقان سامنے کھلی تھی اور اس کے رونگٹے کھڑے ہوئے جاتے تھے۔ "اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں…….” اس کا شوق بڑھ گیا۔ اسے اردگرد کا ہوش نہ رہا۔ "جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔” ماضی کی تلخ حقیقتیں پھر اس کے سامنے گردش کرنے لگیں، وہ تو خود لغو چیزوں میں ملوث تھی۔ اوراق کو پیچھے پلٹا تو سورۃ آل عمران سامنے تھی، اس کا رب پھر اس سے مخاطب…..
"یہ وہ لوگ ہیں جو صبر کرتے ہیں اور سچ بولتے ہیں اور عبادات میں لگے رہتے ہیں……” اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور بُرائی کر بیٹھتے ہیں تو اللّہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللّہ کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے۔”
"یا اللّہ مجھے معاف کردیں پلیز!” اس پر رقت طاری ہوگئی۔ اسے لگا جیسے ہر لفظ اس کے لئے ہے، جیسے اس کا نزول ابھی ہی ہورہا ہو……
اس کے آنسوؤں نے سارے منظر دھندلے کردئیے تھے۔ قرآن بند کرکے وہ اپنے بستر پر آگئی۔ رات کا کافی حصہ بیت چکا تھا۔ یہ لمحات اس کی زندگی کا حاصل تھے…… اس نے ڈائری کھولی، قلم سنبھالا اور لرزتے ہاتھوں کے ساتھ اس پر احساسات منتقل کرنے لگی۔
"زندگی میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جب……. انسان کی زندگی یو۔ٹرن لیتی ہے! یہ لمحات کبھی جلدی آجاتے ہیں اور کبھی دیر میں…..
لیکن جب بھی آتے ہیں، وہ حاصل زندگی بن جاتے ہیں! میں شاید آسانیاں دے کر آزمائی گئی تھی….. پلٹنے کی ضرورت کبھی محسوس ہی نہ کی۔
"تجھے تو مرض لاحق ہے۔” آہ! ایک بوا کا یہ جملہ میری زندگی کو بدلنے کا نقطہء آغاز بن گیا۔ اور پھر…… "یہ دلوں کے امراض کی شفاء”….. یہ اس آغاز کا حاصل……!! میرے رب کے پاس اگر پلٹنے والوں کی فہرست ہوئی تو آج اس میں میرا نام بھی شامل ہوگا۔ یہ احساس ہی کتنا دل نشین ہے!…..
ابھی جب جب میں اسے یاد کررہی ہوں وہ بھی مجھے یاد کررہا ہوگا…. میں خود سے سوال کرتی ہوں کہ "اس کے لبوں پر شفاء تمہارا نام ہوگا؟ تو طمانیت کی لہر میرے رگ و پے میں سما جاتی ہے…..
میں شفاء احمد…. جسے شفاء کی تلاش تھی….. اور آج اسے شفاء مل گئی…….! یہ شعر قلم بند کرتے ہوئے اس نے ڈائری بند کردی۔
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے..!
…………………………………..
"نہیں جولیا، یقین کرو، یہی علاج ہے! جب مرض شدید ہوجائے تو انسان ہر جگہ سے اپنا علاج کرواتا ہے۔”
کیلی فورنیا واپسی پر دو دن بعد وہ روم میں بیٹھی جولیا کو قائل کررہی تھی۔
"چلو ابھی تو کلاس کا ٹائم ہو رہا ہے، جلدی کرو ورنہ دیر ہوجائے گی۔” جولیا نے بیگ اٹھاتے ہوئے کہا۔ وہ دونوں کمرے سے باہر آگئے۔
راستے میں ہی بوا مل گئیں۔ "السلام علیکم بوا!” شفاء نے بھرپور انداز میں سلام کیا۔ وہ چونک گئیں، ایک لمحے کےلئے ٹھٹھکیں، پھر مسکرا کر جواب دیا۔ "وعلیکم السلام بیٹی” جیتی رہو۔
"لگتا ہے مرض کی شفاء ہوگئی ہے۔” انہوں نے زیرِ لب آہستگی سے کہا۔
لیکن شفاء نے پاس سے گزرتے ہوئے یہ آواز سن لی تھی۔ "آپ ٹھیک سمجھیں بوا!” اس نے پیچھے پلٹ کر جواب دیا اور مسکرا تے ہوئے آگے بڑھ گئی۔.
…………………………………..
شام ڈھلے وہ واپس لوٹے تو شفاء تھک ہار کر سوگئی، کب اس کی آنکھ لگی، اسے پتہ نہ چلا۔ جولیا نے ٹیبل لیمپ آن کیا اور وہ مصحف کھول لیا جو شفاء نے صبح ہی اس کے سامنے شیلف پر رکھا تھا۔
وہ اوراق پلٹتی رہی…… آیات، دل و دماغ کو ہلا دینے والے جملے اس کے سامنے آرہے تھے…. محبت، سکون، تسکین، روح کا سامان، بشارت، انذار، سب کچھ تو تھا اس میں…….! سورۃ البقرۃ کی جامعیت، بار بار تذکیر، ہر ہر پہلو پر رہنمائی اس کا دل موہ رہی تھی……
"کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللّہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں، اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں جیسے اللّہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہئے۔” آنسو بہہ بہہ کر ورق کو گیلا کررہے تھے۔
"اور اے نبی صلی الله علیہ وسلم، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، تو میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔”
آہ! کتنا مہربان ہے وہ…… اُسے ہچکی لگ گئی، پانی کا جگ لینے وہ اُٹھی ہی تھی کہ شفاء کی آنکھ اس کی آہٹ سے کھل گئی۔ حیران و پریشان اسے دیکھ رہی تھی۔ "کیا ہوگیا جولیا؟؟” وہ اُٹھ کر اس کے قریب آئی۔
قریب آتے ہی اس کے ہاتھ میں وہ شاہِ کلید دیکھ کر سب سمجھ گئی۔ اسے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہی……. جس کیفیت سے وہ گزری تھی، وہی تسکین کا سامان اب وہ کسی اور کو عطا کررہا تھا…… جہاں طلب ہو شدت کے ساتھ…. وہاں وہ پھر اسی شدت کے ساتھ نوازتا ہے۔
فرق صرف اتنا تھا کہ ایک شفاء کے ہوتے ہوئے بھی دیر میں اس کا ادراک کرسکی اور دوسری شفاء کی تلاش میں تھی کہ اس کا اخلاص منظورِ نظر ہوگیا۔
شفاء دس منٹ میں قہوہ بنا کر لے آئی۔ اسے پتہ تھا کہ جولیا کو سردی میں قہوہ پینا پسند ہے۔ جولیا کرسی پر ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھی تھی، آنسو اس کے چہرے پر بہہ رہے تھے۔ شفاء نے اس کے قریب بیٹھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا، اور مگ دوسرے ہاتھ میں تھما دیا۔
"شکریہ اسی کی طلب ہورہی تھی۔” جولیا نے قہوے کا مگ دیکھ کر کہا۔
"مجھے یقین ہے جولیا کہ اب تمہارا سفرِ تلاش ختم ہوجائے گا۔ ایک نئی زندگی اور بھرپور زندگی کا آغاز کرو گی، نئے جذبات، نئے یقین، نئے دین کے ساتھ۔”
جولیا نے اس کا ہاتھ دبایا اور آنکھوں کے اشارے سے اس کی تائید کی۔ اس کا دل کا سکون اس کے چہرے سے عیاں تھا۔ دل چاہتا تھا کہ یہ لمحات امر ہوجائیں۔
"میں اپنا نیا نام شفاء رکھوں گی۔” جولیا نے بے ساختہ کہا اور وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
باہر برف باری اور بارش سے مطلع صاف ہوگیا تھا۔ ہر شے نئے روپ کے ساتھ موجود تھی۔ پرندوں کی چہچہاہٹ صبح کے ہونے کی نوید سنا رہی تھی، اور دونوں کی زندگی میں صبح ایک نئے کل کی نوید تھی، اس "شفاء” کی بدولت جس نے ایک شفاء سے دوسری شفاء کے دل تک کا سفر طے کیا تھا۔