ابوبکر قدوسی
بندہ ایک دن میں ملحد ہو جاتا ہے نہ گمراہ، افکار قسطوں میں خود کشی کرتے ہیں، اول اول انسان تشکیک کا شکار ہوتا ہے، پھر یہ تشکیک پختہ تر ہوتی چلی جاتی ہے اور عقائد کی دیوار کو روز بروز ڈھانے لگتی ہے.
حنیف ڈار فیس بک پر آئے، یہاں کی چکا چوند، واہ وہ دیکھی تو نفس کے اسیر ہو گئے. مولویوں سے شروع ہوئے، اٹھتے بیٹھتے لکھتے اور ہر دم مولویوں کو یعنی اپنے ہی قبیلے کو برا بھلا کہتے. جب واہ واہ کی آوازیں بلند ہوئیں تو حوصلہ بڑھا اور ایک قدم آگے بڑھ کے راویان حدیث اور ائمہ حدیث کا مذاق اڑانے لگے. ”مہذب“ تنقید ہوتی تو گوارا رہتی، جواب دینے کا لطف بھی رہتا، خود اپنے علم میں اضافہ ہوتا، لیکن صاحب اپنی مسند سے بے پرواہ عموما تہذیب سے نا آشنا ہی دکھائی دیے.
راویان حدیث سے آگے نکلے تو صحابہ کرام تک پہنچے. ایک روز لکھا کہ ”منافقین کی فوج کدھر گئی“. سوال تھا کہ ہزاروں منافقین تھے، ان کے نام نہیں ملتے، وہ کہاں گئے؟ مقصد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حیثیت کو مشکوک کرنا تھا، ہم نے تعاقب کیا تو پوسٹ ڈیلیٹ کر کے بھاگ لیے.
پھر ایک روز سیدنا ابو ہریرہ رض کے بارے میں لکھ بیٹھے کہ ”جھوٹ گھڑتے تھے“، جب ہم نے رات گئے پکڑ لیا تو پوسٹ ایڈٹ کر کے صاف ہی مکر گئے کہ میری تحریر ہے، بلکہ ہمارے بارے میں دشنام پر اتر آئے، خود ان کا اپنا جھوٹ کہ چند منافقین کو ہزاروں لکھتے رہے.
سو دوستو! بندہ یوں گمراہ نہیں ہوتا کہ رات کو مسلمان سویا، صبح اٹھ کے خدا کا انکار کر بیٹھا. یہ ”کیڑے“ دماغ میں مدت سے پل رہے ہوتے ہیں، اور قسطوں میں باہر آتے ہیں. اب موصوف نے صحابہ کرام کے بارے میں تشکیک پھیلانے کا نیا ڈھنگ اختیار کیا ہے. ان کی بات کا خلاصہ ایک جملے میں یوں کیا جا سکتا ہے کہ
”صحابہ میں چونکہ ماہر منافقین بھی خلط ملط تھے اس لیے ہر صحابی کو رضی اللہ عنہ کی ”ڈگری“ نہیں دی جا سکتی. یہ رضی اللہ بعد میں ٹھوکا گیا. رضی اللہ عنہ صرف ان کو کہا جائے گا جو بیعت رضوان میں شامل تھے، اور ان کی تعداد چودہ سو ہے. اور یہ کہ صحابہ نے کبھی ایک دوسرے کو رضی اللہ عنہ نہیں کہا، یہ بعد کے اضافے ہیں.“
(یہ خلاصہ ہمارا کیا ہے، موصوف کے الفاظ نہیں، ان کے لکھے کی تصویر ہماری فیس بک وال پر موجود ہے)
ماضی میں موصوف کہہ چکے ہیں کہ ”میں صرف احکام کی حدیثوں کو مانتا ہوں.“ ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ ایسے ”مشکوک“ افراد سے جو احکام کی احادیث آ جائیں گی، ان کو کس منہ سے مانیں گے. اور اگر کوئی آپ کا مرید باوفا آپ کی ”مذموم تعلیمات“ کی روشنی میں ایسی صحیح اور درست حدیث کا انکار کرے گا تو کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا منکر ہوگا کہ نہیں اور اگر منکر ہوگا تو مسلمان ہوگا یا…..؟
بقول آپ کے ”ہزاروں منافقین تھے“، تو سوال یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے شہر اور اس کے جوار میں جو یہ ”ہزاروں“ منافق تھے، ان کی آپس میں کوئی دوستی تو ہوگی، کسی ایک کو تو دوسرے کا معلوم ہو گا. جب قرآن اکٹھا ہوا تو انھوں نے بھی کوئی آیت ڈال دی ہوگی تو کیا کریں گے، کیونکہ جمع قرآن کے وقت شرط دو افراد کی گواہی تھی، نہ کہ بیعت رضوان میں حاضری کی. اب منافقین کا تو بقول قرآن، نبی کو بھی معلوم نہ تھا، تو اس قران کا اب کیا کریں؟
ہمارا ایک سوال سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی ہے کہ وہ بیعت کے وقت مکہ میں تھے، ان کے قتل کی افواہ کے سبب ہی بیعت ہوئی، کیا وہ بھی ”رضی اللہ عنہ“ کے اعزاز سے باہر ہوں گے، اور بقول آپ کے قیامت تک باہر رہیں گے. اب یہ نہ کہیے گا کہ رسول نے ان کا ہاتھ اپنا ہاتھ قرار دیا تھا، کہ یہ واقعہ قرآن میں نہیں ملتا، حدیث میں آتا ہے جس کو آپ نہیں مانتے.
ایک اور بھی سوال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کرنے کے لیے مکے کی طرف نکلے تھے. جنگ کا ارادہ نہ تھا ، لیکن حادثاتی طور پر وہاں یہ واقعہ پیش آ گیا. اب سوال یہ ہے کہ جو صحابہ مدینے میں رہ گئے تھے، اور اس سفر پر نہ جا سکے، ان پر آپ کیا ”حکم“ لاگو کریں گے؟
خود ہمارا آپ سے سوال ہے کہ آپ مسلمان ہیں کہ منافق؟ اجی حضرت غصہ نہیں .. دھیرج دھیرج .. دیکھیے نا صحابہ کے بارے میں تو آپ کو زبان دراز کرتے ذرا بھی حیا مانع نہیں ہوتی، ہم بھی تو سوال کر سکتے ہیں کہ آپ خود کس صف میں ہیں؟ ہم کو آپ کے ایمان کا کیسے معلوم ہوگا؟ مسجد، مصلی، منبر، تسبیح تو کوئی معیار نہ ہوا نہ اسلامی سرکار کی نوکری، کہ جب آپ کی نظر میں سرکار دو عالم کی نوکری بھی معتبر نہ ٹھہری، تو ہم آپ کے بارے میں کیا جانیں؟