دن اور رات میں 1000سے زیادہ سنتیں
الشیخ خالد الحسینان
ترجمہ
حافظ محمد اسحاق زاہد
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
الحمد للہ رب العالمین ، والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء والمرسلین ، وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین …وبعد!
مسلمانوں کو اپنی یومیہ زندگی میں جس بات کا سب سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے وہ ہے اپنی تمام حرکات وسکنات میں رسول اکرمﷺ کی سنت پر عمل کرنا اور صبح سے لیکر شام تک اپنی پوری زندگی کو آپ ﷺ کے طریقے کے مطابق منظم کرنا۔
ذو النون المصریؒ کہتے ہیں :
’’ اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ انسان رسول اللہ ﷺ کی عادات، ان کے افعال، ان کے احکام اور ان کی سنتوں کی پیروی کرے۔
فرمان الٰہی ہے :
’’ قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ‘‘ ( آل عمران : ۳۱)
’’کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو ، خود اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف فرما دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا ، نہایت ہی مہربان ہے۔ ‘‘
اور حسن بصریؒ کا کہنا ہے :
’’ اللہ سے محبت کی علامت اس کے رسول ﷺ کی سنت کی پیروی کرنا ہے۔‘‘
کسی مومن کا اللہ کے ہاں کتنا مقام ہوتا ہے ، اس کا دارو مدار بھی رسول اللہ ﷺ کی اتباع پر ہے۔ سو جس قدر زیادہ وہ آپ ﷺ کی سنتوں کا پیروکار ہوگا اتنا زیادہ وہ اللہ کے ہاں لائقِ احترام ہو گا۔
اسی بناء پر میں نے یہ مختصر سا رسالہ تالیف کیا ہے تاکہ مسلمانوں کے روز مرہ کے معمولات کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کو بیان کیا جائے۔اوراِس کا تعلق صرف ان امور سے ہے جو یومیہ زندگی میں تقریباً ہر مسلمان کو پیش آتے ہیں ۔ مثلاً نماز ، نیند ، کھانا پینا ، لوگوں کے ساتھ میل جول ، طہارت ، آنا جانا ، لباس اور دیگر حرکات وسکنات وغیرہ۔
ذرا غور کیجئے ! اگر ہم میں سے کسی شخص کا کچھ مال گم ہو جائے تو ہم اس کی تلاش میں اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ، تاوقتیکہ وہ ہمیں واپس مل جائے۔ اور آج ہماری یومیہ زندگی میں کتنی سنتیں ضائع ہو چکی ہیں ، تو کیا اس پر بھی ہمیں کبھی افسوس ہوا ؟ اور کیا ہم نے انھیں اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے؟
حقیقت میں یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ آج ہم دینار و درہم کو سنت نبویہؐ سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ،جس کی دلیل یہ ہے کہ اگر لوگوں سے یہ کہا جائے کہ جو شخص ایک سنت پر عمل کرے گا تو اسے اتنے پیسے دیے جائیں گے! تو آپ دیکھیں گے کہ تمام لوگ اپنی زندگی کے تمام معمولات میں صبح سے لیکر شام تک زیادہ سے زیادہ سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ انہیں ہر سنت پر عمل کے بدلے میں پیسہ نظر آ رہا ہوگا۔ لیکن خدارا یہ بتائیے کہ کیا یہ مال اس وقت آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکے گا جب آپ کو قبر میں لٹا دیا جائے گا اور آپ پر مٹی ڈال دی جائے گی ؟
فرمان الٰہی ہے :
’’ بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃُ خَیْرٌ وَّأَبْقٰی‘‘(الاعلیٰ : ۱۶،۱۷)
’’ لیکن تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہت بہتر اور بہت بقا والی ہے۔‘‘
یاد رہے کہ اس رسالے میں جس سنت کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد وہ عمل ہے جس کے کرنے پر ثواب ملتا ہے اور اسے چھوڑنے پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔اور میں نے اس رسالے میں ان سنتوں کو جمع کیا ہے جن پر ہم میں سے ہر شخص دن اور رات میں کئی مرتبہ عمل کر سکتا ہے۔
اور میں نے محسوس کیا ہے کہ روز مرہ کی سنتوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے بشرطیکہ انسان اپنے تمام معمولات رسول اللہﷺ کی سنتوں کو مد نظر رکھ کر سر انجام دے۔ یہ رسالہ انہی سنتوں پر عمل کرنے کے سلسلے میں آسان ترین وسائل کے بیان میں لکھا گیا ہے۔
اگر انسان روزانہ ایک ہزار سنتوں پر عمل کرے تو یوں وہ ایک ماہ کے دوران تیس ہزار سنتوں پر عمل کر سکتا ہے۔ سو کتنا بد نصیب ہے وہ انسان جو ان سنتوں کو سرے سے جانتا ہی نہ ہو یا جانتا تو ہو لیکن ان پر عمل نہ کرتا ہو !
سنتِ رسولﷺ پر عمل کے فوائد بہت زیادہ ہیں ۔ ان میں سے چند فوائد یہ ہیں :
سنت پر عمل پیرا ہونے سے بندۂ مومن کو اللہ تعالیٰ کی محبت نصیب ہوتی ہے۔
فرائض میں جو کمی رہ جاتی ہے وہ ان سنتوں پر عمل کرنے کی وجہ سے پوری کر دی جاتی ہے۔
اتباعِ سنت کی بنا پر انسان بدعت سے محفوظ رہتا ہے۔
سنت کی پیروی کرنا شعائرِ الٰہی کے احترام کا حصہ ہے۔
لہذا رسول اللہﷺ کی سنتوں کو عمل کے ذریعے زندہ کیجئے کیونکہ یہ چیز آپﷺ کے ساتھ کامل اور سچی محبت کی نشانی ہے۔
نوٹ:
اس رسالے میں صرف وہ احادیث ذکر کی گئی ہیں جو محدثین کی نظر میں قابل قبول ہیں ۔ اور اختصار کے پیشِ نظر ان کے نمبر اور صحابہ کرامؓ کے نام ذکر نہیں کئے گئے۔
نیند سے بیدار ہونے کی سنتیں
٭۔چہرے پر سے نیند کے آثار کو ہاتھ سے مٹانا:
ایک حدیث میں ہے کہ ’’ رسول اللہﷺ نیند سے بیدار ہو کر اٹھے اور نیند کے آثار کو ختم کرنے کیلئے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگے۔‘‘( مسلم )
امام نوویؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے اسی حدیث کے پیش نظر نیند سے بیدار ہونے کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کو مستحب قرار دیا ہے۔
٭۔بیدار ہونے کی دعا پڑھنا:
’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أحْیَانَا بَعْدَ مَا أمَاتَنَا وَإلَیْہِ النُّشُوْرُ‘‘
’’ تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔‘‘( بخاری )
٭۔مسواک کرنا:
ایک حدیث میں ہے کہ: ’’رسول اللہﷺ جب رات کی نیند سے بیدار ہوتے تو مسواک کے ساتھ منہ صاف کرتے۔‘‘( بخاری ،مسلم )
٭۔ناک جھاڑنا :
نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے : ’’ تم میں سے کوئی شخص جب نیند سے بیدار ہو تو وہ تین مرتبہ ناک کو جھاڑے ، کیونکہ شیطان اس کے نتھنوں میں رات گذارتا ہے۔‘‘ ( بخاری،مسلم )
٭۔دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھونا :
ارشاد نبویﷺ ہے : ’’ تم میں سے کوئی شخص جب نیند سے بیدار ہو تواس وقت تک اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈبوئے جب تک اسے تین مرتبہ دھو نہ لے۔‘‘ ( بخاری،مسلم)
بیت الخلاء میں داخل ہونے اور اس سے نکلنے کی سنتیں
٭۔داخل ہوتے وقت پہلے بایاں اور پھر دایاں پاؤں اندر رکھے اور نکلتے وقت پہلے دایاں پھر بایاں پاؤں باہر رکھے۔
٭۔داخل ہونے کی دعا پڑھنا:
’’ اَللّٰہُمَّ إنِّیْ أعُوْذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ ‘‘
’’ اے اللہ ! میں مذکر شیطانوں اور مؤنث شیطانوں سےتیری پناہ میں آتا ہوں ۔‘‘ (بخاری،مسلم )
نبی کریم ﷺ نے شیطانوں کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ اس لئے طلب فرمائی کہ عام طور پر شیطان بیت الخلاء میں ہی رہتے ہیں ۔
٭۔نکلنے کی دعا پڑھنا:
’’ غُفْرَانَکَ ‘‘ ( ترمذی ، أبو داؤد ،ابن ماجہ )
’’ اے اللہ ! میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں ۔‘‘
نوٹ :
انسان کو دن اور رات میں کئی مرتبہ بیت الخلاء میں جانا پڑتا ہے ، تو ہر مرتبہ اسے ان چارسنتوں پر عمل کرنا چاہیے ، دو داخل ہونے کی اور دو نکلنے کی۔
وضو کی سنتیں
٭۔وضو گھر میں کرنا:
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
’’ جو شخص اپنے گھر میں وضو کرے اور فرض نماز ادا کرنے کیلئے مسجد کی طرف چل کر جائے تو اس کے ایک قدم پر اس کی ایک غلطی مٹا دی جاتی ہے اور دوسرے پر اس کا ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (مسلم)
٭۔وضو سے پہلے ’ بسم اللہ ‘ پڑھنا:
٭۔وضو کے شروع میں اپنی ہتھیلیوں کو تین مرتبہ دھونا:
٭۔چہرہ دھونے سے پہلے کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا:
٭۔بائیں ہاتھ کے ساتھ ناک جھاڑنا:
ایک حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے پہلے اپنی ہتھیلیوں کو تین مرتبہ دھویا ، پھر کلی کی ، پھر ناک میں پانی چڑھایا اور اسے جھاڑا ، پھر اپنا چہرہ تین مرتبہ دھویا۔(بخاری ومسلم )
٭۔کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانا:
کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرنا (پورے منہ میں پانی گھمانا اور ناک کے آخری حصے تک پانی پہنچانا)
ایک حدیث میں ہے : ’’ ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کیا کرو ، الا یہ کہ تم روزہ دار ہو۔‘‘ (سنن اربعہ )
٭۔ایک ہی چلو سے کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا:
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ہتھیلی میں پانی بھرا اور ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ ( بخاری ومسلم)
٭۔کلی کے وقت مسواک کرنا:
رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ :’’ اگر مجھے امت کی مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں انھیں ہر وضو کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ ‘‘ ( احمد، نسائی )
٭۔چہرہ دھوتے ہوئے گھنی داڑھی کا خلال کرنا:
ایک حدیث میں ہے کہ ’’رسول اللہﷺ وضو کے دوران اپنی داڑھی کا خلال کیا کرتے تھے۔‘‘ ( ترمذی )
٭۔مسنون کیفیت کے مطابق مسح کرنا:
’’رسول اللہﷺ اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کے شروع سے گُدی تک لے جاتے ، پھر انھیں اسی طرح سر کے شروع تک واپس لے آتے۔‘‘ ( بخاری ومسلم )
یہی مسنون کیفیت ہے مسح کی۔ تاہم اگر کوئی شخص پورے سر پر ہاتھ پھیر لے تو اس سے بھی وضو کا فرض پورا ہو جائے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اکرمﷺ مسح اِس طرح کیا کہ اپنے ہاتھوں کو آگے سے پیچھے اور پیچھے سے آگے لے گئے۔( متفق علیہ )
٭۔ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا:
حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ مکمل وضو کیا کرو اور انگلیوں کے درمیان خلال کیا کرو۔‘‘ ( سنن اربعہ )
٭۔ہاتھ پاؤں دھوتے ہوئے پہلے دائیں ہاتھ پاؤں کو دھونا:
حدیث میں ہے کہ : ’’رسول اللہﷺ کو جوتا پہنتے ہوئے اور طہارت میں دائیں طرف پسند تھی۔‘‘ ( بخاری،مسلم)
٭۔چہرہ ، ہاتھ ، بازو اور پاؤں کو ایک سے زیادہ (تین مرتبہ تک ) دھونا:
٭۔پانی بہاتے ہوئے اعضاءِ وضو کو ملنا:
٭۔پانی کے استعمال میں میانہ روی اختیار کرنا:
حدیث میں ہے کہ:
’’رسول اللہﷺ ایک مُد پانی سے وضو کیا کرتے تھے۔‘‘ ( بخاری ،مسلم )
٭۔بازو اور پاؤں دھوتے ہوئے مبالغہ کرنا:
ایک حدیث میں ہے کہ:’’ حضرت ابوہریرہؓ جب وضو کرتے تو اپنے بازوؤں کو کندھوں تک اور اپنے پاؤں کو پنڈلیوں تک دھوتے اور پھر کہتے : میں نے رسول اللہﷺ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ‘‘ (مسلم )
٭۔مکمل وضو کرنا اور ہر عضو کو اچھی طرح دھونا:
٭۔وضو کے بعد یہ دعا پڑھنا :
’’ أشْہَدُ أنْ لَّا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَأشْہَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ ‘‘
’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔‘‘
اس دعا کے پڑھنے کی فضیلت حدیث میں یہ بیان کی گئی ہے کہ پڑھنے والے کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئے جاتے ہیں ، وہ جس میں سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔ (مسلم)
٭۔وضو کے بعد دو رکعت نماز ادا کرنا:
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : ’’ جو شخص میرے وضو کی طرح وضو کرے ، پھر دو رکعات نماز اس طرح ادا کرے کہ اس میں دنیاوی خیالات سے بچا رہے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں ۔ ‘‘ ( بخاری،مسلم )
نوٹ:
مسلمان دن اور رات میں کئی مرتبہ وضو کرتا ہے ، پانچ نمازوں کے علاوہ کئی مسلمان نماز چاشت اور نماز تہجد کیلئے بھی وضو کرتے ہیں ۔ اگر وہ ہر مرتبہ ان مذکورہ سنتوں کا خیال رکھیں تو یقینی طور پر بہت زیادہ اجر و ثواب حاصل کرسکتے ہیں ۔ ان سنتوں کے مطابق وضو کرنے سے کتنا ثواب ملتا ہے ! اس کا اندازہ درج ذیل دو حدیثوں سے کیا جا سکتا ہے :
1۔’’جو شخص اچھی طرح وضو کرے ، اس کے گناہ اس کے جسم سے حتی کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے نکل جاتے ہیں ۔ ‘‘ ( مسلم )
2۔ ’’تم میں سے جو شخص اچھی طرح وضو کرے ، پھر دو رکعت نماز پوری توجہ کے ساتھ ادا کرے تو اس کیلئے جنت واجب ہو جاتی ہے اور اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ ‘‘ ( مسلم )
مسواک
مسلمان کو دن اور رات میں کئی مرتبہ مسواک کرنا چاہیے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے :
’’ اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اسے ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ ‘‘ ( بخاری ،مسلم )
دن اور رات میں مجموعی طور پر بیس سے زیادہ مرتبہ مسواک کیا جا سکتا ہے۔پانچ نمازوں کے وقت، ان سے پہلے اور بعد والی سنتوں کے وقت ، چاشت کی نماز کے وقت ، نمازِ وتر کے وقت ، قراء تِ قرآن کے وقت ، منہ میں بدبو پیدا ہو جانے کے بعد ، نیند سے بیدار ہونے کے بعد اور ہر وضو کے وقت۔ اسی طرح گھر میں داخل ہوتے وقت بھی ،کیونکہ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ:’’ رسول اکرم ﷺ گھر میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلے مسواک کیا کرتے تھے۔‘‘ ( مسلم )
اور آپﷺ کا فرمان ہے : ’’مسواک سے منہ پاک ہوتا ہے اور اللہ کی رضا مندی نصیب ہوتی ہے۔‘‘ ( احمد )
اور اب تو جدید طب میں بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مسواک دانتوں اور مسوڑھوں کیلئے مفید ہوتا ہے کیونکہ اس میں درج ذیل مواد پائے جاتے ہیں :
1۔جراثیم کو ختم کرنے والے مواد۔
2۔پاک کرنے والے مواد۔
3۔دانتوں کو صاف کرنے والے مواد۔
4۔منہ میں خوشبو پیدا کرنے والے مواد۔
جوتا پہننے کی سنتیں
ارشاد نبوی ہے : ’’ تم میں سے کوئی شخص جب جوتا پہننے لگے تو سب سے پہلے دایاں پاؤں جوتے میں ڈالے اور جب اتارنے لگے تو سب سے پہلے بایاں پاؤں جوتے سے باہر نکالے۔ نیزوہ یا دونوں جوتوں کو پہنے یا پھر دونوں کو اتار دے۔‘‘ ( مسلم )
مسلمان دن اور رات میں کئی مرتبہ جوتا پہنتا اور اتارتا ہے۔ مثلا مسجد میں جاتے ہوئے اور اس سے باہر نکلتے ہوئے ، حمام میں جاتے ہوئے اور اس سے باہر آتے ہوئے اور کسی کام کیلئے گھر سے باہر جاتے ہوئے اور اس میں واپس آتے ہوئے۔ سو ہر مرتبہ اسے درج بالا حدیث میں جو سنتیں ذکر کی گئی ہیں ان پر عمل کرنا چاہیے تاکہ اسے بہت زیادہ اجر و ثواب حاصل ہو سکے۔
لباس پہننے کی سنتیں
جن کاموں کو تقریباًسارے لوگ دن اور رات میں کئی مرتبہ کرتے ہیں ان میں سے ایک لباس پہننا اور اسے اتارنا ہے۔ لباس کو اتارنے اور پہننے کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں ، مثلاً غسل کیلئے لباس اتارنا اوراس کے بعد پہننا ، نیند کیلئے ایک لباس اتارنا اور دوسرا پہننا ، بیدار ہونے کے بعد نیند کا لباس اتارنا اور دوسرا لباس زیب تن کرنا۔ تو ہر مرتبہ لباس پہننے اور اتارنے کی مندرجہ ذیل سنتوں کا خیال رکھنا چاہیے :
٭۔بسم اللہ پڑھنا: چاہے لباس اتارنا ہو یا پہننا ہو:
امام نوویؒ کا کہنا ہے کہ :
’’تمام کاموں میں ’ بسم اللہ ‘ کا پڑھنا مستحب ہے۔‘‘
٭۔رسول اکرمﷺ جب کوئی بھی کپڑا (قمیص،چادر یا پگڑی وغیرہ ) پہنتے تو یہ دعا پڑھتے :
’’ اَللّٰہُمَّ إنِّیْ أَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِہ وَخَیْرِ مَا ھُوَ لَہُ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہ وَشَرِّ مَا ھُوَ لَہُ‘‘
’’ اے اللہ ! میں اس ( لباس ) کی بھلائی کا اور جس کیلئے یہ ہے اس کی بھلائی کا تجھ سے سوال کرتا ہوں اور میں اس کی برائی سے اور جس کیلئے یہ ہے اس کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔‘‘ ( ابو داؤد ، ترمذی، احمد ، ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے اور حاکم نے کہا ہے : صحیح علی شرط مسلم ووافقہ الذہبی )
٭۔لباس پہلے دائیں طرف سے پہنے:
ارشاد نبویﷺ ہے : ’’ تم جب بھی لباس پہنو تو دائیں طرف سے شروع کیا کرو۔‘‘( ترمذی ، ابو داؤد ، ابن ماجہ ، اس کی سند صحیح ہے )
٭۔لباس اتارتے ہوئے پہلے بائیں طرف سے ، پھر دائیں طرف سے اتارنا:
گھر میں داخل ہونے اور اس سے نکلنے کی سنتیں
امام نوویؒ کا کہنا ہے : –
’’گھر میں داخل ہوتے وقت ’بسم اللہ ‘ کا پڑھنا ، اللہ کا ذکر کرنا اور گھر والوں کو سلام کہنا سنت ہے۔‘‘
٭۔ گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر کرنا:
ارشاد نبویﷺ ہے:
’’ کوئی شخص گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کرے تو شیطان (اپنے ساتھیوں سے ) کہتا ہے : اب تم اس گھر میں نہ رہ سکتے ہو اور نہ تمھارے لئے یہاں پر کھانا ہے ‘‘ (مسلم )
٭۔ گھر میں داخل ہونے کی دعا پڑھنا
’’ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ خَیْرَ الْمَوْلِجِ وَخَیْرَ الْمَخْرَجِ، بِسْمِ اللّٰہِ وَلَجْنَا، وَبِسْمِ اللّٰہِ خَرَجْنَا،وَعَلَی اللّٰہِ رَبِّنَا تَوَکَّلْنَا‘‘ ( ابو داؤد )
’’ اے اللہ ! میں تجھ سے گھر کے اندر اور گھر سے باہر خیر کا سوال کرتا ہوں ، اللہ کے نام کے ساتھ ہم داخل ہوئے اور اللہ کے نام کے ساتھ ہم نکلے اور ہم نے اللہ پر توکل کیا جو ہمارا رب ہے۔‘‘
یہ دعا پڑھ کر گویا کہ مسلمان گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور اس سے نکلتے ہوئے ہمیشہ اللہ پر توکل کا اظہار کرتا ہے اور ہر دم اس سے اپنا تعلق مضبوط بناتا ہے۔
٭۔مسواک کرنا:
کیونکہ حضرت عائشہؓ کا کہنا ہے کہ:’’رسول اللہﷺ جب بھی گھر میں داخل ہوتے توسب سے پہلے مسواک کرتے۔ ‘‘ ( مسلم )
٭۔ گھر والوں کو سلام کہنا:
فرمان الٰہی ہے : ’’ فَاِِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ‘‘ (النور:۶۱)
’’پس جب تم گھروں میں داخل ہونے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کہا کرو ، ( سلام ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ دعائے خیر ہے جو بابرکت اور پاکیزہ ہے۔‘‘
اگر مسلمان ہر فرض نماز مسجد میں ادا کرتا ہو اور اس کے بعد اپنے گھر میں واپس آتا ہو تو ہر مرتبہ اگر وہ ان مذکورہ سنتوں پر عمل کر لے تو گویا دن اور رات میں صرف گھر میں داخل ہوتے وقت وہ بیس سنتوں پر عمل کرے گا۔
٭۔ گھر سے نکلنے کی دعا پڑھنا :
’’ بِسْمِ اللّٰہِ تَوَ کَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ ( ابو داؤد ، ترمذی )
’’ اللہ کے نام کے ساتھ میں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور اللہ کی مدد کے بغیر نہ کسی چیز سے بچنے کی طاقت ہے نہ کچھ کرنے کی۔‘‘
اس دعا کی فضیلت صحیح حدیث کے مطابق یہ ہے کہ انسان جب یہ دعا پڑھ لیتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے :
1۔تجھے اللہ کافی ہے (یعنی ہر اُس چیز سے جو دنیا و آخرت میں اس کیلئے پریشان کن ہو سکتی ہے )
2۔تجھے شر سے بچا لیا گیا ہے ( یعنی ہر شر اور برائی سے چاہے وہ جنوں کی طرف سے ہو یا انسانوں کی طرف سے )
3۔تیری راہنمائی کر دی گئی ہے۔ ( یعنی دنیاوی و اخروی تمام امور میں ) ( ابو داؤد، ترمذی )
چنانچہ جب بھی انسان گھر سے باہر جانے لگے خواہ نماز پڑھنے کیلئے یا اپنے یا گھر کی کسی کام کیلئے توہر مرتبہ اس دعا کو پڑھ لے تاکہ اسے مندرجہ بالا بہت بڑی خیر اور اجرِ عظیم نصیب ہو۔
مسجد میں جانے کی سنتیں
٭۔مسجد میں جانے کیلئے جلدی کرنا:
ارشاد نبویﷺ ہے :
’’ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان اور پہلی صف میں کتنا اجر ہے پھر اس کیلئے انھیں قرعہ اندازی کرنی پڑے تو وہ قرعہ اندازی کر گذریں ۔ اور اگر انھیں پتہ چل جائے کہ نماز کیلئے جلدی جانے میں کتنا ثواب ہے تو وہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں ۔ اور اگر انھیں خبر لگ جائے کہ عشاء اور فجر کی نمازوں میں کتنا اجر و ثواب ہے تو وہ ہر حال میں ان نمازوں کو ادا کرنے کیلئے آئیں اگرچہ انھیں گھٹنوں کے بل کیوں نہ آنا پڑے۔‘‘ ( بخاری،مسلم )
٭۔مسجد کی طرف جانے کی دعا پڑھنا:
’’ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا،وَفِیْ لِسَانِیْ نُوْرًا، وَاجْعَلْ لِیْ فِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا،وَاجْعَلْ فِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا، وَاجْعَلْ مِنْ خَلْفِیْ نُوْرًا وَمِنْ أَمَامِیْ نُوْرًا، وَاجْعَلْ مِنْ فَوْقِیْ نُوْرًا وَمِنْ تَحْتِیْ نُوْرًا ، اَللّٰہُمَّ أَعْطِنِیْ نُوْرًا‘‘ ( مسلم )
’’ اے اللہ ! میرے دل میں ، میری زبان میں ، میرے کانوں میں ،میری نظر میں ، میرے پیچھے، میرے آگے، میرے اوپر اور میرے نیچے نور کر دے اور مجھے نور عطا فرما۔‘‘
٭۔سکون اور وقار کے ساتھ چلنا:
ارشاد نبویﷺ ہے :
’’ جب تم اقامت سن لو تو تم نماز کی طرف پُر سکو ن اور با وقار حالت میں جایا کرو۔‘‘ ( بخاری ،مسلم )
’سکون‘ سے مراد ہے حرکات میں ٹھہراؤ پیدا کرنا اور بے ہودگی سے بچنا۔اور ’وقار ‘سے مراد ہے نظر کو جھکانا، آواز کو پست رکھنا اور اِدھر اُدھر نہ دیکھنا۔
٭۔مسجد کی طرف چل کر جانا:
فقہاء نے لکھا ہے کہ مسجد کی طرف جاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے اور قریب قریب قدم اٹھانے چاہییں اور جلدی نہیں کرنی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں حاصل ہوں ۔اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ کیا میں تمھیں وہ چیز نہ بتاؤں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹاتا اور درجات کو بلند کرتا ہے ؟ صحابہ کرام7 نے کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسولﷺ ! تو آپﷺ نے کئی چیزیں ذکر فرمائیں ، ان میں سے ایک یہ تھی : ’’مسجدوں کی طرف زیادہ قدم اٹھانا۔‘‘( مسلم )
٭۔مسجد میں داخل ہونے کی دعا پڑھنا:
درود شریف پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھیں : ’’ اَللّٰہُمَّ افْتَحْ لِیْ أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ ‘‘ ’’ اے اللہ ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘ ( نسائی ، ابن ماجہ ، ابن خزیمہ اور ابن حبان )
٭۔مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پاؤں اندر رکھنا:
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ ’’رسول اللہﷺ کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ ہے کہ ’’ جب تم مسجد میں داخل ہونے لگو تو پہلے دایاں پاؤں اندر رکھو اور باہر نکلنے لگو تو پہلے بایاں پاؤں باہر رکھو۔‘‘( الحاکم : صحیح علی شرط مسلم ، ووافقہ الذہبی )
٭۔پہلی صف کیلئے آگے بڑھنا:
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا : ’’ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان اور پہلی صف میں کتنا اجر ہے ، پھر اس کیلئے انھیں قرعہ اندازی کرنی پڑے تو وہ قرعہ اندازی کر گذریں ۔‘‘ ( بخاری،مسلم )
٭۔تحیۃ المسجد پڑھنا :
ارشاد نبوی ﷺ ہے : ’’ تم میں سے کوئی شخص جب مسجد میں داخل ہو تو اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک دو رکعات نماز ادا نہ کر لے۔‘‘ (بخاری،مسلم )
امام شافعیؒ کا کہنا ہے کہ’’ تحیۃ المسجد تمام اوقات میں ، حتی کہ ممنوعہ اوقات میں بھی مشروع ہے۔‘‘
اور حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ :’’تمام اہلِ فتوی کا اجماع ہے کہ تحیۃ المسجد سنت ہے۔‘‘
٭۔مسجد سے نکلنے کی دعا پڑھنا:
درود شریف پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھیں :’’ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ‘‘( مسلم ، نسائی)
’’ اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں ۔‘‘
٭۔مسجد سے نکلتے ہوئے پہلے بایاں پاؤں باہر رکھنا:
اس کی دلیل پہلے گذر چکی ہے۔
یہ ہیں مسجد کی سنتیں ۔اور یہ بات توہر ایک کو معلوم ہے کہ دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں ۔ اگر مسلمان ہر نماز کے وقت مسجد کی ان دس سنتوں پر عمل کر لے تو وہ اس طرح پچاس سنتوں پر عمل کرنے کا ثواب حاصل کرسکتا ہے۔
اذان کی سنتیں
اذان کی سنتیں پانچ ہیں ۔ جیسا کہ امام ابن القیمؒ نے زاد المعاد میں ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہیں :
٭۔اذان کا جواب دینا:
چنانچہ سننے والا وہی الفاظ کہے جو مؤذن کہے ، سوائے حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے جس کے جواب میں لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ کہنا ہوگا۔(بخاری ومسلم )
اور اس کی فضیلت یہ ہے کہ اس سے پڑھنے والے کیلئے جنت واجب ہو جاتی ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں موجود ہے۔
٭۔اذان کے بعداس دعا کا پڑھنا :
’’ وَأَنَا أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ،وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ،رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا،وَبِالْإِسْلاَمِ دِیْنًا،وَبِمُحَمَّدٍ رَّسُوْلًا ‘‘
اس دعا کی فضیلت حدیث میں یہ ہے کہ پڑھنے والے کے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ۔ (مسلم)
٭۔اذان کے بعد درود شریف پڑھنا:
یاد رہے کہ سب سے افضل درود، درودِ ابراہیمی ہے جو کہ نماز میں پڑھا جاتا ہے۔ارشاد نبویﷺ ہے :
’’ جب تم مؤذن کو سنو تو تم بھی اسی طرح کہو جیسے وہ کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درود پڑھو ، کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں بھیجتا ہے۔‘‘ ( یا دس مرتبہ اس کی فرشتوں میں تعریف کرتا ہے) (مسلم)
٭۔درود شریف پڑھنے کے بعد درج ذیل دعا کا پڑھنا :
’’ اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ آتِ مُحَمَّدَا نِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَا نِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہُ‘‘
اس دعا کے پڑھنے کا فائدہ حدیث میں یہ ہے کہ پڑھنے والے کیلئے نبی کریم ﷺ کی شفاعت واجب ہو جاتی ہے۔ ( بخاری)
٭۔اذان کے بعد دعا پڑھنا:
اذان کے بعد کی درج بالا دعائیں پڑھنے کے بعد اپنے لئے دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرنا،کیونکہ یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے :
’’ مؤذن جس طرح کہے اسی طرح کہا کرو ، پھر اللہ سے سوال کیا کرو وہ تمھیں عطا کرے گا۔‘‘ ( ابو داؤد ، ابن حبان نے اسے صحیح اور حافظ ابن حجر نے حسن قرار دیا ہے)
درج بالا پانچوں سنتوں پر اگر ہر اذان کے وقت عمل کیا جائے تو یوں دن اور رات میں اذان کی پچیس سنتوں پر عمل ہو سکتا ہے۔
اقامت کی سنتیں
اذان کی پہلی چار سنتیں اقامت کی سنتیں بھی ہیں ، جیسا کہ سعودیہ کی دائمی فتوی کونسل کا فتوی ہے۔بنا بریں دن اور رات میں اگر ہر اقامت کے وقت ان سنتوں پر بھی عمل کر لیا جائے تو یوں اقامت کی بیس سنتوں پر عمل کر کے اجر عظیم حاصل کیا جا سکتا ہے۔
فائدہ :
سنت یہ ہے کہ اقامت سننے والا بھی اسی طرح کہے جس طرح اقامت کہنے والا کہتا ہے ، سوائے حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کے کہ ان میں لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰه کہے گا۔اور قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ کے جواب میں بھی قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ ہی کہے گا نہ کہ أَقَامَہَا اللّٰہُ وَأَدَامَہَا ، کیونکہ اس بارے میں جو حدیث ذکر کی جاتی ہے وہ ضعیف ہے۔ ( فتوی کونسل:سعودی عرب)
نماز سترہ کی طرف پڑھنا
ارشاد نبوی ﷺ ہے :
’’ تم میں سے کوئی شخص جب نماز پڑھنا چاہے تو سترہ کی طرف پڑھے اور اس کے قریب ہو جائے اور اپنے اور اس کے درمیان کسی کو گذرنے نہ دے۔‘‘( ابو داؤد ، ابن ماجہ ، صحیح ابن خزیمہ )
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ہر نماز سترہ رکھ کر پڑھی جائے ، خواہ نمازی مسجد میں ہو یا گھر میں ، مرد ہو یا عورت۔ جبکہ کئی نمازی اس سنت پر عمل نہ کر کے اپنے آپ کو اس کے اجر سے محروم کر لیتے ہیں ، حالانکہ یہ سنت بھی ان سنتوں میں سے ہے جن پر دن اور رات میں کئی مرتبہ عمل ہو سکتاہے۔چنانچہ فرائض سے پہلے اور بعد کی سنتیں ، تحیۃ المسجد ، نمازِ وتر ، نمازِ چاشت، اور فرض نمازیں سترہ کے سامنے پڑھ کر انسان ایک ہی سنت پر بار بار عمل کر کے بہت زیادہ اجر و ثواب کما سکتا ہے۔عورت بھی جب اکیلی گھر میں فرض نمازیں یا دیگر نفل نمازیں ادا کرے تو وہ ہر مرتبہ اِس سنت پر عمل کر کے اجرِ عظیم حاصل کر سکتی ہے۔
یاد رہے کہ با جماعت نماز میں امام کا سترہ مقتدیوں کیلئے بھی کافی ہوتا ہے۔
سترہ کے چند مسائل
سترہ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے نمازی قبلہ کی سمت اپنے سامنے کر لے۔مثلاً دیوار، ستون ، عصا اور کرسی وغیرہ۔
سترہ کی چوڑائی کی کوئی حد مقرر نہیں البتہ لمبائی(اونچائی ) کم از کم ایک بالشت ضرور ہونی چاہیے۔
نمازی کے قدموں اور سترہ کے درمیان تقریباً تین ہاتھ کا فاصلہ ہونا چاہیے۔
سترہ امام اور منفرد (اکیلا نماز پڑھنے والا) دونوں کیلئے مشروع ہے ، نماز خواہ فرض ہو یا نفل۔
امام کا سترہ مقتدیوں کا سترہ بھی ہوتا ہے ، لہذا ضرورت کے وقت مقتدیوں کے سامنے سے گذرنا جائز ہے۔
سترہ کے فوائد
٭۔اگر نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو اور اس کے سامنے سے کسی عورت یا گدھے یا کالے کتے کا گذر ہو تو اس سے اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے ، لیکن اگر سترہ موجود ہو تو ایسا نہیں ہوتا۔
٭۔اگر سترہ موجود ہو تو نمازی کی نظر ایک جگہ پر ٹکی رہتی ہے اور اس سے نماز میں خشوع پیدا ہوتا ہے۔اور اگر سترہ نہ ہو تو نظر اِدھر اُدھر جاتی ہے اور نمازی کی سوچ انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔
٭۔اگر سترہ موجود ہو تو گذرنے والوں کیلئے آسانی ہو جاتی ہے ورنہ اگر سترہ نہ ہوتو نمازی ان کیلئے رکاوٹ بنا رہتا ہے۔
دن اور رات کی نفل نمازیں
٭۔فرائض سے پہلے اور بعد کی سنتیں
ارشاد نبویﷺ ہے :’’ کوئی بھی مسلمان بندہ جو ہر دن بارہ رکعات نمازِ نفل اللہ کی رضا کیلئے پڑھتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے۔‘‘(مسلم )
اور یہ بارہ رکعات درج ذیل ہیں :
چار ظہر سے پہلے اور دو اس کے بعد ، دو مغرب کے بعد ، دو عشاء کے بعد اور دو فجر سے پہلے۔
میرے مسلمان بھائی !
کیا آپ کو جنت کا گھر پسند نہیں ؟ اگر ہے تو نبی اکرمﷺ کی مذکورہ وصیت پر عمل کریں اور دن اور رات میں بارہ رکعات نماز نفل پڑھا کریں ۔
٭۔چاشت کی نماز:
اِس نماز کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ ( ۳۶۰) صدقوں کے برابر ہوتی ہے۔ جیسا کہ رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ تم میں سے ہر شخص کے ہر جوڑ پر ہر دن صدقہ کرنا ضروری ہے ، لہذا ہرسبحان اللہ صدقہ ہے ، ہر الحمد للہ صدقہ ہے ، ہر لا إلہ إلا اللہ صدقہ ہے ، ہر اللہ اکبر صدقہ ہے ، نیکی کا ہر حکم صدقہ ہوتا ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ اور اس سب سے چاشت کی دو رکعات کافی ہو جاتی ہیں ۔‘‘ ( مسلم )
یہ بات معلوم ہے کہ انسان کے جسم میں ۳۶۰ جوڑ ہوتے ہیں تو ہر جوڑ کی طرف سے ہر روز کم از کم ایک صدقہ شکرانہ کے طور پر کرنا ضروری ہوتا ہے اور مذکورہ حدیث کے مطابق اگر چاشت کی دو رکعات ادا کر لی جائیں تو ۳۶۰ جوڑوں کی طرف سے صدقہ ادا ہو جاتا ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ’’ مجھے میرے خلیلﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی تھی :ایک یہ کہ میں ہر ماہ میں تین روزے رکھوں اور دوسری یہ کہ چاشت کی دو رکعات پڑھوں اور تیسری یہ کہ وترسونے سے پہلے پڑھا کروں ۔‘‘ ( بخاری ومسلم )
چاشت کا وقت طلوعِ شمس کے پندرہ منٹ بعد شروع ہوتا ہے اور اذانِ ظہر سے تقریبا پندرہ منٹ پہلے تک جاری رہتا ہے۔اور اس کا افضل وقت وہ ہے جب سورج کی حرارت تیز ہو۔ اور اس کی کم از کم رکعات دو اور زیادہ سے زیادہ آٹھ ہیں ۔
٭۔عصر سے پہلے چار رکعات:
ارشاد نبویﷺ ہے : ’’اس شخص پر اللہ کی رحمت ہو جو عصر سے پہلے چار رکعات پڑھے۔‘‘( ابو داؤد ، ترمذی )
٭۔مغرب سے پہلے دو رکعات:
ارشاد نبویﷺ ہے :’’مغرب سے پہلے نماز پڑھا کرو۔ ‘‘ آپﷺ نے تین بار فرمایا اور تیسری بار اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا:’’جس کا جی چاہے۔‘‘( بخاری )
٭۔عشاء سے پہلے دو رکعات:
ارشاد نبویﷺ ہے : ’’ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہوتی ہے۔‘‘آپ ﷺ نے تین بار فرمایا اور تیسری مرتبہ اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا : ’’جس کا جی چاہے۔‘‘ ( بخاری ،مسلم )
امام نوویؒ کا کہنا ہے کہ دو اذانوں سے مراد اذان اور اقامت ہے۔
نوافل کی ادائیگی گھر میں
٭۔ارشاد نبویﷺ ہے :
’’بندے کی بہترین نماز وہ ہے جسے وہ گھر میں ادا کرے ، سوائے فرض نماز کے۔‘‘ ( بخاری،مسلم )
٭۔نیز فرمایا :
’’ کسی شخص کی ایک ایسی نفل نماز جسے وہ اُس جگہ پر ادا کرے جہاں اسے لوگ نہ دیکھ سکتے ہوں اُن ۲۵ نمازوں کے برابر ہوتی ہے جنھیں وہ لوگوں کے سامنے ادا کرے۔‘‘ ( ابو یعلی۔ البانی نے اسے صحیح کہا ہے )
٭۔اسی طرح آپﷺ کا فرمان ہے :
’’انسان جو نماز گھر میں ادا کرے اس کی فضیلت لوگوں کے سامنے پڑھی گئی نماز پر ایسے ہوتی ہے جیسے فرض نماز کو نفل پر۔‘‘(طبرانی۔ البانی نے اسے حسن کہا ہے )
مذکورہ بالا احادیث کی بنا پر نفل نمازوں کو گھر میں پڑھنا چاہیے ، چاہے وہ فرائض کی سنتیں ہوں یا چاشت کی نماز ہویا نمازِ وتر ہویا کوئی اور نفل نماز ہو ، تاکہ زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل ہو سکے۔
گھر میں نوافل کی ادائیگی سے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں
٭۔اس سے نماز میں خشوع زیادہ ہوتا ہے اور انسان ریا کاری سے دور رہتا ہے۔
٭۔گھر میں نماز پڑھنے سے گھر سے شیطان نکل جاتا ہے اور اس میں اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے۔
٭۔نوافل کو گھر میں ادا کرنے سے ان کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے ، جیسا کہ فرض نماز کا ثواب مسجد میں ادا کرنے سے کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔
قیام اللیل کی سنتیں
ارشاد نبویﷺ ہے :’’رمضان کے بعد ماہِ محرم کے روزے سب سے افضل روزے ہیں جو کہ اللہ کا مہینہ ہے۔اور فرض نماز کے بعد رات کی نفل نمازسب سے افضل نماز ہے۔‘‘( مسلم )
٭۔رات کی نفل نماز کی سب سے افضل تعداد گیارہ یا تیرہ رکعات ہے بشرطیکہ ان میں قیام لمبا ہو۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اکرمﷺ رات کو گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ اور دوسری حدیث میں ہے کہ تیرہ رکعات پڑھتے تھے۔( یہ دونوں حدیثیں بخاری میں ہیں )
٭۔کوئی انسان جب رات کی نفل نماز کیلئے بیدار ہو تو اس کیلئے مسواک کرنا اور سورۂ آل عمران کی آیات’’ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَاب‘‘ سے لیکر سورت کے آخر تک پڑھنا مسنون ہے۔
٭۔اسی طرح درج ذیل دعا پڑھنا بھی رسول اکرمﷺ سے ثابت ہے :’’ اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ،أَنْتَ قَیِّمُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیْہِنَّ،وَلَکَ الْحَمْدُ،أَنْتَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیْہِنََّ،وَلَکَ الْحَمْدُ،أَنْتَ مَلِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ، وَلَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ ،وَوَعْدُکَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤُکَ حَقٌّ وَقَوْلُکَ حَقٌّ،وَالْجَنةُ حَقٌّ،وَالنَّارُ حَقٌّ،وَالنَّبِیُّوْنَ حَقٌّ‘‘
’’ اے اللہ ! تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں ۔ تو ہی آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کو قائم رکھنے والا ہے اور تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں ۔ تو ہی آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کا نور ہے اور تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں ۔تو ہی آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے اور تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں ۔ تو برحق ہے اور تیرا وعدہ ، تیری ملاقات ، تیرا فرمان ، جنت و دوزخ سب برحق ہیں اور تمام نبی برحق ہیں ۔‘‘
٭۔رات کی نفل نماز کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ بھی ہے کہ اس کا آغاز دو ہلکی پھلکی رکعات سے کیا جائے تاکہ انسان بعد کی لمبی نماز کیلئے تیار ہو جائے۔ارشاد نبویﷺ ہے :’’ تم میں سے کوئی شخص جب رات کے قیام کیلئے کھڑا ہو تو دو ہلکی پھلکی رکعات سے نماز کا آغاز کرے۔‘‘ ( مسلم )
٭۔رات کی نفل نماز کا آغاز درج ذیل دعا سے کرنا رسول اللہﷺ سے ثابت ہے :
’’ اَللّٰہُمَّ رَبَّ جِبْرِیْلَ وَمِیْکَائِیْلَ وَإِسْرَافِیْلَ ،فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ، أَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ إِہْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِکَ ،إِنَّکَ تَہْدِیْ مَنْ تَشَائُ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم‘‘ (مسلم )
’’ اے اللہ ! اے جبریل ، میکائیل اور اسرافیل کے رب ! اے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے ! اے غیب اور حاضر کو جاننے والے ! تو اپنے بندوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاف میں فیصلہ کرتا ہے۔ مجھے اپنے حکم سے ان اختلافی باتوں میں حق کی طرف ہدایت دے ، بے شک تو ہی جس کو چاہے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے۔‘‘
٭۔رات کی نفل نماز کو لمبا کرنا سنت ہے
رسول اکرمﷺ سے سوال کیا گیا کہ کونسی نماز افضل ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ جس میں لمبا قیام کیا جائے۔‘‘ ( مسلم )
٭۔نفل نماز میں قراء تِ قرآن کے دوران آیاتِ عذاب کو پڑھتے ہوئے اللہ کی پناہ طلب کرنا ( مثلاً یوں کہنا : اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِکَ) اور آیاتِ رحمت کو پڑھتے ہوئے اللہ کی رحمت کا سوال کرنا (مثلاً یوں کہنا : اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ) اور جن آیات میں اللہ کی پاکیزگی بیان کی گئی ہو ان کو پڑھتے ہوئے (سبحان اللہ ) کہنا سنت ہے۔
ایک حدیث میں ہے : ’’نبی کریم ﷺ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے اور جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہوتی وہاں تسبیح پڑھتے اور جس میں اللہ سے سوال کرنے کا ذکر ہوتا وہاں اس سے سوال کرتے اور جس میں عذاب کا ذکر آتا وہاں اللہ کی پناہ طلب کرتے۔‘‘ ( مسلم )
٭۔قیام اللیل کیلئے معاون اسباب
دعا کرنا ، رات کو جلدی سونا ، دوپہر کو قیلولہ کرنا ،گناہوں سے پرہیز کرنا اور نفس کے خلاف جہاد کرنا۔
وتر کی سنتیں
٭۔تین وتر پڑھنے والے شخص کیلئے پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۃ الاعلیٰ ،دوسری میں الکافرون اور تیسری میں الاخلاص پڑھنا مسنون ہے۔( ترمذی ، أبو داؤد ، ابن ماجہ)
٭۔نماز وتر سے سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْس پڑھنا اور تیسری مرتبہ اس دعا کے ساتھ رَبِّ الْمَلاَئِکَۃِ وَالرُّوْحِ کا اونچی آواز میں پڑھنا بھی سنت ہے۔ ( ابو داؤد ، نسائی ، دار قطنی۔ الأرناؤط نے اسے صحیح کہا ہے )
سنتِ فجر کی سنتیں
٭۔ فجر کی سنتوں کو ہلکا پھلکا ( مختصر ) پڑھنا۔
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں : ’’ رسول اللہﷺ فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان دو مختصر رکعات پڑھا کرتے تھے۔‘‘ ( بخاری ،مسلم )
پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ البقرہ کی آیت (۱۳۶) اور دوسری میں سورۃ آل عمران کی آیت (۶۴) کا پڑھنا مسنون ہے۔ ( مسلم )
ایک روایت میں پہلی رکعت میں سورت فاتحہ کے بعد سورۃ الکافرون اور دوسری میں سورۃ الاخلاص کا ذکر کیا گیا ہے۔ ( مسلم )
٭۔سنتوں کے بعد تھوڑی دیر کیلئے دائیں پہلو پر لیٹنا:
ایک حدیث میں ہے کہ’’ رسول اللہﷺ فجر کی دو سنتیں پڑھنے کے بعد اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جایا کرتے تھے۔‘‘ (بخاری )
لہذا جو شخص گھر میں فجر کی سنتیں ادا کرے وہ اس سنت کے اجرو ثواب کو حاصل کرنے کی خاطر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جائے ، پھر تھوڑی دیر کے بعد مسجد میں چلا جائے۔
٭۔نماز فجر کے بعد مسجد میں بیٹھے رہنا:
رسول اللہﷺ نماز فجر کے بعد اس وقت تک اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے جب تک سورج طلوع ہو کر بلند نہ ہو جاتا۔ (مسلم )
صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے فرشتوں کو نماز سے پہلے یا نماز کے بعدمسجد میں بیٹھے رہنے والے شخص کیلئے دعا اوراستغفار کرنے کا پابند بنا دیا ہے جو یوں کہتے ہیں :(اللہم اغفر لہ ، اللہم ارحمہ ) ’’ اے اللہ ! اس کی مغفرت کر دے اور اس پر رحم فرما۔ ‘‘ (بخاری )
میرے مسلمان بھائی ! ذرا غور کریں کہ یہ اللہ تعالی کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اگر آپ اس کی اطاعت کریں تو اس نے اپنے مقرب فرشتوں کو آپ کیلئے دعا کرنے کا پابند بنا دیا ہے !
نماز کی قولی ( زبانی ) سنتیں
٭۔تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح پڑھنا :
’’ سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ،وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ،وَلاَ إِلٰہَ غَیْرُکَ‘‘ ’’ اے اللہ ! تو پاک ہے اور اپنی تعریف کے ساتھ ہے اور تیرا نام بابرکت ہے اور تیری بزرگی بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘
دوسری دعا :
’’ اَللّٰہُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اَللّٰہُمَّ نَقِّنِیْ مِنْ خَطَایَایَ کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْأَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ،اَللّٰہُمَّ اغْسِلْنِیْ مِنْ خَطَایَایَ بِالثَّلْجِ وَالْمَائِ وَالْبَرَدِ‘‘ (بخاری ،مسلم )
’’ اے اللہ ! میرے اور میری غلطیوں کے درمیان اتنی دوری کر دے جتنی دوری تو نے مشرق و مغرب کے درمیان کر دی ہے۔ اے اللہ ! مجھے میرے گناہوں سے اس طرح صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا مَیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ ! مجھ سے میری کوتاہیوں کو برف ، پانی اور اولوں کے ساتھ دھو دے۔‘‘
یاد رہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد استفتاح کی کچھ اور دعائیں بھی رسول اللہﷺ سے ثابت ہیں ، ان میں سے جو دعا بھی آپ پڑھنا چاہیں پڑھ سکتے ہیں ۔
٭۔قراء ت سے پہلے أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ پڑھنا۔
٭۔پھر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحیْمِ پڑھنا۔
٭۔فاتحہ کے بعد آمین کہنا۔
٭۔ آمین کہنے کے بعد ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں اور فجر ، جمعہ اور ہر نفل نماز کی دونوں رکعتوں میں کسی اور سورت کی قراء ت کرنا۔
مقتدی صرف سرّی نمازوں (ظہر ، عصر )میں فاتحہ کے بعد کسی دوسری سورت کی قراء ت کرسکتا ہے، جہری نمازوں (مغرب ، عشاء ، فجر اور جمعہ )میں نہیں ۔
٭۔رکوع وسجود میں تسبیحات یعنی سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ اورسُبْحَانَ رَبِّیَ الْأعلٰی کا ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھنا۔
نمازی کو صرف انہی تسبیحات پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے ان کے علاوہ دوسری دعائیں بھی پڑھنی چاہییں جو کہ رسول اللہﷺ سے ثابت ہیں ۔خاص طور پر سجدہ میں ۔کیونکہ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
’’ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے ، لہذا تم کثرت سے دعا کیا کرو۔‘‘ ( مسلم )
٭۔رکوع سے سر اٹھانے کے بعد رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہنا ، پھر درج ذیل دعا کا پڑھنا :
’’ اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمٰوٰتِ وَمِلْئَ الْأرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ أَہْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ،اَللّٰہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ،وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ،وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ ‘‘ (مسلم)
’’ اے اللہ ! اے ہمارے پروردگار ! تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں ۔ اتنی تعریفیں جن سے آسمان، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور اس کے بعد جو چیز تو چاہے ، سب بھر جائے۔ اے تعریف اور بزرگی کے لائق!سب سے سچی بات جو بندے نے کہی اورہم سب تیرے بندے ہیں ، وہ یہ ہے کہ اے اللہ ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں ۔اور کسی بزرگی والے کو اس کی بزرگی تیرے ہاں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔‘‘
٭۔دو سجدوں کے درمیان رَبِّ اغْفِرْ لِیْ ، رَبِّ اغْفِرْ لیْ پڑھنا۔
٭۔ آخری تشہد میں سلام پھیرنے سے پہلے یہ دعا پڑھنا :
’’ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ،وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ ‘‘ (بخاری ومسلم )
’’ اے اللہ ! میں عذاب جہنم ، عذاب قبر ، زندگی اور موت کے فتنے اور مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔‘‘
نوٹ :
نماز کی مذکورہ قولی سنتوں میں سے بیشتر سنتیں ایسی ہیں جن پر ہر رکعت میں عمل کیا جا سکتا ہے، چاہے فرض نماز ہو یا نفل۔اور اگر فرض اور نفل نمازوں کی ہر رکعت کی مذکورہ سنتوں کو جمع کر لیا جائے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ دن اور رات میں کتنی زیادہ سنتوں کا ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اِن قولی سنتوں میں سے آٹھ سنتیں ایسی ہیں جن پر ہر رکعت میں عمل ہو سکتا ہے۔ اور پانچوں فرض نمازوں کی سترہ رکعات میں ان پر عمل کیا جائے تو یہ مجموعی طور پر (۱۳۶) سنتیں ہو جائیں گی۔ اور دن اور رات کی نفل نماز کی کل رکعات (۲۵) ہوں اور ہر رکعت میں ان آٹھ سنتوں پر عمل کیا جائے تو یہ مجموعی طور پر (۱۷۵) سنتیں ہو جائیں گی۔ اگر رات کی نفل نماز میں اضافہ کر لیا جائے اور نمازِ چاشت بھی پڑھی جائے تو ان سنتوں کی تعداد اور زیادہ ہو جائے گی۔
جو قولی سنتیں ہر رکعت میں بار بار نہیں ہوتیں وہ ہیں : دعائے استفتاح اور آخری تشہد کی دعا۔ اور پانچ فرض نمازوں میں ان کی تعداد (۱۰) ہو جائے گی۔ اور دن اور رات کی نفل نمازوں میں بھی ان پر عمل کیا جائے تو مجموعی طور پران کی تعداد (۲۴) ہو جائے گی۔ اور اگر نماز تہجد کی رکعات میں اضافہ کر لیا جائے اور نماز چاشت اور تحیۃ المسجد وغیرہ میں بھی ان پر عمل کیا جائے تو یقیناً ان کی تعداد بڑھ جائے گی اور اجر و ثواب میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
نماز کی عملی سنتیں
٭۔تکبیر تحریمہ کہتے وقت رفع الیدین کرنا۔
٭۔رکوع میں جاتے ہوئے رفع الیدین کرنا۔
٭۔رکوع سے اٹھ کر رفع الیدین کرنا۔
٭۔دو تشہد والی نماز میں تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہو کر رفع الیدین کرنا۔
٭۔رفع الیدین کرتے ہوئے انگلیوں کو ملا کر رکھنا۔
٭۔رفع الیدین کرتے ہوئے انگلیوں اور ہتھیلیوں کو قبلہ کی سمت سیدھا رکھنا۔
٭۔رفع الیدین کرتے ہوئے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر یا کانوں کی لو تک اٹھانا۔
٭۔دونوں ہاتھوں کو سینے پر اس طرح رکھنا کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر ہو ، یا دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی کلائی کو پکڑا ہوا ہو۔
٭۔دورانِ قیام جائے سجدہ پر دیکھتے رہنا۔
٭۔حالت قیام میں دونوں پاؤں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنا۔
٭۔قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھنا اور دورانِ قراء ت اس میں تدبر کرنا۔
رکوع کی سنتیں
٭۔دونوں گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے اس طرح پکڑنا کہ انگلیاں کھلی ہوئی ہوں ۔
٭۔حالتِ رکوع میں پیٹھ کو سیدھا رکھنا۔
٭۔اپنے سر کو پیٹھ کے برابر رکھنا ، سر پیٹھ سے اوپر ہو نہ نیچے۔
٭۔اپنے بازوؤں کو اپنے پہلوؤں سے دور رکھنا۔
سجدہ کی سنتیں
٭۔اپنے بازوؤں کو اپنے پہلوؤں سے دور رکھنا۔
٭۔اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے الگ رکھنا۔
٭۔اور اپنی رانوں کو اپنی پنڈلیوں سے جدا رکھنا۔
٭۔سجدے کی حالت میں اپنے گھٹنوں کے درمیان فاصلہ رکھنا۔
٭۔اپنے پاؤوں کو کھڑا رکھنا۔
٭۔پاؤں کی انگلیوں کو زمین پر قبلہ رخ رکھنا۔
٭۔پاؤں کو ملا کر رکھنا۔
٭۔اپنے ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں کے برابر رکھنا۔
٭۔ہاتھوں کو کھلا رکھنا۔
٭۔ہاتھوں کی انگلیوں کو ملا کر رکھنا۔
٭۔ہاتھوں کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی سمت رکھنا۔
دو سجدوں کے درمیان جلسہ کی سنتیں
٭۔اس جلسہ کی دو کیفیات ہیں :
٭۔ایک یہ کہ دونوں پاؤں کو کھڑا کر کے ایڑیوں پر بیٹھنا ، دوسری یہ کہ دائیں پاؤں کو کھڑا رکھنا اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھ جانا۔
٭۔اس جلسہ میں طوالت کرنا ، کیونکہ رسول اللہﷺ اس میں اس قدر طوالت کرتے کہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ شاید آپ بھول گئے ہیں ۔
نوٹ :
یاد رہے کہ پہلی اور تیسری رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد دوسری اور چوتھی رکعت کیلئے اٹھنے سے پہلے بھی ایک جلسہ مسنون ہے ، جسے جلسۂ استراحت کہا جاتا ہے۔ اس جلسہ کی کوئی دعا نہیں ۔
آخری تشہد کی سنتیں
٭۔آخری تشہد میں ’تورک‘ کی کیفیت اختیار کرنا مسنون ہے جس کی تین شکلیں ہیں :
پہلی یہ کہ دایاں پاؤں کھڑا کر کے بائیں پاؤں کو دائیں پنڈلی کے نیچے کر لے اور زمین پر بیٹھ جائے۔
دوسری کیفیت پہلی کیفیت کی طرح ہے ، لیکن دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا کرنے کی بجائے اسے بھی بائیں پاؤں کی طرح بچھا لے۔
تیسری یہ کہ دایاں پاؤں کھڑا کر لے اور بایاں پاؤں دائیں پنڈلی اور ران کے درمیان رکھ لے۔
٭۔ہاتھوں کو اپنی رانوں پر رکھنا اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے سے ملائے رکھنا۔
٭۔تشہد میں ( خواہ پہلا ہو یا دوسرا ) شروع سے لیکر آخر تک اپنی انگشتِ شہادت کو ہلاتے رہنا۔ جس کی کیفیت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کا انگوٹھا درمیان والی انگلی پر ایک گول دائرے کی شکل میں رکھا ہوا ہو اور اپنی نظر انگشتِ شہادت پر رکھے۔
٭۔سلام پھیرتے ہوئے دائیں بائیں التفات کرنا۔
نوٹ :
نماز کی ان عملی سنتوں کو شمار کر لیں ، پھر دیکھیں کہ ان میں سے کونسی سنت ہر رکعت میں آتی ہے اور کونسی سنت پوری نماز میں ایک یا دو مرتبہ آتی ہے ! پھر دن اور رات کی فرض اور نفل نمازوں کی رکعات بھی شمار کر لیں تو دیکھیں چوبیس گھنٹوں میں آپ کتنی زیادہ سنتوں پر عمل کر کے کتنا زیادہ اجر و ثواب کما سکتے ہیں !
ان سنتوں میں سے (۲۵) سنتیں ایسی ہیں جن پر ہر رکعت میں بار بار عمل کیا جاتا ہے۔ اِس طرح فرض نمازوں کی کل رکعات میں ان کی تعداد (۴۲۵) ہو جاتی ہے۔ اور نفل نمازوں کی کل رکعات (۲۵) میں ان سنتوں کی مجموعی تعداد (۶۲۵) ہو جاتی ہے بشرطیکہ وہ ان تمام سنتوں پر عمل کرے۔
اور اگر وہ نفل نماز کی رکعات میں اضافہ کر لے یا نماز چاشت اور نماز تہجد بھی پڑھے تو یقیناً ان کی تعداد میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ ان سنتوں میں سے کچھ سنتیں ایسی ہیں جن پر نماز میں صرف ایک مرتبہ یا دو مرتبہ عمل کیا جا سکتا ہے
مثلاً : تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع الیدین کرنا۔ دو تشہد والی نماز میں تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہونے کے بعد رفع الیدین کرنا۔ پورے تشہد میں شروع سے لیکر آخر تک شہادت والی انگلی سے اشارہ کرنا ( خواہ پہلا تشہد ہو یا دوسرا) اور سلام پھیرتے ہوئے دائیں بائیں التفات کرنا۔ جلسۂ استراحت چار رکعت والی نماز میں دو مرتبہ اور باقی نمازوں میں ایک ایک مرتبہ ہوتا ہے چاہے فرض نماز ہو یا نفل۔ اور ’ تورک ‘ جس کی وضاحت پہلے گذر چکی ہے یہ صرف دو تشہد والی نماز کے آخری تشہد میں ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان سنتوں کی مجموعی تعداد فرض نمازوں میں (۳۴ ) جبکہ نفل نمازوں میں (۴۸) ہو جاتی ہے۔ لہذا اپنی نماز کو ان قولی و عملی سنتوں کے ساتھ مزین کیجئے اور اپنا اجر و ثواب کئی گنا بڑھائیے اور اللہ کے ہاں اپنا مقام بلند کیجئے۔
فائدہ :
امام ابن القیمؒ کا کہنا ہے کہ’’ بندے کو اللہ کے سامنے دو مرتبہ کھڑا ہونا ہے : ایک نماز میں اور دوسرا قیامت کے روز۔ لہذا جو شخص نماز کی حالت میں اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کا حق ادا کر دیتا ہے اس کیلئے قیامت کے دن کا کھڑا ہونا آسان ہوگا۔ اور جو شخص نماز والے قیام کا حق ادا نہیں کرتا اس کیلئے قیامت کے دن والا قیام انتہائی سخت ہوگا۔‘‘
فرض نماز کے بعد کی سنتیں
درج ذیل دعاؤں کا پڑھنا مسنون ہے :
٭۔تین مرتبہ أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ کہہ کر یہ دعا پڑھیں :
اَللّٰہُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ یَا ذَالْجَلاَلِ وَالْإِکْرَامِ
’’ اے اللہ ! تو سلامتی والا ہے اور تجھ ہی سے سلامتی ہے۔ تو بابرکت ہے اے بزرگی اور عزت والے۔‘‘ ( مسلم )
’’ لَا إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، اَللّٰہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا یَنْفَعُ ذَالْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ ‘‘
’’ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ۔ وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ۔اسی کیلئے ساری بادشاہت ہے اور اسی کیلئے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ اے اللہ ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو توروک لے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی بزرگی والے کی بزرگی تجھ کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔‘‘ (بخاری،مسلم )
٭۔’’ لاَ إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ َلا شَرِیْکَ لَہُ،لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ،لاَ إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَلاَ نَعْبُدُ إِلَّا إِیَّاہُ،لَہُ النِّعْمَۃُ وَلَہُ الْفَضْلُ وَلَہُ الثَّنَائُ الْحَسَنُ،لاَ إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ ‘‘ (مسلم )
’’ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ۔وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں ۔اسی کیلئے ساری بادشاہت ہے اور اسی کیلئے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔اللہ کی توفیق کے بغیر نہ کسی برائی سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ کچھ کرنے کی۔ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور ہم اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے۔ساری نعمتیں اسی کیلئے ہیں اور سارا فضل اسی کیلئے ہے اور اچھی ثناء اسی کیلئے ہے۔اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ۔ہم اسی کیلئے دین کو خالص کرتے ہیں اگرچہ کافروں کو یہ بات ناپسند کیوں نہ ہو۔‘‘
’’ اَللّٰہُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ‘‘
’’ اے اللہ ! اپنے ذکر ، اپنے شکر اور اپنی عبادت میں حسن پیدا کرنے پر میری مدد فرما۔‘‘ ( ابو داؤد ، نسائی )
٭۔۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ، ۳۳ مرتبہ الحمد للہ اور ۳۳ مرتبہ اللہ أکبر کہنا ، پھر ایک مرتبہ لاَ إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْکَ لَہُ،لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌکا پڑھنا۔ (مسلم)
ان تسبیحات کے فوائد
دن اور رات کی ہر نماز کے بعد ان تسبیحات کو پڑھا جائے تو پڑھنے والے کیلئے ۵۰۰ صدقوں کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے ، جیسا کہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ:
’’ہر تسبیح ( سبحان اللہ ) صدقہ ہے اور ہر تکبیر ( اللہ اکبر) صدقہ ہے اور ہر (الحمد للہ ) صدقہ ہے اور ہر ( لا إلہ إلا اللہ) صدقہ ہے۔‘‘ ( مسلم )
اسی طرح اس کیلئے جنت میں ۵۰۰ درخت لگا دئے جاتے ہیں ۔جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ:
’’ رسول اللہﷺ حضرت ابو ہریرہؓ کے پاس سے گذرے جو کہ شجر کاری کر رہے تھے۔ تو آپﷺ نے فرمایا:اے ابوہریرہؓ ! کیا میں تمھیں اس سے بہتر شجر کاری نہ بتاؤں ؟ابوہریرہؓ نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسولﷺ ! تو آپﷺ نے فرمایا : تم سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ کہا کرو۔ ہر ایک کے بدلے میں تمھارے لئے جنت میں ایک درخت لگا دیا جائے گا۔‘‘ (ابن ماجہ : اسے البانیؒ نے صحیح کہا ہے )
٭۔جو شخص ان تسبیحات کو پڑھتا ہے اس کی غلطیاں چاہے سمندر کی جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں معاف کر دی جاتی ہیں ۔ ( مسلم )
٭۔یہ تسبیحات ہمیشہ پڑھنے والا شخص دنیا و آخرت کی ذلت ورسوائی سے محفوظ رہتا ہے۔ ( مسلم )
اسی طرح اِن دعاؤں کو بھی پڑھنا چاہئے :
٭۔’’ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ أَنْ أُرَدَّ إِلٰی أَرْذَلِ الْعُمْرِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ‘‘ (بخاری )
’’ اے اللہ ! میں بزدلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ اور بے غرض عمر کی طرف لوٹائے جانے سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔ اور دنیا کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔ اور عذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔‘‘
٭۔’’ رَبِّ قِنِیْ عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ‘‘
’’ اے میرے رب ! مجھے اس دن اپنے عذاب سے بچانا جب تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا۔‘‘
حضرت برائؓ کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہماری خواہش ہوتی کہ ہم آپ کی دائیں طرف ہوں اور آپﷺ ہماری طرف متوجہ ہوں ۔ تو میں نے انھیں یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا :
’’ رَبِّ قِنِیْ عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَک‘‘ ( مسلم )
٭۔ آخری تین سورتوں کو پڑھنا۔ مغرب اور فجر کے بعد انھیں تین تین مرتبہ پڑھنا مسنون ہے۔ ( ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی )
٭۔ آ یۃ الکرسی کا پڑھنا:ارشاد نبویؐ ہے :
’’ جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی کو پڑھے اس کے اور جنت کے درمیان صرف اس کی موت کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔‘‘ (نسائی)
٭۔ فجر اور مغرب کے بعد دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں :
’’ لاَ إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ‘‘ ( ترمذی )
’’ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ۔ وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کیلئے ساری بادشاہت ہے اور اسی کیلئے تمام تعریفیں ہیں ۔وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
٭۔درج بالا تسبیحات کی گنتی دائیں ہاتھ پر کرنا۔
٭۔درج بالا اذکار اور دعاؤں کو جگہ تبدیل کئے بغیر اپنی جائے نماز پر بیٹھے بیٹھے پڑھنا۔
نوٹ :
ان تمام سنتوں پر اگر ہر فرض نماز کے بعد عمل کیا جائے تو تقریباً ۵۵ سنتوں پر عمل ہوگا اور فجر اور مغرب کے بعد اس سے بھی زیادہ۔ لہذا ان کا بھر پور خیال رکھنا چاہیے۔ یاد رہے کہ فرض نماز میں واقع ہونے والا خلل مذکورہ اذکار سے پورا کر دیا جاتا ہے۔
صبح و شام کی سنتیں
درج ذیل دعاؤں اور اذکار کا پڑھنا مسنون ہے :
٭۔آیۃ الکرسی:
ارشاد نبویؐ ہے کہ : ’’ جو شخص اسے صبح کے وقت پڑھ لے اسے شام تک جنوں سے پناہ دے دی جاتی ہے۔ اور جو اسے شام کے وقت پڑھ لے اسے صبح ہونے تک جنوں سے پناہ دے دی جاتی ہے۔‘‘ ( نسائی۔ البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
٭۔معوذات ( آخری تین سورتوں ) کا پڑھنا:
ارشاد نبویؐ ہے :’’ جو شخص ان سورتوں کو صبح و شام تین تین مرتبہ پڑھ لے اسے یہ ہر چیز سے کافی ہو جاتی ہیں ۔‘‘ ( ابو داؤد ، ترمذی )
٭۔صبح کے وقت یہ دعا پڑھے :
’’ أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْکُ لِلّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ لاَ إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْکَ لَہُ،لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ،رَبِّ أَسْأَلُکَ خَیْرَ مَا فِیْ ہٰذَا الْیَوْمِ وَخَیْرَ مَا بَعْدَہُ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا فِیْ ہٰذَا الْیَوْمِ وَشَرِّ مَا بَعْدَہُ رَبِّ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَسُوْئِ الْکِبَرِ،رَبِّ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَعَذَابِ الْقَبْر‘‘
’’ ہم نے صبح کی اور اللہ کے ملک نے صبح کی اور تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ۔اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ،وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔اسی کیلئے ساری بادشاہت ہے اور اسی کیلئے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے میرے رب ! میں تجھ سے اِس دن کی اور اس کے بعد والے دن کی خیر کا سوال کرتا ہوں اور میں اس دن کے اور اس دن کے بعد والے دن کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔اے میرے رب ! میں سستی سے اور بڑھاپے کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔اے میرے رب!میں عذاب جہنم اور عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔‘‘ (مسلم )
نوٹ :
یہی دعا شام کے وقت بھی پڑھنی چاہیے ، لیکن شام کے وقت (أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ) کی بجائے (أَمْسَیْنَا وَأَمْسٰی ) اور ( ہٰذَا الْیَوْمِ ) کی بجائے (ہٰذِہِ اللَّیْلَۃِ ) کہنا ہو گا۔
٭۔صبح کے وقت یہ دعا پڑھیں :
’’ اَللّٰہُمَّ بِکَ أَصْبَحْنَا وَبِکَ أَمْسَیْنَا ، وَبِکَ نَحْیَا وَبِکَ نَمُوْتُ ،وَإِلَیْکَ النُّشُوْرُ‘‘ (ترمذی)
’’ اے اللہ ! تیری توفیق سے ہم نے صبح کی اور تیری ہی توفیق سے ہم نے شام کی اور تیرے حکم سے ہم زندہ ہوئے اور تیرے ہی حکم سے ہم پر موت آئے گی اور تیری طرف اٹھ کر جانا ہے۔‘‘
اور یہی دعا شام کے وقت یوں پڑھیں :
’’ اَللّٰہُمَّ بِکَ أَمْسَیْنَا وَبِکَ أَصْبَحْنَاوَبِکَ نَحْیَا وَبِکَ نَمُوْتُ وَإِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ‘‘
’’ اے اللہ ! تیری توفیق سے ہم نے شام کی اور تیری ہی توفیق سے ہم نے صبح کی اور تیرے حکم سے ہم زندہ ہوئے اور تیرے ہی حکم سے ہم پر موت آئے گی اور تیری طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
٭۔صبح و شام یہ دعا پڑھیں :
’’ اَللّٰہُمَّ أَنْتَ رَبِّیْ لاَ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَأَنَا عَبْدُکَ وَأَنَا عَلٰی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ أَبُوْئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَأَبُوْئُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَإِنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا اَنْتَ‘‘
’’ اے اللہ ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں ، تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں ۔میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے میں تیری پناہ میں آتا ہوں ۔ میں اپنے اوپر تیری نعمتوں کا اعتراف اور اپنے گناہ گار ہونے کا اعتراف کرتا ہوں ۔ لہذا تو مجھے معاف کر دے کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں ۔‘‘
اس دعا کی فضیلت حدیث میں یوں بیان کی گئی ہے :
’’ جو شخص اسے شام کے وقت یقین کے ساتھ پڑھ لے اور اسی رات میں اس کی موت آ جائے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ اسی طرح جو شخص اسے صبح کے وقت یقین کے ساتھ پڑھ لے اور اسی دن اس کی موت آ جائے تو وہ بھی سیدھا جنت میں جائے گا۔‘‘ ( بخاری )
٭۔صبح کے وقت یہ دعا چار مرتبہ پڑھیں :
’’ اَللّٰہُمّ إِنِّیْ أَصْبَحْتُ أُشْہِدُکَ وَأُشْہِدُ حَمَلَۃَ عَرْشِکَ وَمَلاَئِکَتَکَ وَجَمِیْعَ خَلْقِکَ أَنَّکَ أَنْتَ اللّٰہُ لاَ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُکَ وَرَسُوْلُکَ ‘‘
’’ اے اللہ ! میں نے صبح کر لی ، میں تجھے گواہ بناتا ہوں اور تیرے عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کو اور تیرے ( دیگر ) فرشتوں کو اور تیری پوری مخلوق کو گواہ بناتا ہوں کہ صرف تو ہی سچا معبود ہے اور تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔ تو اکیلا ہے ،تیرا کوئی شریک نہیں اور محمدﷺ تیرے بندے اور رسول ہیں ۔‘‘
یہی دعا شام کے وقت بھی چار مرتبہ پڑھیں ، لیکن شام کے وقت أَصْبَحْتُ کی بجائے أَمْسَیْتُ کہنا ہو گا۔
اس دعا کی فضیلت حدیث میں یوں بیان کی گئی ہے :
’’جو شخص اسے صبح و شام چار چار مرتبہ پڑھ لے اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔‘‘ ( عمل الیوم واللیلۃ للنسائی ، ابو داؤد )
٭۔صبح کے وقت یہ دعا پڑھیں :
’’ اَللّٰہُمَّ مَا أَصْبَحَ بِیْ مِنْ نِّعْمَۃٍ أَوْ بِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِکَ فَمِنْکَ وَحْدَکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ، فَلَکَ الْحَمْدُ وَالشُّکْرُ ‘‘
’’ اے اللہ ! مجھ پر یا تیری مخلوق میں سے کسی پر جس نعمت نے صبح کی وہ تیری طرف سے ہے۔ تو اکیلا ہے ، تیرا کوئی شریک نہیں ، سو تمام تعریف اور شکر تیرے لئے ہے۔‘‘
یہی دعا شام کے وقت بھی پڑھنی چاہیے ، لیکن أَصْبَحَ کی بجائے أَمْسٰی کہا جائے۔
اس دعا کی فضیلت حدیث میں یوں بیان کی گئی ہے :
’’ جو آدمی اسے صبح کے وقت پڑھ لے اس نے اس دن کا شکر ادا کر دیا اور جو اسے شام کے وقت پڑھ لے اس نے اس رات کا شکر ادا کر دیا۔‘‘ ( عمل الیوم واللیلۃ للنسائی ، ابو داؤد )
٭۔صبح و شام تین تین مرتبہ یہ دعا پڑھیں :
’’ اَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَدَنِیْ اَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ سَمْعِیْ اَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَصَرِیْ ،لاَ إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ لاَ إِلٰہَ إلِاَّ أَنْتَ‘‘ ( ابو داؤد ، احمد )
’’ اے اللہ ! مجھے میرے بدن میں عافیت دے۔ اے اللہ ! مجھے میرے کانوں میں عافیت دے۔ اے اللہ! مجھے میری نظر میں عافیت دے ، تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ۔اے اللہ ! میں کفر اور فقر سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور عذابِ قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں ، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔‘‘
٭۔صبح و شام یہ دعا سات سات مرتبہ پڑھیں :
’’ حَسْبِیَ اللّٰہُ لاَ إِلٰہَ إِلَّا ہُوَعَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ‘‘
’’ مجھے اللہ ہی کافی ہے ، اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ، میں نے اسی پر توکل کیا اور وہ عرشِ عظیم کا رب ہے۔‘‘
اس دعا کی فضیلت حدیث میں یوں بیان کی گئی ہے :
’’ جو شخص اسے صبح و شام سات سات مرتبہ پڑھ لے اللہ تعالیٰ اسے دنیاوی واخروی غموں سے نجات دے دیتا ہے۔‘‘( ابو داؤد ، عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی )
٭۔درج ذیل دعا صبح و شام پڑھیں :
’’ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ دِیْنِیْ وَدُنْیَایَ وَأَہْلِیْ وَمَالِیْ،اَللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِیْ وَآمِنْ رَوْعَاتِیْ،اَللّٰہُمَّ احْفَظْنِیْ مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِیْ وَعَنْ یَمِیْنِیْ وَعَنْ شِمَالِیْ،وَمِنْ فَوْقِیْ ، وَأَعُوْذُ بِعَظَمَتِکَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ ‘‘ ( ابو داؤد ، ابن ماجہ )
’’ اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں ۔اے اللہ ! میں تجھ سے اپنے دین ، اپنی دنیا ، اپنے اہل وعیال اور مال و دولت میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں ۔ اے اللہ ! میرے عیبوں پر پردہ ڈال دے اور مجھے ڈر اور خوف میں امن عطا کر۔اے اللہ ! تو میری حفاظت فرما میرے سامنے سے ، میرے پیچھے سے ، میری دائیں طرف سے ، میری بائیں طرف سے اور میرے اوپر سے۔اور میں تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ اچانک اپنے نیچے سے ہلاک کیا جاؤں ۔‘‘
٭۔درج ذیل دعا بھی صبح و شام پڑھیں :
’’ اَللّٰہُمَّ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ، فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ ، رَبَّ کُلِّ شَیْئٍ وَمَلِیْکَہُ ، أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ ، أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ الشَّیْطَانِ وَشِرْکِہِ وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلٰی نَفْسِیْ سُوْء ًا أَوْ أَجُرَّہُ إِلٰی مُسْلِمٍ ‘‘
’’ اے غیب اور حاضر کو جاننے والے ! اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ! اے ہر چیز کے پروردگار اور اے ہر چیز کے مالک ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں ،میں اپنے نفس کے شر سے اور شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔اور اس بات سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نفس پر کسی برائی کا ارتکاب کروں یا کسی برائی کو کسی مسلمان کی طرف کھینچ لاؤں ۔‘‘ ( ابو داؤد ، ترمذی )
٭۔درج ذیل دعا بھی صبح و شام تین تین مرتبہ پڑھیں :
’’ بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شَیْئٌ فِیْ الْأرْضِ وَلَا فِیْ السَّمَائِ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ‘‘
’’ اللہ کے نام کے ساتھ کہ جس کے نام کے ساتھ زمین وآسمان میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘
اس دعا کی فضیلت حدیث میں یوں بیان کی گئی ہے :
’’ جو شخص اسے صبح و شام تین تین مرتبہ پڑھ لے اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔‘‘ (ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، الحاکم )
٭۔درج ذیل دعا بھی صبح و شام تین تین مرتبہ پڑھیں :
’’ رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْإسْلاَمِ دِیْنًا وَبِمُحَمَّدٍ نَّبِیًّا ‘‘
’’ میں اللہ کو رب ماننے اور اسلام کو دین ماننے اور محمدﷺ کو نبی ماننے پر راضی ہوں ۔‘‘
اس دعا کی فضیلت حدیث میں یوں بیان کی گئی ہے :
’’ جو شخص اسے صبح و شام تین تین مرتبہ پڑھ لے ، اللہ پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ اسے قیامت والے دن راضی کرے۔‘‘ ( ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ، أحمد )
٭۔اسی طرح یہ دعا بھی صبح و شام پڑھیں :
’’ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ أَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہُ وَلاَ تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ ‘‘ (الحاکم نے اسے صحیح کہا ہے اورالذہبی نے اس کی موافقت کی ہے )
’’ اے وہ جو کہ زندہ ہے ! اے ( زمین وآسمان کو ) قائم رکھنے والے ! میں تیری رحمت کے ساتھ مدد کا طلبگار ہوں ،میرے تمام معاملات کو میرے لئے درست کردے ، اور مجھے ایک پل کیلئے بھی میرے نفس کے حوالے نہ فرما۔‘‘
٭۔نبی کریمﷺ صبح کے وقت یہ دعا بھی پڑھا کرتے تھے :
’’ أَصْبَحْنَا عَلٰی فِطْرَۃِ الْإسْلاَمِ وَکَلِمَۃِ الْإِخْلَاصِ وَدِیْنِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَمِلَّۃِ أَبِیْنَا إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَمَاکَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ‘‘ ( احمد )
’’ ہم نے فطرت اسلام، کلمۂ اخلاص اور اپنے نبی حضرت محمدﷺ کے دین اور اپنے باپ حضرت ابراہیمؑ کی ملت پر صبح کی ، وہ شرک سے اعراض کرنے والے تھے ، مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘
٭۔صبح و شام سو مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ پڑھیں :
اس کی فضیلت حدیث میں یوں بیان کی گئی ہے :
’’ جو شخص اسے صبح و شام سو مرتبہ پڑھ لے قیامت والے دن کوئی شخص اس سے افضل عمل نہیں لا سکے گا ، سوائے اس شخص کے کہ جو اسی آدمی کی طرح اسے پڑھتا تھا یا اس سے زیادہ عمل کرتا تھا۔‘‘ ( مسلم )
نیز اس کی ایک اور فضیلت یہ بھی ہے کہ
’’ اس آدمی کے تمام گناہ ،خواہ سمندر کی جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں ، معاف کردئے جاتے ہیں ۔‘‘ ( صححہ الألبانی فی الکلم الطیب)
٭۔صبح کے وقت یہ دعا سو مرتبہ پڑھیں :
’’ لاَ إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ‘‘
اس دعا کے فضائل حدیث میں یوں بیان کئے گئے ہیں :
اسے سو مرتبہ پڑھنا دس گردنوں کو آزاد کرنے کے برابر ہے۔
اس کیلئے سو نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں ۔
اس کے سو گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ۔
اور یہ دعا شام ہونے تک اس کیلئے شیطان کے سامنے قلعہ بنی رہتی ہے۔ ( بخاری ،مسلم )
٭۔صبح کے وقت اس دعا کو پڑھیں :
’’ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ عِلْمًا نَّافِعًا وَّرِزْقًا طَیِّبًاوَعَمَلًا مُّتَقَبَّلاً ‘‘ ( ابن ماجہ )
’’ اے اللہ ! میں تجھ سے علمِ نافع ، پاکیزہ رزق اور اس عمل کا سوال کرتا ہوں جسے قبول کر لیا جائے۔‘‘
٭۔صبح و شام تین تین مرتبہ اس دعا کو پڑھیں :
’’ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ عَدَدَ خَلْقِہِ وَرِضَا نَفْسِہِ وَزِنَۃَ عَرْشِہِ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہِ ‘‘ ( مسلم)
’’ اللہ پاک ہے اور اپنی تعریف کے ساتھ ہے اپنی مخلوق کی تعداد کے برابراور اپنے نفس کی رضا کے برابر اور اپنے عرش کے وزن کے برابر اور اپنے کلمات کے برابر۔‘‘
٭۔شام کے وقت تین مرتبہ یہ دعا پڑھیں :
’’ أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ‘‘ (ترمذی ، ابن ماجہ ، حاکم )
’’ میں ہر مخلوق کے شر سے اللہ کے مکمل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں ۔‘‘
نوٹ :
درج بالا اذکار اور دعاؤں میں سے جس کو بھی آپ پڑھیں گے اس سے ایک سنت پر عمل ہوگا۔ لہذا ان تمام کو صبح و شام پڑھا کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ سنتوں پر عمل کرنے کا ثواب کما سکیں ۔ یاد رہے کہ ان اذکار کو اخلاص، صدق اور یقین کے ساتھ اور ان کے معانی میں تدبر کرتے ہوئے پڑھنا ضروری ہے تاکہ عملی زندگی میں آپ کو ان کے اچھے نتائج محسوس ہو سکیں ۔
لوگوں سے میل ملاقات کی سنتیں
٭۔سلام کہنا:
٭۔رسول اللہﷺ سے سوال کیا گیا کہ اسلام میں کونسا عمل سب سے بہتر ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا :
’’یہ کہ تو کھانا کھلائے اور ہر جاننے اور نہ جاننے والے کو سلام کہے۔‘‘ ( بخاری ،مسلم )
٭۔’’ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا اور اس نے کہا : السلام علیکم۔ تو آپﷺ نے اس کا جواب دیا ، پھر وہ بیٹھ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کیلئے دس نیکیاں ہیں ۔ پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ تو آپ ﷺ نے اس کا جواب دیا پھر وہ بھی بیٹھ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کیلئے بیس نیکیاں ہیں ۔ پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ تو آپﷺ نے اس کا جواب دیا پھر وہ بھی بیٹھ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کیلئے تیس نیکیاں ہیں ۔‘‘ ( ابو داؤد ، ترمذی : حسن )
غور فرمائیں ،
اللہ آپ کی حفاظت فرمائے ! جو شخص پورا سلام نہیں کہتا وہ کتنا زیادہ اجر ضائع کر بیٹھتا ہے۔ اگر وہ پورا سلام ( السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ) کہے تو اسے تیس نیکیاں ملتی ہیں اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ گویا ایک مرتبہ پورا سلام کہنے سے ۳۰۰ نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اور اگر اللہ چاہے تو اس سے بھی زیادہ عطا کرسکتا ہے۔ لہذا اپنی زبان کو پورا سلام کہنے کا عادی بنائیں تاکہ اتنا بڑا اجر و ثواب حاصل ہو سکے۔
اور مسلمان دن اور رات میں کئی مرتبہ سلام کہتا ہے ، جب مسجدمیں داخل ہو تو متعدد نمازیوں کو سلام کہنے کا موقعہ ملتا ہے ، اسی طرح جب ان سے جدا ہو تب بھی انھیں سلام کہے ، اسی طرح گھر میں آتے ہوئے اور پھر باہر جاتے ہوئے بھی سلام کہے۔ ان تمام موقعوں پر اگر پورا سلام کہا جائے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنا زیادہ ثواب صرف اسی سلام کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے !!
اور یہ بات نہ بھولیں کہ جس طرح ملاقات کے وقت سلام کہنا مسنون ہے اسی طرح جدائی کے وقت بھی پورا سلام کہنا سنت ہے۔
ارشاد نبویؐ ہے :’’ تم میں سے کوئی شخص جب کسی مجلس میں جائے تو سلام کہے اور جب وہاں سے جانا چاہے تو بھی سلام کہے کیونکہ ملاقات جدائی سے زیادہ سلام کا حق نہیں رکھتی۔‘‘ ( ابو داؤد ، ترمذی)
انسان اگر ہر نماز کے وقت سلام کا اہتمام کرے تو وہ دن اور رات میں بیس مرتبہ سلام کہہ سکتا ہے۔ پانچ مرتبہ گھر سے جاتے ہوئے ، پانچ مرتبہ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے ، پانچ مرتبہ مسجد سے نکلتے ہوئے اور پانچ مرتبہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے۔ جبکہ چوبیس گھنٹوں میں انسان کو کئی اور مقاصد کیلئے بھی گھر سے باہر جانا اور واپس آنا پڑتا ہے اور کئی لوگوں سے ہمکلام ہونے کا بھی موقعہ ملتا ہے اور کئی اور احباب سے فون پر بھی اس کا رابطہ ہوتا ہے توایسے تمام مواقع پر پورا سلام کہہ کر وہ بہت زیادہ نیکیاں کما سکتا ہے۔
٭۔چہرے پر مسکراہٹ لانا:
ارشاد نبویؐ ہے : ’’ نیکی کے کسی کام کو حقیر مت سمجھو ، خواہ تم اپنے بھائی کو مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہی ملو۔‘‘ (مسلم )
٭۔مصافحہ کرنا:
ارشاد نبویؐ ہے: ’’ دو مسلمان ملاقات کے وقت جب مصافحہ کرتے ہیں تو جدا ہونے سے پہلے ہی ان کے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ۔‘‘ ( ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ )
امام نووی ؒکہتے ہیں کہ ہر ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا مستحب ہے۔ تو جب بھی کسی مسلمان سے آپ کی ملاقات ہو آپ درج بالا تین سنتوں پر عمل کر کے بہت زیادہ ثواب حاصل کرسکتے ہیں ۔
٭۔اچھی بات کرنا:
فرمان الٰہی ہے :’’ وَقُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا ‘‘ ( الإسراء : ۵۳)
’’ اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں ،کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے۔بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘‘
اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : ’’ اچھی بات کرنا صدقہ ہے۔‘‘ ( بخاری ،مسلم )
اچھی بات میں ذکر کرنا، دعا کرنا، سلام کہنا،برحق تعریف کرنا، نیکی کا حکم دینا،سچ بولنا اور نصیحت کرنا وغیرہ سب شامل ہیں ۔
اچھی بات انسان پر جادو جیسا عمل کرتی ہے اور اسے راحت و اطمینان پہنچاتی ہے۔
اچھی بات اِس کی دلیل ہوتی ہے کہ اس انسان کا دل نورِ ایمان اور ہدایت سے بھرا ہوا ہے۔
لہذا ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اچھی بات کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائے۔ اپنی بیوی ، اپنی اولاد ، اپنے پڑوسی ، اپنے دوست ، اپنے ماتحت ملازمین اور الغرض ان تمام لوگوں کے ساتھ اچھی بات کو معمول بنائے جن کے ساتھ اس کا دن اور رات میں کئی مرتبہ میل ملاپ ہوتا ہے۔
مجلس سے اٹھ کر جانے کی سنت
مجلس سے اٹھ کر جاتے ہوئے یہ دعا پڑھنی چاہیے :
’’ سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَیْکَ ‘‘
’’ اے اللہ ! تو پاک ہے اور اپنی تعریف کے ساتھ ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں ،میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں ۔‘‘
اس دعا کو پڑھنے کی فضیلت حدیث میں یوں بیان کی گئی ہے :
’’اس دعا کو پڑھنے سے دوران مجلس جو گناہ سرزد ہوتے ہیں ، انھیں معاف کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (سنن اربعہ )
انسان دن اور رات میں کئی مجالس میں شریک ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر :
٭۔جب وہ دن اور رات میں تین مرتبہ اپنے اہل خانہ یا ساتھیوں کے ساتھ مل کر کھانا کھاتا ہے۔
٭۔جب وہ اپنے دوست یا کسی پڑوسی سے ملاقات کرتا ہے،اگرچہ کھڑے کھڑے اس سے بات چیت کر کے چلا کیوں نہ جائے۔
٭۔جب وہ دورانِ ڈیوٹی اپنے ساتھی ملازمین کے ساتھ یا سکول و کالج میں اپنے ہم کلاس طلبہ کے ساتھ رہتا ہے۔
٭۔جب وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہوتا ہے اور ان کے ساتھ کئی امور پر تبادلۂ خیالات کرتا ہے۔
٭۔جب وہ کسی کو اپنے ساتھ لے کر گاڑی میں گھومتا ہے یا اس کے ساتھ کسی کام پر جاتا ہے۔
٭۔جب وہ کوئی درس یا لیکچر سننے کیلئے دیگر حاضرین کے ساتھ بیٹھتا ہے۔
لہذا ذرا سوچیں ! ان مجلسوں میں سے کتنی مجلسیں ایسی ہیں جن سے اٹھ کر جاتے ہوئے آپ مندرجہ بالا دعا کو پڑھتے ہیں ؟ اور اگر آپ اس دعا کے معنی میں غور فرمائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ دعا انتہائی عظیم ہے۔اس کے ذریعے انسان ہمیشہ اللہ کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھتا ہے ، اس کی تعریف کرتا ہے ، اسے عیبوں سے پاک ذات قرار دیتا ہے ، اس کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے اور اپنی کوتاہیوں پر اللہ سے معافی مانگتا ہے اور ان سے توبہ کرتا ہے۔ سو کتنی عظیم ہے یہ دعا کہ اس میں توحید بھی ہے ، اللہ کی تعریف بھی ہے اور اپنے گناہوں پر اظہارِ شرمندگی بھی ہے۔
امام ابن القیمؒ کہتے ہیں :
اپنے دوستوں کے ساتھ اجتماع دو قسم کا ہوتا ہے :
1۔ایک اجتماع محض وقت گذارنے اور طبیعت کو خوش کرنے کیلئے ہوتا ہے۔ اوراس میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ کم از کم نقصان یہ ہوتا ہے کہ یہ دل کو فاسد اور وقت کو ضائع کرتا ہے۔
2۔دوسرا اجتماع ایک دوسرے کو حق بات کی وصیت کرنے اور نجات پانے کے اسباب پر ایک دوسرے سے تعاون کرنے کیلئے ہوتا ہے۔ اور یہ اجتماع سب سے زیادہ نفع بخش اور بہت بڑی غنیمت ہوتا ہے۔
کھانے کی سنتیں
٭۔کھانے سے پہلے اور کھانے کے دوران
’بسم اللہ ‘ کا پڑھنا :اگر شروع میں بھول جائے تو یاد آنے پر بِسْمِ اللّٰہِ فِیْ أَوَّلِہِ وَآخِرِہِ پڑھ لے۔ ( ابو داؤد ، ترمذی )
٭۔ دائیں ہاتھ سے کھانا۔
٭ ۔اپنے سامنے سے کھانا۔
ایک حدیث میں ارشاد نبویؐ ہے : ’’ اے بچے ! بسم اللہ پڑھو اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔‘‘ ( مسلم )
٭۔لقمہ گر جائے تو اسے صاف کر کے کھا لینا
ارشا نبویؐ ہے : ’’ جب تم میں سے کسی شخص سے لقمہ گر جائے تو وہ اسے صاف کرکے کھا لے۔‘‘ ( مسلم )
٭۔تین انگلیوں کے ساتھ کھانا
حدیث میں ہے کہ :’’رسول اللہﷺ تین انگلیوں کے ساتھ کھاتے تھے۔‘‘ ( مسلم )
اکثرو بیشتر آپﷺ کا یہی طریقہ تھا۔ لہذا یہی افضل ہے۔ہاں اگر مجبوری ہو تو کوئی دوسرا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔
٭۔کھانے کے دوران بیٹھنے کی کیفیت
اپنے گھٹنوں اور پیروں کے بل بیٹھنا یا دائیں پاؤں کو کھڑا کر کے بائیں پاؤں پر بیٹھنا۔ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں اسے مستحب قرار دیا ہے۔
٭۔کھانے کے بعد پلیٹ اور انگلیوں کو چاٹنا
نبی کریمﷺ نے پلیٹ اور انگلیوں کو چاٹنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : ’’ تمھیں نہیں معلوم کہ برکت کس میں ہے۔‘‘(مسلم )
٭۔ کھانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا:
ارشاد نبویؐ ہے : ’’ بے شک اللہ تعالیٰ بندے سے اس وقت راضی ہو جاتا ہے جب وہ کوئی چیز کھاتا ہے تو اس کا شکر ادا کرتا ہے۔‘‘ (مسلم )
اور آپ ﷺ درج ذیل الفاظ کے ساتھ کھانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرتے تھے :
’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَطْعَمَنِیْ ہٰذَاوَرَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِّنِّیْ وَلاَ قُوَّۃٍ ‘‘
’’ تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور میری کوشش اور طاقت کے بغیر مجھے یہ عطا فرمایا۔‘‘
اس دعا کی فضیلت حدیث میں یوں بیان کی گئی ہے : ’’ اسے پڑھنے والے کے پچھلے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ۔‘‘ ( ابو داؤد، ترمذی ، ابن ماجہ … حافظ ابن حجر اور البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے )
کھانے کی مذکورہ سنتوں پر اگر دن اور رات کے تینوں کھانوں میں عمل کیا جائے تو اس طرح ۲۱ سنتوں پر عمل ہو گا اور اگر تینوں کھانوں کے درمیان کوئی اور ہلکی پھلکی غذا بھی کھائی جائے تو سنتوں کی مذکورہ تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
پینے کی سنتیں
٭۔’ بسم اللہ ‘ کا پڑھنا۔
٭۔دائیں ہاتھ کے ساتھ پینا۔
٭۔پینے کے دوران برتن سے باہر تین مرتبہ سانس لینا:
ایک حدیث میں ہے کہ ’’ رسول اللہ ﷺ پینے کے دوران تین مرتبہ سانس لیا کرتے تھے۔‘‘(مسلم )
٭۔ بیٹھ کر پینا:
ارشاد نبویؐ ہے کہ ’’ تم میں سے کوئی شخص کھڑا ہو کر نہ پئے۔‘‘ ( مسلم )
٭۔ پینے کے بعد الحمد للہ کہنا:
ارشاد نبویؐ ہے کہ ’’بے شک اللہ تعالیٰ بندے سے اس وقت راضی ہو جاتا ہے جب وہ کوئی چیز کھاتا ہے تو اس کا شکر ادا کرتا ہے اور کوئی چیز پیتا ہے تو اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔‘‘(مسلم )
نوٹ :
مندرجہ بالا سنتیں صرف پانی پینے کی نہیں بلکہ ہر مشروب کی ہیں ۔چاہے وہ گرم ہو یا ٹھنڈا۔ جبکہ اس دور میں بہت سارے لوگ صرف پانی پیتے ہوئے ان سنتوں کا خیال رکھتے ہیں اور باقی مشروبات میں نہیں رکھتے حالانکہ یہ فرق کرنا غلط ہے۔
اگر نیت نیک ہو تو !
یہ بات ہر انسان کو معلوم ہونی چاہیے کہ تمام مباح اعمال جیسے نیند ، کھانا پینا اور طلبِ رزق وغیرہ ہیں ان کو عبادات میں تبدیل کیا جا سکتاہے۔ اور ان کے ذریعے ہزاروں نیکیاں کمائی جا سکتی ہیں بشرطیکہ اس کی نیت اللہ کا تقرب حاصل کرنا ہو۔
رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے:
’’ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اور آدمی کیلئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔‘‘( بخاری ،مسلم )
اور اس کی ایک سادہ سی مثال یوں ہے کہ سوتے وقت اگر کوئی انسان یہ نیت کر کے جلدی سو جائے کہ نماز تہجد اور نماز فجر کیلئے جلدی بیدار ہو جائے گا تو اس کی یہ نیند عبادت بن جاتی ہے۔ اسی طرح باقی مباحات ہیں ۔
بیک وقت ایک سے زیادہ عبادات
بیک وقت ایک سے زیادہ عبادات کرنے کا طریقہ صرف ان لوگوں کو آتا ہے جو اپنے قیمتی اوقات کی حفاظت کرنا جانتے ہیں ۔اور اس کے کئی طریقے ہیں :
1 ۔انسان کا مسجد کی طرف جانا عبادت ہے ، چاہے پیدل چل کر جائے یا سواری پرسوار ہو کر، لیکن اس دوران وہ کئی اور عبادات بھی کرسکتا ہے مثلاً اللہ کا ذکر اور تلاوتِ قرآن وغیرہ۔
2۔کسی دعوتی تقریب میں حاضر ہونا عبادت ہے بشرطیکہ اس تقریب میں منکرات نہ ہوں ۔ اور اس دوران اگر وہ تقریب کے حاضرین کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دے اور انھیں پند و نصائح کرے یا اللہ کے ذکر میں مشغول رہے تو یوں ایک وقت میں وہ کئی عبادات کا ثواب حاصل کر سکتا ہے۔
3۔عورت کا گھریلو کام کاج سرانجام دینا عبادت ہے اگر اس کی نیت اللہ کا تقرب حاصل کرنا اور خاوند کو راضی کرنا ہو۔ اور اسی دوران اگر وہ اپنی زبان سے اللہ کا ذکر کرتی رہے یا کوئی دینی کیسٹ سنتی رہے تو اسے ایک وقت میں متعدد عبادتوں کا ثواب حاصل ہو سکتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں رسول اکرمﷺ کی زبان مبارک سے یہ دعا سو مرتبہ سنا کرتے تھے :
’’ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَتُبْ عَلَیَّ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ‘‘
’’ اے میرے رب ! مجھے معاف فرما اور میری توبہ قبول کر ، بے شک تو ہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘( ابو داؤد ، ترمذی : صحیح )
غور کریں کہ آپﷺ ایک ہی وقت میں دو عبادتیں کیا کرتے تھے۔ ایک صحابہ کرامؓ کے ساتھ مجلس اور انھیں دین کی تعلیم دینا اور دوسری اللہ کا ذکر اور استغفار اور توبہ۔
ہر حال میں اللہ کا ذکر
٭۔اللہ کا ذکر اللہ کی بندگی کی بنیاد ہے کیونکہ ذکر سے تمام اوقات و احوال میں بندے کا اس کے خالق سے تعلق ظاہر ہوتا ہے۔
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ’’ رسول اللہﷺ ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے۔‘‘(مسلم )
ذکر اللہ کے ساتھ ایک رابطہ ہے اور اس کے ساتھ رابطہ رکھنے میں زندگی ہے۔ اور اس کی پناہ میں نجات ہے اور اس کے قرب میں کامیابی اور اس کی رضا ہے۔ اور اس سے دوری اختیار کرنے میں گمراہی اور گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔
٭۔اللہ کا ذکر مومنوں اور منافقوں میں فرق کرتا ہے،کیونکہ منافق بہت کم اللہ کا ذکر کرتے ہیں ۔
شیطان صرف اس وقت انسان پر غالب آسکتا ہے جب وہ اللہ کے ذکر سے غافل ہو۔ سو اللہ کا ذکر ایک مضبوط قلعہ ہے جو انسان کو شیطان کی چالوں سے بچا لیتا ہے اور شیطان کو یہ بات پسند ہوتی ہے کہ انسان اللہ کے ذکر سے غافل رہے تاکہ وہ اسے بآسانی شکار کر سکے۔
٭۔ذکر سعادتمندی کا راستہ ہے۔ فرمان الٰہی ہے :
’’ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘‘ ( الرعد : ۲۸)
’’ جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ۔ یاد رکھو ! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہو تی ہے۔‘‘
٭۔ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتے رہنا
انسان کیلئے ضروری ہے کیونکہ اہل جنت صرف اس گھڑی پر حسرت کریں گے جس میں انھوں نے اللہ کا ذکر نہیں کیا ہوگا۔
ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتے رہنا ہمیشہ اللہ کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کی دلیل ہے۔
امام نوویؒ کہتے ہیں : ’’ علما کا اتفاق ہے کہ بے وضو اور جنبی شخص اور حیض ونفاس والی عورت کیلئے دل اور زبان کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنا جائز ہے ، جیسے سبحان اللہ ، الحمد للہ، اللہ اکبر ، لا إلہ إلا اللہ اور درود شریف پڑھنا اور دعا کرنا ، ہاں قراء ت کرنا جائز نہیں ۔‘‘
٭۔جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے اللہ اس کا ذکر کرتا ہے۔
فرمان الٰہی ہے :
’’ فَاذْکُرُوْنِیْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنِ ‘‘’’ پس تم میرا ذکر کرو میں تمھارا ذکر کروں گا۔اور تم میرا شکر ادا کرو اور ناشکری نہ کرو۔‘‘( البقرۃ : ۱۵۲)
کسی انسان کو اگر اس بات کا پتہ چل جائے کہ اسے فلاں بادشاہ نے یاد کیا ہے اور اس نے اپنی مجلس میں اس کی تعریف کی ہے تو اسے انتہائی خوشی ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر اسے یہ معلوم ہو جائے کہ اسے بادشاہوں کے بادشاہ نے فرشتوں کے سامنے یاد کیا ہے تو اس کی خوشی کا عالم کیا ہو گا !
ذکر سے مقصود یہ نہیں کہ صرف زبان چلتی رہے اور دل اللہ کی عظمت اور اس کی اطاعت سے غافل رہے ، بلکہ زبان کے ذکر کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی سوچوں کا مرکز اللہ رب العزت ہو اور وہ ذکر کے معانی میں تدبر کر رہا ہو۔
فرمان الٰہی ہے :’’ وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ ‘‘ ( الا عراف : ۲۰۵)
’’ اور صبح و شام اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کیا کر ، عاجزی اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ۔ اور اہل غفلت میں سے مت ہونا۔‘‘
لہذا ذکر کرنے والے کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کس عظیم ذات کا ذکر کر رہا ہے ! تاکہ ظاہری اور باطنی طور پر اللہ سے اس کا تعلق قائم رہے۔
اللہ کی نعمتوں میں غور و فکر
ارشاد نبویؐ ہے :’’ تَفَکَّرُوْا فِیْ آلَائِ اللّٰہِ وَ لَاتَفَکَّرُوْا فِیْ اللّٰہِ ‘‘( الطبرانی فی الاوسط ،البیہقی فی شعب الایمان۔ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے )
’’ اللہ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور خود اللہ میں غور و فکر نہ کیا کرو۔‘‘
وہ امور جو دن اور رات میں بار بار کئے جا سکتے ہیں ان میں سے ایک ہے اللہ کی نعمتوں کا احساس اور ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا۔ چوبیس گھنٹوں میں کتنے مواقع ایسے آتے ہیں جن میں انسان اگر اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کو یاد کرے تو بے ساختہ طور پر اس کی زبان سے’ الحمد للہ ‘ کے الفاظ جاری ہو جائیں !
مثال کے طور پر : آپ جب مسجد کی طرف جا رہے ہوں ، خصوصاً فجر کے وقت اور آپ دیکھیں کہ آپ کے آس پاس کے لوگ مسجد کا رخ نہیں کر رہے اور صبح ہونے کے باوجود مُردوں کی طرح گہری نیند سو رہے ہیں تو کیا آپ نے کبھی اس بات کا احساس کیا کہ اللہ نے آپ کو ہدایت دے کر آپ پر کتنا بڑا احسان فرمایا ہے !
٭۔آپ جب اپنی گاڑی میں بیٹھے راستے پر رواں دواں ہوتے ہیں تو آپ کو کئی مناظر دکھائی دیتے ہیں ،اِدھر کسی گاڑی کا حادثہ ہو گیا ہے اور اُدھر کسی گاڑی سے گانوں کی آواز آ رہی ہے ! تو کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتنا بڑا انعام فرمایا اور آپ کو حادثات سے محفوظ رکھا اور اپنی نافرمانی سے بچائے رکھا !
٭۔ آپ جب خبریں سن رہے یا پڑھ رہے یا دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آپ کو قحط سالی،سیلاب، وبا، حادثات ، زلزلوں ، جنگوں اور قوموں پر مظالم کی خبروں کا بھی علم ہوتا ہے۔ تو کیا آپ نے کبھی اس بات کا احساس کیا کہ اللہ نے آپ کو ان سے محفوظ فرما کر آپ پر کتنا انعام کیا ہے !
سو نیک بخت ہے وہ انسان جو ہر دم اللہ رب العزت کی نعمتوں کو یاد رکھتا ہے اور ہر موقعہ پر اللہ کے ان احسانات کا احساس کرتا ہے جن سے اللہ نے اسے نواز رکھا ہے۔ مثلاً صحت وتندرستی ، خوشحالی ، دین پر استقامت ، آفتوں اور مصیبتوں سے امن اور ان کے علاوہ دیگر بے شمار نعمتیں ۔ ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا ضروری ہے۔
رسول اللہﷺ کا ارشا د گرامی ہے : ’’ جو شخص کسی مصیبت زدہ آدمی کو دیکھ کر درج ذیل دعا پڑھے تو وہ اس آزمائش سے محفوظ رہتا ہے :
’’ اَلْحَمْدُلِلّٰہ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلاَکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلاً ‘‘ ’’تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے مجھے اس چیز سے عافیت دی جس میں تجھے مبتلا کیا اور اس نے اپنے پیدا کئے ہوئے بہت سے لوگوں پر مجھے فضیلت بخشی۔‘‘( ترمذی : حسن )
اور ارشاد باری ہے : ’’ فَاذْکُرُوْا آلَائَ اللّٰہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘( الاعراف : ۶۹) ’’ پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کیا کرو تاکہ تم کامیابی پا جاؤ۔‘‘
ہر ماہ میں ختمِ قرآن مجید
نبی کریم ﷺ نے عبد اللہ بن عمروؓ کو فرمایا تھا :’’ اِقْرَأِ الْقُرْآنَ فِیْ شَہْرٍ ‘‘ (ابو داؤد ) ’’ مہینے میں مکمل قرآن پڑھا کر۔‘‘
ہر ماہ میں پورا قرآن مجید ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر فرض نماز سے پہلے یا اس کے بعد کم از کم چار صفحات کی تلاوت کریں ، یوں دن اور رات میں بیس صفحات یعنی ایک پارے کی تلاوت ہو گی۔ اور اگر ہر روز اسی طرح کیا جائے تو تیس دنوں میں پورا قرآن مجید ختم ہو سکتا ہے۔
سونے سے پہلے کی سنتیں
سونے سے پہلے درج ذیل دعاؤں کا پڑھنا مسنون ہے
٭۔’’ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ أَمُوْتُ وَأَحْیَا‘‘ ( بخاری )
’’ اے اللہ ! میں تیرے نام کے ساتھ مرتا اور زندہ ہوتا ہوں ۔‘‘
٭۔دونوں ہتھیلیوں کو اکٹھا کر کے ان میں پھونک ماریں اور پھر آخری تین سورتیں پڑھیں ، اس کے بعد جہاں تک ہو سکے اپنی ہتھیلیوں کو اپنے جسم پر پھیریں ۔ اپنے سر اور چہرے سے شروع کریں اور جسم کے سامنے والے حصے پر ہتھیلیوں کو پھیریں ۔اور ایسا تین بار کریں ۔ (بخاری )
٭۔ آیۃ الکرسی پڑھیں
جس کی فضیلت حدیث میں یوں ہے :
’’جو آدمی اسے پڑھ لے ساری رات اللہ کی طرف سے ایک محافظ اس کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور شیطان اس کے قریب نہیں آتا۔‘‘( بخاری )
٭۔’’ بِاسْمِکَ رَبِّ وَضَعْتُ جَنْبِیْ وَبِکَ أَرْفَعُہُ إِنْ أَمْسَکْتَ نَفْسِیْ فَارْحَمْہَا وَإِنْ أَرْسَلْتَہَا فَاحْفَظْہَا بِمَا تَحْفَظُ بِہٖ عِبَادَکَ الصَّالِحِیْنَ‘‘ ( بخاری،مسلم )
’’ اے میرے رب ! تیرے نام کے ساتھ میں نے اپنا پہلو ( بستر پر ) رکھا ہے اور تیرے (فضل کے ساتھ ہی) اسے اٹھاؤں گا۔ اگر تو نے میری روح کو قبض کر لیا تو اس پر رحم کرنا اور اگر تو نے اسے واپس لوٹا دیا تو اس کی اسی چیز کے ساتھ حفاظت کرنا جس کے ساتھ تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘
٭۔’’ اَللّٰہُمَّ إِنَّکَ خَلَقْتَ نَفْسِیْ وَأَنْتَ تَوَفَّاہَا لَکَ مَمَاتُہَا وَمَحْیَاہَا إِنْ أَحْیَیْتَہَا فَاحْفَظْہَا وَإِنْ أَمَتَّہَا فَاغْفِرْ لَہَا اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ ‘‘ ( مسلم )
’’ اے اللہ ! بے شک تو نے میری جان کو پیدا کیا اور تو ہی اسے فوت کرے گا ، تیرے لئے ہے اس کی موت اور اس کی زندگی۔ اگر تو نے اسے زندہ رکھا تو اس کی حفاظت کرنا اور اگر تو نے اسے مار دیا تو اس کی مغفرت کرنا۔اے اللہ ! میں تجھ سے عافیت کا سوال کرتا ہوں ۔‘‘
٭۔ اپنا دایاں ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھ کر تین مرتبہ یہ دعا پڑھیں
’’ اَللّٰہُمَّ قِنِیْ عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَک ‘‘
’’ اے اللہ ! مجھے اس دن اپنے عذاب سے بچانا جب تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا۔‘‘ (ابو داؤد ، ترمذی )
٭۔۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ، ۳۳ مرتبہ الحمد للہ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر پڑھنا۔ ( بخاری ،مسلم )
نوٹ :
ان تسبیحات کے فوائد نماز کے بعد کی سنتوں میں درج کئے جا چکے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ان تسبیحات کا سو مرتبہ پڑھنا (۱۰۰) صدقوں کے برابر ہے۔ ( مسلم ) اور دوسری یہ ہے کہ ان تسبیحات کا سو مرتبہ پڑھنا جنت میں (۱۰۰) درخت لگانے کے برابر ہے۔ (ابن ماجہ )
٭۔’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَکَفَانَا وَآوَانَا فَکَمْ مِمَّنْ لَا کَافِیَ لَہُ وَلاَ مُؤْوِی ‘‘ (مسلم)
’’ تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور ہمیں پلایا اور ہمیں کافی ہو گیا اور ہمیں جگہ دی۔پس کتنے لوگ ہیں جنھیں کوئی کفایت کرنے والا ہے اور نہ کوئی جگہ دینے والا۔‘‘
٭۔’’ اَللّٰہُمَّ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ رَبَّ کُلِّ شَیْئٍ وَمَلِیْکَہُ أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ الشَّیْطَانِ وَشِرْکِہِ وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلٰی نَفْسِیْ سُوْئً ا أَوْ أَجُرَّہُ إِلٰی مُسْلِم ‘‘ ( ابو داؤد ، ترمذی )
نوٹ :
یہ دعا اور اس کا ترجمہ صبح و شام کے اذکار میں گذر چکا ہے۔
٭۔’’ اَللّٰہُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِیْ إِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِیْ إِلَیْکَ وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِیْ إِلَیْکَ رَغْبَۃً وَّرَہْبَۃً إِلَیْکَ لَا مَلْجَا وَلَا مَنْجَا مِنْکَ إِلَّا إِلَیْکَ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ أَنْزَلْتَ وَبِنَبِیِّکَ الَّذِیْ أَرْسَلْتَ ‘‘(بخاری ،مسلم)
’’ اے اللہ ! میں نے اپنے نفس کو تیرے حوالے کر دیا اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا اور اپنی پشت کو تیری پناہ میں دے دیا۔ تیری طرف رغبت کرتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے اور تیری ہی طرف پناہ پانے اور نجات حاصل کرنے کی جگہ ہے۔میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا ہوں جو تو نے اتاری اور تیرے نبی پر بھی جسے تو نے بھیجا۔‘‘
٭۔’’ اَللّٰہُمَّ رَبَّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْئٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ اَللّٰہُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْئٌ اِقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ ‘‘ ( مسلم )
’’ اے اللہ ! اے سات آسمانوں کے رب ! اے عرشِ عظیم کے رب ! اے ہمارے اور ہر چیز کے رب ! اے دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والے ! اے تورات ، انجیل اور قرآن کو اتارنے والے ! میں ہر اس چیز کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں جس کی پیشانی کو تو نے پکڑ رکھا ہے۔ اے اللہ ! تو ہی اول ہے ، پس تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں ۔ اور تو ہی آخر ہے،پس تیرے بعد کوئی چیز نہیں ۔اور تو ہی ظاہر ہے، تجھ سے اوپر کوئی چیز نہیں ۔ اور تو ہی باطن ہے تیرے ورے کوئی چیز نہیں ۔ ہماری طرف سے قرضہ ادا کر دے اور ہمیں فقیری سے نکال کر غنی کر دے۔‘‘
٭۔سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات کا پڑھنا۔ جن کی فضیلت کے بارے میں رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے : ’’ جو شخص انھیں رات میں پڑھ لے اسے یہ کافی ہو جاتی ہیں ۔‘‘ ( بخاری ،مسلم )
’ کافی ہو جانے سے ‘مراد کیا ہے ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ قیام اللیل سے کافی ہو جاتی ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ ہر برائی اور شر سے کافی ہو جاتی ہیں اور بعض نے مذکورہ دونوں معانی مراد لئے ہیں ۔ ( الاذکار۔ النووی ؒ)
٭۔سورۃ الکافرون کا پڑھنا جس کی فضیلت حدیث میں یوں ہے : ’’ یہ سورت شرک سے برأت ہے۔‘‘ ( ابو داؤد ، ترمذی ، احمد ، ابن حبان ، حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور الذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ اور ابن حجر اور البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے )
٭۔سونے کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ بھی ہے کہ با وضو سوئے۔
ایک حدیث میں ہے کہ
’’ جب تم بستر پر آنے کا ارادہ کرو تو وضو کر لیا کرو۔‘‘ (بخاری ،مسلم )
٭۔اسی طرح ایک سنت یہ بھی ہے کہ دائیں پہلو پر سوئے۔
ارشاد نبویﷺ ہے : ’’ …پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جانا۔‘‘ ( بخاری ومسلم )
٭۔ایک سنت یہ ہے کہ اپنا دایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھے۔
رسول اللہﷺ جب سوتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھ لیتے۔ ( ابو داؤد )
٭۔اور سونے سے پہلے اپنا بستر جھاڑ لے:
ارشاد نبویؐ ہے :
’’ تم میں سے کوئی شخص جب اپنے بستر پر سونا چاہے تو اسے جھاڑ لے کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ اس کے جانے کے بعد اس پر کیا آیا ! ‘‘ ( بخاری،مسلم )
مذکورہ بالا دعاؤں کے متعلق امام نوویؒ کا کہنا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ انسان ان تمام دعاؤں کو پڑھے ، اگر ایسا نہ ہو سکے تو اپنی طاقت کے مطابق ان میں سے جو اہم دعائیں پڑھ سکتا ہے پڑھ لے۔
یاد رہے کہ یہ دعائیں صرف رات کی نیند کی ہی نہیں بلکہ دن کی نیند کی بھی ہیں ، کیونکہ ان کے متعلق جو احادیث ذکر کی گئی ہیں وہ ہر نیند کے بارے میں ہیں چاہے دن کو ہو یا رات کو۔ اور اگر انسان دن اور رات میں دو مرتبہ سوتا ہو جیسا کہ اکثر لوگوں کا معمول ہے تو مذکورہ سنتوں پر دو مرتبہ عمل ہو سکتا ہے۔
ان دعاؤں کے پڑھنے سے مزید دو فوائد حاصل ہوتے ہیں :
1۔انسان اللہ کی حفاظت میں آ جاتا ہے اور اسی بناء پر وہ رات کی تمام آفتوں اور شیطان کے شر سے بچ جاتا ہے۔
2۔انسان کے دن کا اختتام اللہ کے ذکر،اس کی اطاعت، اس پر توکل اور اس کی توحید پر ہوتا ہے۔
٭٭٭
پیشکش: کلیم حیدر
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید