غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
ذوالحجہ کے ذی شان ایام :
ذوالحجہ کے پہلے دس دن انتہائی بابرکت اورحرمت والے ہیں ، ان ایا م کے نیک اعمال دوسرے دنو ں کے اعمالِ صالحہ پرایک گوناں فضیلت رکھتے ہیں۔
1سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ـ :
”ان ایام کے اعمال صالحہ دوسرے دنو ں کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہیں، عرض کیا ، دوسرے دنوں میں کیا جانے والاجہاد بھی ان سے افضل نہیں؟ فرمایا، نہیں ، ہاں ! اگر کوئی آدمی اپنے جان و مال کے ساتھ اللہ کے راستے میں نکلے اور کچھ واپس نہ آئے ۔”
(صحیح البخاري : ٩٦٩، سنن أبي داؤد : ٢٤٣٨، سنن الترمذي : ٧٥٧، سنن ابن ماجہ : ١٧٢٧)
2سیدناابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”یوم عرفہ (٩ذو الحجہ کا)روزہ گزشتہ اور آئندہ دونوں سالوں کے گناہوں کا کفارہ ہے۔”
(صحیح مسلم : ١١٦٢)
تنبیہ:
یہ روزہ نو ذو الحجہ کا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ نو ذوالحجہ کو عرفات میں تھے ،اس مناسبت سے اسے یوم عرفہ کا روزہ کہہ دیا گیا ۔واللہ اعلم
ان مبارک دنوں میں نفلی نماز ، نفلی روزوں ، صدقہ و خیرات ، ذکر و اذکار ، تکبیر و تہلیل اور دیگر نیک اعمال کا اہتمام مولائے رحمن و رحیم کی بے پایاں رحمت اور لا متناہی مغفرت کا باعث ہے ۔
ان دنوں میں کیے جانے والے مبارک اعمال میں سے ایک عالی مرتبت و ذی شان عمل ”قربانی” بھی ہے، جو اسلام کا باکمال اور ممتاز شعار ہے۔
دس ذو الحجہ کا سورج پیغامِ مسرت لے کر مسکراہٹوں کی کرنیں بکھیرتا ہو ا طلوع ہوا ، دو رکعت نمازکی ادائیگی اور خطبہ عید سننے کے بعد فرزندانِ توحید گھروں کوپہنچے ،جانور کی لگام تھامی ، عاجزی و فروتنی اور اطاعت و فرمانبرداری کے جذبات سے سرشار ہو کر”بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ” کا نعرہ لگا یا اور گردن پر چھری چلا کے سنت کو دوام بخشا ، اس عمل کی بنیاد خوردونوش اور ریا کاری نہیں ، بلکہ شعارِ اسلام کے ساتھ لگاؤ اور گہری محبت کانتیجہ ہے ۔
قربانی کا حکم :
ایامِ قربانی میں رضائے الہی کے لیے مخصوص شرائط کے حامل جانوروں کا خون بہانااسلامی شعارِ اور عظیم عبادت ہے ، جسے قربانی کہا جاتا ہے ، یہ سنت ہے ۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ کَانَ لَہ، سَعَۃٌ فَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا.
” استطاعت و قدرت کے باوجود قربانی نہ کرنے والاہماری عید گاہو ں کے قریب نہ پھٹکے۔”
(مسند أحمد : ٢ /٣٢١، سنن ابن ماجہ : ٣١٢٣، واللّفظ لہ، المستدرک للحاکم : ٢/٣٩٠، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کی سند کو امامِ حاکم رحمہ اللہ نے ”صحیح ” کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
اس کا راوی عبداللہ بن عیاش قتبانی جمہورائمہ کے نزدیک ” موثق ، حسن الحدیث ” ہے ، حافظ ذہبی لکھتے ہیں : حدیثہ فی عداد الحسن۔(سیر أعلام النّبلاء : ٧/٣٣٤)
واضح رہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر بن خطاب سے اس خدشہ کے پیشِ نظر قربانی ترک کرنا ثابت ہے کہ کہیں لوگ اس کو واجب نہ سمجھ لیں ۔
(السّنن الکبریٰ للبیہقي : ٩/٢٦٥، وسندہ، صحیحٌ)
سیدنا ابو مسعود بدری انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
لقد ہممت أن أدع الأضحیۃ وأنی لمن ایسرکم بہا ، مخافۃ أن یحسب أنہا حتمٌ واجبٌ۔
”میں اس ڈر سے قربانی ترک کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ،کہ اسے واجب نہ سمجھ لیا جائے ، حالانکہ میں آپ سے زیادہ آسانی کے ساتھ قربانی کر سکتا ہوں ۔”
(السّنن الکبریٰ للبیہقي : ٩/٢٦٥، وسندہ ،صحیحٌ)
حافظ ابنِ حجر نے اس کی سند کو ”صحیح ”کہا ہے ۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ(السّنن الکبریٰ للبیہقي : ٩/٢٦٥، وسندہ ،صحیحٌ) اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ (المحلّٰی لابن حزم : ٧/٣٥٨، وسندہ، صحیحٌ )قربانی کے وجوب کے قائل نہیں تھے ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ”یہ سنت اور کارِ خیر ہے ۔”
(صحیح البخاري : ٢/٨٣٢تعلیقا، تغلیق التعلیق لابن حجر؛ ٥/٣، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ابنِ حجر نے اس کی سند کو ”جید” قرار دیا ہے ۔
سید الفقہاء امامِ بخاری اور دیگر محدثین عظام کے نزدیک بھی قربانی سنت ہے۔
جانور کی عمر :
قربانی کے جانور کادوندا ہونا شرط ہے ، جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تذبحوا الا مسنّۃ الا أن یّعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضّان۔
” دوندا جانور ہی ذبح کریں، تنگی کی صورت میں بھیڑ کی نسل سے جذعہ ذبح کر لیں۔”
(صحیح مسلم : ٢/١٥٥، ح : ١٩٦٣)
حافظ نووی کہتے ہیں؛
” ارباب علم ”مُسِنَّۃٌ ” دوندے اونٹ ،گائے اور بکری وغیرہ کو کہتے ہیں ، نیز اس حدیث میں وضاحت ہے کہ بھیڑ کے علاوہ جنس کا ”جَذَعَۃٌ” بطورقربانی جائز نہیں ، بقول قاضی عیاض اس پر اجماع ہے ۔”
(شرح صحیح مسلم : ٢/١٥٥)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ؛
ثَنِیًّا فَصَاعِدًا وَاسْتَسْمِنْ فَإِنْ أَکَلْتَ أَکَلْتَ طَیِّبًا وَإِنْ أَطْعَمْتَ أَطْعَمْتَ طَیِّبًا .
”قربانی کا جانور دوندا یا اس سے بڑا ہو ،اسے خوب فربہ کیجئے! اچھا کھائیں ،اچھا کھلائیں۔”
(السّنن الکبریٰ للبیہقي : ٩/٢٧٣، وسندہ، صحیحٌ)
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ؛
وقد أجمع أہل العلم أن لا یجزیئ الجذع من المعز ، وقالوا : انّما یجزیئ الجذع من الضّأن۔
”اہلِ علم کا ”اجماع ”ہے کہ بکری کی جنس کا ”جذعہ” قربانی میں کفایت نہیں کرتا، جبکہ بھیڑ کی جنس کا ”جَذَعَۃٌ” کفایت کر تا ہے۔” (سنن الترمذي، تحت حدیث : ١٥٠٨)
یاد رہے کہ ”جَذَعَۃٌ” کی عمر میں اختلاف ہے ، جمہور ایک سال کے قائل ہیں اور احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے، حافظ نووی لکھتے ہیں :
والجذع من الضّأن ما لہ، سنۃٌ تامّۃ ، ہذا ہو الأصحّ عند أصحابنا ، وہو الأشہر عند أہل اللّغۃ وغیرہم ۔
”بھیڑ کی جنس کا ‘جَذَعَۃٌ’ مکمل ایک سال کا ہوتا ہے ، یہی ہمارے اصحاب کے نزدیک صحیح
تر ین ہے اور اہلِ لغت کے ہا ں مشہور ہے ۔”(شرح صحیح مسلم : ٢/١٥٥)
اس حدیث میں مذکورہ حکم عام ہے اورہر جانور کو شامل ہے ، وہ بکری کی جنس ہو یا بھیڑ کی ، گائے کی جنس ہو یا اونٹ کی ، سب کا دوندا ہونا ضروری ہے ، وہ صحیح احادیث جن میں بھیڑ کے ”جَذَعَۃٌ” کی قربانی کا جوازہے ، وہ تنگی پر محمول ہیں ، یعنی دوندا جانور نہ ملے تو ایک سال کا دنبہ یا بھیڑ ذبح کی جا سکتی ہے ، اس طرح تمام احادیث پر عمل ہو جا ئے گا۔
تنگی کی دو صورتیں ممکن ہیں ؛
1۔ دونداجانور دستیاب نہ ہونا ۔
2۔ قوت خرید سے باہر ہونا۔
تنبیہ :
بعض ناعاقبت اندیش جانور دوندا باورکروانے کے لئے سامنے والے دانت توڑ دیتے ہیں ، یہ محض دھوکا اور فریب ہے ، ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ۔
قربانی میں شراکت:
بکرا ، بکری ، دنبہ اور بھیڑ صرف ایک آدمی کو کفایت کرتے ہیں ،البتہ ایک بکرا یا دنبہ تمام اہلِ خانہ کے لیے کافی ہے، دلائل ملاحظہ ہوں :
1۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنبے کی قربانی کی اور فرمایا:
بِسْمِ اللّٰہِ ، اللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُّحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّۃٍ مُحَمَّدٍ .
”اللہ کے نام کے ساتھ (ذبح کرتا ہوں )، اے اللہ ! (یہ قربانی )محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)آل محمد اور امت ِ محمد کی طرف سے قبول فرما۔” (صحیح مسلم : ٢/١٥٦، ح: ١٩٦٧)
حدیث ِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ایک دنبہ تمام اہلِ خانہ کی طرف سے ذبح کیا جا سکتا ہے ، سب کی طرف سے قربانی ادا ہو جائے گی ۔
منیٰ میں قربانی کرنے والوں کے اہل خانہ اس میں شریک نہیں ہو سکتے ۔
فائدہ:
امت کی طرف سے قربانی کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے ۔
2۔سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا:
کیف کانت الضّحایا فیکم علٰی عہد رسول اللّٰہ صلّٰی اللّٰہ علیہ وسلّم؟
”رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے زمانہ اقدس میں قربانی کیسی تھی ؟ ”فرمایا:
کان الرّجل فی عہد النّبيّ صلّٰی اللّٰہ علیہ وسلّم یضحّي بالشّاۃ عنہ وعن أہل بیتہ فیأکلون و یطعمون ، ثمّ تباہی النّاس فصار کما ترٰی.
” عہد ِنبوی میں ایک بکری کی قربانی تمام اہلِ خانہ کی طرف سے کی جاتی تھی، وہ خود بھی گوشت کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے ، بعد ازاں لوگ (قربانی کرنے میں )باہم فخرو مباہات کرنے لگے ، حالت آپ کے سامنے ہے۔”
(مؤطّا بروایۃ یحیيٰ : ٢/٤٨٦، سنن الترمذي : ١٥٠٥، سنن ابن ماجہ : ٣١٤٧ واللّفظ لہ، ، السّنن الکبریٰ للبیہقي : ٩/٢٦٨، وسندہ، صحیحٌ)
امامِ ترمذی رحمہ اللہ نے اسے ”حسن صحیح” کہاہے ۔
3 عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یضحّی بالشّاۃ الواحدۃ عن جمیع أہلہ ۔
”رسو ل اللہ صلی اللہ وسلم اپنے تمام اہلِ خانہ کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتے تھے۔”
(الآحاد والمثاني لابن ابي عاصم : ٦٧٩،المستدرک للحاکم : ٣/٤٥٦، ٤/٢٢٩ واللّفظ لہ ، السّنن الکبریٰ للبیہقي : ٩/٢٦٨، وسندہ، صحیحٌ)
امامِ حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ” صحیح ” کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ا ن کی موافقت کی ہے
یہ روایت صحیح بخاری (7210)میں موقوفا بھی مروی ہے
4 سیدناابو سریحہ غفاری حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ؛
” میرے گھر والوں نے مجھے زیادتی پر اکسایا ، حالاں کہ مجھے سنت کا علم تھا کہ تمام اہلِ خانہ قربانی کے لیے ایک یا دو بکریوں پر اکتفا کر سکتے ہیں، (اب ایسا کریں )تو پڑ وسی کنجوس کہتے ہیں ۔”
(سنن ابن ماجہ : ٣١٤٨ واللّفظ لہ، ، المستدرک للحاکم : ٤/٢٢٨، السّنن الکبریٰ للبیہقي : ٩/٢٦٩،المعجم الکبیر للطّبراني : ٣٠٥٦، ٣٠٥٧ ، ٣٠٥٨ ، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کی سند کو امامِ حاکم نے ”صحیح ” کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
اونٹ میں شراکت:
اونٹ میں دس حصہ دار شریک ہو سکتے ہیں ، جیسا کہ سیدنا ابن عباس سے رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ وسلم کے ساتھ سفر میں عید الاضحی کے موقع پر اونٹ میں دس اور گائے میں سات آدمی شریک ہوئے۔
(مسند أحمد : ٢٤٨٨، السنن الکبریٰ للنسائي : ٤١٢٣، ٤٣٩٢، ٤٤٨٢، سنن الترمذي: ٩٠٥، سنن ابن ماجہ : ٣١٣١، المستدرک للحاکم :٤/٢٣٠،وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امامِ ترمذی نے ”حسن غریب” امام ابنِ حبان (٤٠٠٧)نے ”صحیح” اور امامِ حاکم نے ”امام بخاری کی شرط پر صحیح ”کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ اونٹ میں دس افراد شریک ہو سکتے ہیں ۔
ایک روایت میں ہے ؛
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ والے سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کی، اونٹ اورگائے سات سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کئے گئے ۔(صحیح مسلم : ١/٤٢٤، ح : ١٣١٨)
اس حدیث کو ”ہدی” (منیٰ میں قربانی )پر محمول کریں تو تعارض ختم ہو جاتا ہے ، منیٰ کے علاوہ ایک اونٹ کی دس قربانیاں ہو سکتی ہیں ۔
بھینس کی قربانی :
تمام اہل لغت کے نزدیک بھینس گائے کی جنس ہے،بھینس کی قربانی پر اجماع ہے،جیسا کہ امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ کیا بھینس کی سات قربانیاں ہو سکتی ہیں؟فرمایا:
لا أعرف خِلاف ہذا ”مجھے اس مسئلہ میں اختلاف معلوم نہیں۔”
(مسائل الامام أحمد واسحاق بن راہویہ روایۃاسحاق بن منصور الکوسج : 369/2)
جانور کے عیوب:
جانورمیں درج ذیل عیوب و نقائص نہ ہوں:
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا :
أربع لا تجوز فی الأضاحي : العوراء بیّن عورہا ، والمریضۃ بیّن مرضہا ، والعرجاء بیّن ظلعہا ، والکبیر الّتي لا تُنْقی ۔
”چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں : (١)کانا (٢)واضح بیمار (٣)، لنگڑا اور(٤) شکستہ و لاغر ۔”
(مسند أحمد ٤ /٨٤ ، سنن ابي داؤد : ٢٨٠٢ ، سنن النسائي : ٤٣٧٤ ، الترمذي: ١٤٩٧ ، سنن ابن ماجہ : ٣١٤٤ ، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امامِ ترمذی ، امام ابنِ خزیمہ (٢٩١٢)،امام ابنِ حبان (٥٩١٩،٥٩٢٢)، امام ابن الجارود(٤٨١)اور امامِ حاکم(١/٤٦٧۔٤٦٨) Sنے ”صحیح” کہا ہے ، حافظ ذہبیa نے ان کی موافقت کی ہے۔
خریداری کے بعدکوئی عیب پیدا ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ۔
سیدنا عبدا للہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ان کان أصابہا بعد ما اشتریتموہا فامضوہا وان کان أصابہا قبل أن تشتروہا فأبدلوہا.
”خریداری کے بعد عیب پیدا ہو تو قربانی کر لیں ، عیب پہلے سے موجود ہو تو جانور کوبدل لیں۔”
(السّنن الکبریٰ للبیہقي : ٩/٢٨٩ ، وسندہ، صحیحٌ)
امامِ زہری فرماتے ہیں :
اذا اشتری رجل أضحیۃ فمرضت عندہ أو عرض لہا مرض فہی جائزۃ ۔
جانور خریدنے کے بعد بیمار ہو جا ئے تو قربانی جائز ہے۔”
(مصنّف عبدالرّزاق : ٤/٣٨٦ ، ح: ٨١٦١ ، وسندہ، صحیحٌ)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (قربانی کے )جانور کی آنکھیں او ر کان بغور دیکھنے کا حکم فرمایا۔
( سنن النّسائي : ٧/٢١٣، ح : ٤٣٨١، سنن التّرمذي : ١٥٠٣، سنن ابن ماجہ :٣١٤٣، وسندہ، حسنٌ )
اسے امام ترمذی نے ”حسن صحیح” امام ابنِ خزیمہ (٢٩١٤) اورامام حاکم نے ”صحیح” کہاہے۔
یہ حکم وجوبی نہیں ، بلکہ ندب و ارشاد پر محمول ہے ۔
نیز سیدناعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ؛
نبی اکرم صلی اللہ عنہ نے کان کٹے اور ٹوٹے سینگ والے جانور کی قربانی سے منع فرمایا۔
(سنن ابي داؤد : ٢٨٠٥، سنن النّسائي : ٤٣٨٢، سنن التّرمذي : ١٥٠٣، سنن ابن ماجہ : ٣١٤٥، وسندہ، حسنٌ)
امامِ ترمذی نے اس کو ” حسن صحیح ” کہا ہے ، نسائی وغیرہ میں شعبہ نے قتادہ سے بیان کیاہے۔
یاد رہے کہ نہی تنزیہی ہے ، کا ن اور سینگ میں تھوڑابہت نقص مضر نہیں ۔
تنبیہ:
1۔خصی جانور کی قربانی بالاجماع جائز ہے ،خصی ہونا قربانی کے لےے مانع نہیں ، امام احمد بن حنبل خصی جانور کی قربانی کے بارے میں فرماتے ہیں ؛
أرجو أن لا یکون بہ باسٌ .
”اس میں کوئی حرج نہیں۔”
(مسائل الامام احمد و اسحاق بن راہویہ روایۃ اسحاق بن منصور الکوسج : 368/2)
علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ(٥٤١۔٦٢٠ ھ)بیان کرتے ہیں ؛
ولا نعلم فی ہذا خلافا .
”اس میں اختلاف معلوم نہیں ۔” (المغنی ٣/٤٧٦، ٩/٤٤٢)
خصی جانورموٹا تازہ ہوتا ہے ،اس کا گوشت انتہائی عمدہ اور نفیس ہوتا ہے ۔
2۔پیدائشی طور پرسینگوں کا نہ ہونا قربانی سے مانع نہیں۔
متفرق احکام:
1۔قربانی کا ارادہ رکھنے والے کو نبی اکرم صلی اللہ وسلم نے حکم دیا کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کرنے تک اپنے بال کاٹے نہ ناخن تراشے۔ (صحیح مسلم : ٢/١٦٠، ح : ١٩٧٧)
2۔سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے (مدینہ میں ) قربانی کرنے کے بعد سر کے بال منڈوائے ،فرمایا؛ یہ واجب نہیں۔ (موطّأ امام مالک : ٢ /٤٨٣ ، وسندہ، صحیحٌ)
3۔سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے ایام ذی الحجہ میں ایک عورت کواپنے بچے کے بال کاٹتے دیکھ کر فرمایا؛
”اگر قربانی والے دن تک موخر کر دیتی تو بہتر تھا۔”
(المستدرک علی الصّحیحین للحاکم : ٤/٢٤٦ ،ح : ٧٥٢٠, وسندہ، حسنٌ)
4۔قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والا ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے پہلے جسم کے فاضل بال(زیر ناف ) ،سر کے بال اور مونچھیں کا ٹ لے، ناخن تراشے ،پھر قربانی تک اس سے پرہیز کرے ، تو اسے قربانی کا پورا اجروثواب ملے گا۔
(مسند أحمد : ٢/١٦٩، سنن أبي داؤد : ٢٧٨٩، سنن النّسائي : ٤٣٦٥، وسندہ، حسنٌ)
اسے امام ابنِ حبان (٥٩١٤)، امام حاکم (٤/٢٢٣)، اور حافظ ذہبی نے ”صحیح ” کہا ہے ۔5قربانی کے لیے نصاب زکوٰ ۃکی شرط بے بنیاد ہے ، ہر مسلمان اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اپنی صورت ِ حال کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کر سکتاہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری زندگی نصاب زکوۃ کو نہیں پہنچے اس کے باوجود قربانی کرتے ۔ادھار لے کر قربانی کرنے والا اجرکثیر کا مستحق ہو گا ۔
6۔بیک وقت ایک سے زائد قربانیاں کی جا سکتی ہیں ۔
7۔ پہلے دن قربانی افضل ہے۔
8۔بوقت ذبح یہ دعا پڑھنی چاہیے :
بِسْمِ اللّٰہِ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ (صحیح مسلم : ١٩٦٦)
اَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ وَمِنْ أَہْلِیْ۔
”اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ (ذبح کرتا ہو ں ) اللہ سب سے بڑا ہے ، اے اللہ ! (یہ قربانی ) میری طرف سے اور میرے اہل کی طرف سے قبول فرما۔”
(صحیح مسلم : ١٩٦٧، استدلالاً)
9۔قربانی کے جانور کا گوشت ، سری پائے اور کھال یا چمڑا وغیرہ قصاب کو بطورِ اجر ت دینا ممنوع ہے ، اجرت اپنی جیب سے دی جائے ۔
10۔قربانی کے گوشت میں مساکین وفقراء کا حق ہے ، جو انہیں ملنا چاہیے ، مقدارمقرر نہیں ، بقیہ گوشت ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔(صحیح البخاري : ٥٥٦٩)
!چرمہائے قربانی اور کھالیں کسی حق دار(مسکین و محتاج)کو دی جائیں۔
(صحیح البخاري : ١٧١٧، صحیح مسلم : ١٣١٧)
نیز اپنے ذاتی استعمال میں بھی لائی جا سکتی ہیں ۔ (صحیح مسلم : ١٩٧١)
یاد رہے کہ قربانی کے جانور کا کوئی حصہ فروخت کیا جا سکتا ہے نہ اپنی ذاتی خدمت کے عو ض کسی کو دیا جا سکتا ہے ،کھال فروخت کرنا پڑے تو اس کی قیمت مساکین و فقراء کو دے دی جائے ۔
قربانی کی نیت سے جانور پالا، دوندا نہیں ہوا، وقت سے پہلے مر گیا یاگم ہو گیا تو اس صورت میں اگر اس کی بجائے دوسر اجانور قربان کرنے کی استطاعت ہے تو درست، ورنہ قربانی نہ کرنے کی وجہ سے گناہ گار رنہیں۔
بوقت ذبح بہنے والا خون حرا م ہے ، حلال جانور کے باقی تما م اعضاء حلال ہیں ۔
میت کی طرف سے قربانی کرنا ثابت نہیں ۔
اونٹ کا گو شت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ (صحیح مسلم : ٣٦٠ )