نظرکی بے احتیاطی کا عصمتوں کی پامالی سے چولی دامن کا رشتہ ہے، اللہ تعالیٰ نے غضِ بصر کے ساتھ اس کا فائدہ بھی ذکر کر دیا
* * **محمد منیر قمر۔ الخبر* * * *
والدین کیلئے ضروری ہے کہ اپنے لڑکوں کو غیر محرم عورتوں پر نظر ڈالنے سے روکیں اور لڑکیوں کو نامحرم مردوں سے پردہ کرنے کا حکم دیں کیونکہ فطری طور پر عورتوں میں مردوں کیلئے اور مردوں میں عورتوں کیلئے رغبت رکھی گئی ہے۔ جب وہ بے پردہ عورت کودیکھتا ہے تو رغبت کو پورا کرنے کیلئے اس کی طرف لپکتا ہے۔ آج کل کے اخبارات اس بات پر گواہ ہیں کہ بے پردگی کی وجہ سے کس طرح لوگ بے راہ روی کا شکار ہیں ۔اسلام نے اس برائی کے سدباب کیلئے 3 تدابیر اختیار کی ہیں:
hکتاب اﷲ کی آیات اور سنتِ رسول اﷲﷺ کے مختلف ابواب میں ترغیبِ عفت اور تربیتِ نظر نہایت موثر اور بلیغ انداز میں موجود ہے۔ کہیں عفت و عصمت پر بہترین اجر و انعام کا ذکر ہے تو کہیں فحش کاری پر وعیدِ شدید۔
hغیر شادی شدہ زانی کو100 کوڑے مارنے اور شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنے کا انتہائی شدید ترین حکم (حدِ شرعی) ہے۔
hغیر محرم مرد و عورت کی ایک دوسرے سے مکمل علیحدگی اور ان کے باہمی اختلاط پر دو ٹوک پابندی لگائی گئی ہے۔ اگر عورت کو گھر سے بہ وقتِ ضرورت باہر نکلنا اور اجنبی مردوں کے سامنے سے گزرنا پڑے تو وہ پردہ کرلے۔
پردہ کرنے کا حکم5ھ میں نازل ہوا جبکہ رسول اللہﷺ نے حضرت زینب بنت جحشؓ سے نکاح کیا تھا۔ نبی اکرمﷺ نے اس وقت گھر کے دروازے پر پردہ لٹکا دیا اور حضرت انس بن مالکؓ کو جو اس سے پہلے بے دھڑک آپﷺکے گھر میں آتے جاتے تھے، آپﷺنے انھیں بلا اجازت داخل ہونے سے منع کر دیا۔ اس موقع پر نازل ہونے والی آیت یہ تھی:
’’جب ان (اُمہات المومنین) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو۔‘‘(الاحزاب53)۔
نظر بازی، زنا کاری کا پیش خیمہ ہے، اس لئے اسلام نے سب سے پہلے اس پر پابندی لگائی اور مرد و عورت دونوں کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی نظریں پست رکھیں اور اپنی عزت کی حفاظت کریں:
’’آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کیلئے زیادہ پاکیزگی ہے۔‘‘(النور30)۔
اور بالکل یہی حکم عورتوں کو بھی دیا گیا ہے:
’’آپ مسلمان عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمتوں کی حفاظت کریں۔‘‘(النور31)۔
یہ حکم اس بات کا غماز ہے کہ نظرکی بے احتیاطی کا عصمتوں کی پامالی سے چولی دامن کا رشتہ ہے، اسی لئے حکیم و خبیر اللہ تعالیٰ نے غضِ بصر کے ساتھ اس کا فائدہ بھی ذکر کر دیا کہ اس سے عصمتوں کی حفاظت ہوتی ہے۔ مرد کی نگاہ ہوس ناک ہوتی ہے، اسی لئے اسے منع کیا گیا کہ وہ عورتوں کی طرف گھور گھور کر دیکھے۔ اچانک پڑنے والی نگاہ سے متعلق حضرت علیؓ سے مخاطب ہوکر نبی اکرمﷺنے فرمایا:
’’اے علی! نظر پر نظر نہ ڈالو کیونکہ پہلی نظر تو تمہارے لئے (معاف) ہے اور دوسری تم پر (گناہ) ہے۔‘‘
عورت کی نگاہ کے متعلق رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا دیکھنا ہے، دل خواہش اور تمنا کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔‘‘
مطلب یہ کہ آنکھوں کے راستے سے جو خوب صورت تصویر مرد کے دل میں اترتی ہے، دل اس کیلئے مچلنے لگتا ہے، دماغ اس کیلئے سازشیں کرتا ہے، آخر میں شرم گاہ کی باری آتی ہے۔ اگر وہ اس میں کامیابی پالے تو جو زنا اب تک مجازی تھا، وہ حقیقی روپ دھار لیتا ہے۔
عورتوں کیلئے حکم دیا گیا:
’’آپ مسلمان عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمتوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں مگر وہ جو خود بہ خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں اور اپنا بناؤ سنگار ان لوگوں کے سوا کسی پر ظاہرنہ کریں، شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، اپنے لونڈی غلام، وہ ماتحت مرد جو شہوت نہیں رکھتے اور وہ بچے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف نہیں ، وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں تاکہ اس زینت کا لوگوں کو پتا چلے جو وہ چھپا رکھی ہیں، اے مومنو! تم سب مل کر اﷲ تعالیٰ کی جناب میں توبہ کرو، توقع ہے کہ تم فلاح پاؤگے۔‘‘(النور31)۔
یہاں محرم سے پردے کی رخصت دی گئی ہے۔ محرم میں ایسے تمام رشتے دار شامل ہیں، جن سے عورت کا نکاح دائمی یا عارضی طور پر حرام ہے، اور وہ یہ ہیں:
باپ: اس میں دادا، نانا، پڑدادا، پڑنانا اور سسر شامل ہیں۔
حقیقی بیٹے: اس میں پوتے، پڑپوتے، نواسے پڑنواسے، داماد اور اسی طرح سوتیلے بیٹے اور ان کے اولاد و احفاد شامل ہیں۔
بھائی: چاہے وہ حقیقی ہوں یا سوتیلے، علاتی ہوں یا اخیافی، اسی میں بھتیجے اور بھانجے اور ان کی اولاد تمام شامل ہیں۔
حقیقی چچا اور حقیقی ماموں۔
رضاعی باپ اور رضاعی بھائی، کیونکہ ارشادِ نبویﷺ ہے:
’’نسب سے جو رشتے حرام ہیں، دودھ پلانے سے بھی وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں۔‘‘
عام بچوں سے جب تک ان میں شہوانی جذبات بیدار نہ ہوئے ہوں۔
ایسے نوکر چاکروں سے جن میں ہم بستری کی رغبت نہیں، جیسے بچے اور بوڑھے۔
ایسی بوڑھی عورتیں جو سنِ ایاس کو پہنچ چکی ہیں، کیونکہ ارشادِ الٰہی ہے:
’’اگر وہ پردہ نہ کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ، ہاں اگر پردہ کریں تو بہتر ہے۔‘‘(النور60)۔
ان کے علاوہ تمام نامحرم رشتے دار جیسے: دیور، جیٹھ، بہنوئی، چچا زاد بھائی، خالہ زاد بھائی، ماموں زاد بھائی، شوہر کا بھتیجا، بھانجا وغیرہ، اسی طرح غیر رشتے دار (سہیلی کا شوہر، شوہر کا دوست وغیرہ) سے، ہیجڑوں سے، غلط قسم کے آوارہ لوگوں اور مشتبہ و فاسق مسلم و غیر مسلم خواتین سے پردہ کرنا ہوگا۔
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اے نبیؐ! آپ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ اپنے چہروں پر اپنے گھونگھٹ ڈال لیا کریں، اس سے قریب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی اور انھیں تکلیف نہیں پہنچائی جائے گی اور اﷲ بخشنے والا اور مہربان ہے۔‘‘(الاحزاب59)۔
متعدد احادیثِ مبارکہ بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عورت اپنے چہرے کا پردہ کرے:
ام المومنین حضرت عائشہؓ واقعہ تہمت کی لمبی روایت میں فرماتی ہیں:
’’جب میں نے ان (حضرت صفوان بن معطل السلمیؓ) کے ’’إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْن‘‘ پڑھنے کی آواز سنی تو اپنے چہرے کو اوڑھنی سے ڈھانپ لیا۔‘‘
حجۃ الوداع کے ضمن میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
’’سواروں کے قافلے ہمارے پاس سے گزرتے اور ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حالتِ احرام میں تھے، جب وہ ہمارے قریب آتے تو ہم اپنے گھونگھٹوں کو اپنے سر سے چہرے پر لٹکالیا کرتے اور جس وقت وہ گزر جاتے تو ہم اپنے چہروں کو کھول لیتے تھے۔‘‘
ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مسلمان عورت کیلئے ضروری ہے کہ جب وہ اپنے گھر سے باہر نکلے تو ضرور چہرے کا پردہ کرے کیونکہ چہرہ ہی خوبصورتی یا بدصورتی کا عنوان ہے۔
لباس ڈھیلا ڈھالا اور چہرہ، ہاتھ اور سارے جسم کو چھپانے والا ہو، اتنا چُست نہ ہو کہ جسم چھپنے کے باوجود نمایاں اور لوگوں کو راغب کرنے والا ہو، نظریں ہٹانے والا ہو نہ کہ نظریں جمانے والا، نقش و نگار والا اور زرق برق نہ ہو لیکن افسوس کہ آج برقعے کے نام پر جو کالا لباس پہنا جاتا ہے، وہ اس قدر دلکش، جاذبِ نظر، خوب صورت، اسٹائلش، پرنٹڈ، چمکدار، رنگیلا بھڑکیلا اورکچھ نہیں تو اس کے اوپر سنہری ڈوریاں، خوبصورت اسٹیکرز، گولڈن بٹن اور خوبصورت، دلکش اور دیدہ زیب اسکارف، پردے کا پردہ اور ساتھ ہی دعوتِ نظارہ۔ غرض برقع بجائے ستر و حجاب اور اخفائے زینت کے، خود اظہارِ زینت کا ایک بڑا وسیلہ بن گیا ہے۔ بعض اہلِ علم نے تو ایسے برقعے کے بارے میں کہا ہے کہ اس کی زینت کو چھپانے کیلئے اس پر ایک اور برقعے کی ضرورت ہے۔
والدین کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو سختی سے پردے کا پابند بنائیں، انھیں خوشبو لگا کر چلنے، لوچ دار، شیریں آواز سے بات کرنے، پاؤں کی جھنکار اور دلکش اداؤں سے روکیں۔ شرعی حجاب کی خوبیاں ان کے سامنے بیان کریں اور انھیں یہ بتلائیں کہ جب تک وہ رسول اکرمﷺ کی تعلیمات پر عمل نہیں کریں گی، اس وقت تک صحیح معنوں میں مسلمان بھی نہیں بنیں گی۔