بسم اللہ الرحمن الرحیم
مختصر مسائلِ زکوٰة
از : شیخ منیر قمر حفظہ اللہ
{پیشکش :شعبہ توعیۃ الجالیات الغاط www.islamidawah.com }
ارکانِ اسلام میں ایمان ،نماز اورروزہ کے بعد زکوٰة دین ِ اسلام کا انتہائی اہم رکن ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم قرآن شریف میں کم وبیش اسّی(٨٠) مرتبہ دیا ہے۔ زکوٰة کا لغوی معنیٰ ہے:
” بڑھنا”،”پاک ہونا” ارشادِ باری تعالیٰ ہے:” وہ شخص کامیاب ہوگیا،جس نے اپنے آپ کو پاک کیا”۔(الاعلیٰ:١٤)
قرآن شریف میں ہے:
١۔” نماز قائم کرو، زکوٰة دو،اور رسول کی اطاعت کرو،تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔” (سورۂ نور:٥٦)
٢۔” اور جو زکوٰة تم لوگ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دیتے ہو، اس سے دراصل دینے والے اپنے مال میں اضافہ کرتے ہیں”۔(سورۂ روم:٣٩)
٣۔”اے نبی !تم انکے اموال سے زکوٰة لے کر انہیں گناہوں سے پاک کرو”۔(سورۂ توبہ:١٠٣)
زکوٰة ادا نہ کرنے والوں کے لئے حکمِ الٰہی:
١۔” تباہی ہے، ان مشرکوں کے لئے جو زکوٰة نہیں دیتے،اورآخرت کے منکر ہیں”۔(سورۂ حم سجدہ:٦۔٧)
٢۔”جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے مال دیا ہے اور وہ بخل سے کام لیتے ہیں، اس خیال میں
نہ رہیں کہ یہ انکے حق میں بہتر ہے، بلکہ یہ بہت برا ہے، اس بخل سے جو کچھ وہ جمع کررہے ہیں، اسے قیامت کے دن طوق بنا کر ان کے گلے میں ڈالا جائے گا”۔(سورۂ آل عمران:١٨٠)
٣۔”دردناک سزا کی خوشخبری سنادو،ان لوگوں کو جو سونا اور چاندی جمع رکھتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ایک دن آئے گا کہ ایسے سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا :یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا۔لو اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزا چکھو”۔(سورۂ توبہ :٣٤۔٣٥)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”اس صدقہ سے کوئی مال کم نہیں ہو تا۔مظلوم کی بدعا ء سے ڈرتے رہو، کیونکہ اسکے اوراللہ کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں”۔
زکوٰة فرض ہونے کی شرائط:
زکوٰة فرض ہونے کی دو شرائط ہیں:
١۔وہ مال بہ قدرِ نصاب یا اس سے زیادہ ہو۔نصاب سے مرادوہ کم سے کم مقدارہے جو شریعت نے مختلف چیزوں کیلئے مقرر کی ہے۔
٢۔اس پر ایک قمری(ہجری) سال گزر چکا ہو۔البتہ زمین کی پیداوار پر ایک سال کی شرط نہیں۔ فصل کاٹنے اور صاف کرلینے کے ساتھ ہی ادا کی جائے۔اسی طرح کانوں اور دبے ہوئے خزانوں کے لئے بھی ایک سال کی شرط نہیں۔
یہ ہر آزاد مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے،جس میں مندرجہ بالا شرائط پائی جائیں۔ اگر مال کا مالک بچہ یا ناسمجھ آدمی ہو، تب بھی سرپرست پر فرض ہے کہ زکوٰة ادا کرے۔ قرض اگر نصاب کے مال سے زیادہ ہو تو زکوٰة فرض نہیں۔
مشترکہ کھاتہ(کمپنی):
٭امام ابوحنیفہ و امام مالک: کسی پر زکوٰة اس وقت تک واجب نہیں ہے جب تک ان میں سے ہر ایک کا حصہ بقدر نصاب نہ ہو۔
٭امام شافعی:مشترک مال کا حکم ایک ہی شخص کے مال کا ہے۔
٭وجۂ اختلاف:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد:
”پانچ اوقیہ(٥٠=٥٢تولہ) سے کم چاندی پر زکوٰة نہیں ہے۔” سے یہ واضح نہیں کہ آیا یہ حکم صرف اس وقت ہے، جبکہ مال صرف ایک ہی شخص کی ملکےّت ہو، یا اس وقت بھی ہے جبکہ کئی شریک ہوں۔بعض آئمہ پہلی صورت پر اور بعض دوسری پر متفق ہیں۔اور دوسری ہی صحیح ہے،کیونکہ ارشادِ نبوی ۖ ہے:”زکوٰة کے ڈر سے نہ متفرّق مال کو اکٹھا کیا جائے اور نہ اکٹھے کو الگ الگ۔”
(صحیح بخاری)
اموالِ زکوٰة(جن پر زکوٰة فرض ہے):
١۔ سونااور چاندی(نقدی)
٢۔ مالِ تجارت
٣۔ زرعی پیداوار
٤۔ مویشی
٥۔ کان اور دبے ہوئے خزانے
وہ اشیاء جن پر زکوٰة واجب نہیں ہے:
ذاتی استعمال کی اشیاء ،ذاتی مکان یا مکان کی تعمیر کیلئے پلاٹ، ذاتی استعمال کی اشیاء (مثلاً کار، فرنیچر،فرج،حفاظتی ہتھیار یا مویشی خواہ کتنی ہی قیمت کے ہوں)پرزکوٰة نہیں۔
A۔سونا اور چاندی:
اِن پرچالیسواں حصہ(1/40 یا 2.5٪) زکوٰة ادا کرے گا:
(١) سونا:
ساڑھے سات( 7.50) تولے سے زیادہ ہو تو چالیسواں حصہ یعنی 2.5٪ زکوٰة ہے۔ جبکہ ملکيت میں ایک سال گزر جائے۔ اصل اعتبار وزن کا ہوگا ،قیمت کا نہیں۔
٭عورت کے زیور ات کی زکوٰة :
اگرچہ اس مسئلہ میں اختلافِ رائے ہے،لیکن علماء کے صحیح تر قول کے مطابق زکوٰة دینی چاہیئے۔
(٢)چاندی:
ساڑھے باون(52.5) تولے سے زیادہ ہو تو چالیسواں حصہ یعنی 2.5٪
زکوٰة ہے،جبکہ ملکیت میں ایک سال گزر جائے۔ اصل اعتبار وزن کا ہوگا قیمت کا نہیں۔
٭نصاب کیا ہے؟:
کیا استعمال کیلئے کوئی زیریں حد مقررہے؟ یا نصاب ہی حد ہے؟ سونے کا نصاب ساڑھے سات(٧٥٠) تولے۔چاندی کا ساڑھے باون (52.5)تولے۔ ایک سال گزرنے پر،2.5٪ زکوٰة ہوگی۔ سونے اور چاندی کی قیمت کا اندازہ موجودہ بھاؤ(قیمت فروخت) کے مطابق لگا کر زکوٰة اداکرنی چاہیئے۔
B۔ مالِ تجارت:
مالِ تجارت پر زکوٰة فرض ہے:
C۔ زرعی پیداوار:
زمین کی پیداوار پر زکوٰة قرآن،سنت،اور اجماعِ امت،تینوں کی رو سے فرض ہے۔
١۔خودبخود سیراب ہونے والی زمین پر فصل یا غلے کا عُشر یعنی دسواں حصہ(١٠٪)ہے۔
٢۔مصنوعی ذرائع سے سیراب ہونے والی زمین پر فصل یا غلے کا نصف ِعُشر یعنی بیسواں حصہ(٥٪)ہے۔
٭فصل یا غلے کی اقسام:
گندم، جو،کھجور،کشمکش،جوار،مکئی ،باجرہ،چاول وغیرہ۔
D۔غلوں اور پھلوں کا نصاب:
٭غلوں اور پھلوں کا نصاب :
جمہور کے نزدیک٥ وسق یعنی تقریباً ٧٢٥ کلوگرام کے برابر ہے۔
حضرت ابو سعید خدری ص سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:” غلوں اور پھلوں پر
٥ وسق(٧٢٥کلوگرام) سے کم پر زکوٰة نہیں ہے۔”
(صحیحین،سُننِ اربعہ،مسنداحمد)
شافعہ،مالکیہ اور حنابلہ کا اس پر اتفاق ہے کہ غلوں کا نصاب پانچ وسق ٧٢٥کلوگرام ہے،جبکہ وہ
خشک ہوچکے ہوں اور انہیں چھلکوں وغیرہ سے صاف کرلیا گیا ہو۔
٭غلوں اور پھلوں کی شرح زکوٰة:
زمین کے قدرتی ذرائع(بارش وغیرہ) سے سیراب ہونے پر عُشر(دسواں حصّہ) اور مصنوعی ذرائع سے سیراب ہو نے پر نصف ِ عُشر(بیسواں حصّہ) زکوٰة ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” جو زمیں آسمان(بارش،برف،اوس،اولے) یا قدرتی چشموں سے سیراب ہو،اس پر عُشر اور دوسرے مصنوعی ذرائع سے سیراب کی جانے والی پر نصفِ عُشر ہے۔”
(بخاری،ابوداؤد،ترمذی، ابن ماجہ)
٭پھلوں کا عُشر،بذریعہ خرص:
(خرص یعنی تخمینہ،اندازہ)پھل پک جائے تو توڑنے سے پہلے عشر کی مقدار کا پتہ کرنے کیلئے تخمینہ واندازہ لگانا خرص کہلاتا ہے۔
٭مویشی:حدیث میں زکوٰة کیلئے تین قسم کے جانوروں کا ذکر ہے۔
١۔اونٹ
٢۔گائے(بھینس)
٣۔بھیڑ بکری
١۔اونٹ:
حدیث:”24سے کم اونٹ ہوں تو ہر 5اونٹوں پر ایک بکری زکوٰة اور 25اونٹ ہو جائیں تو ان پر ایک سال کی ایک اونٹنی”
نصاب:
(١)4اونٹوں پر کوئی زکوٰة نہیں الاّیہ کہ مالک خود دینا چاہے۔
(٢)5سے 9 اونٹوں پرایک بکری۔
(٣)10سے14 اونٹوںپر2بکریاں۔
(٤)15سے19 اونٹوں پر3 بکریاں۔
(٥)20سے24 اونٹوں پر 4بکریاں۔
(٦)25سے 35 اونٹوں پرایک سال کی ایک ا ونٹنی۔
(٧)36سے 45 اونٹوں پر 2سال کی ایک اونٹنی جو تیسرے سال لگ چکی ہو۔
(٨)46 سے 60 اونٹوں پر 3سال کی ایک اونٹنی جو چوتھے سال لگ چکی ہو۔
(٩) 61 سے 75 اونٹوں پر 4سال کی ایک اونٹنی ،جو پانچویںسال میں لگ چکی ہو۔
(١٠)76سے 90 اونٹوں پر 2سال کی دو اونٹنیاں، جو تیسرے سال میں لگ چکی ہوں۔
(١١)91سے120 اونٹوں پر3سال کی تین اونٹنیاں جو چوتھے سال میں لگ چکی ہوں۔
اور جب اونٹ120سے زیادہ ہوں تو ہر چالیس اونٹوں پر 2سال کی ایک اونٹنی اور ہر پچاس اونٹوں پر تین سال کی ایک اونٹنی زکوٰة ہو گی۔
(بخاری،ابوداؤد،ترمذی)
٢۔گایوں بھینسوں پر زکوٰة:
(١)30سے کم تعداد پر زکوٰة نہیں ،لیکن 30پر ایک سال کا بچھڑایا بچھیا۔
(٢)40پر 2سال کا بچھڑا یا بچھیا۔
(احمد،ترمذی،ابوداؤد،نسائی،ابنِ ماجہ)
٣۔بکریوں اور بھیڑوں پر نصاب:
(١) 40 سے کم پر کوئی زکوٰة نہیں۔
(٢)40سے120 پر ایک بکری۔
(٣)121سے 200 پر2بکریاں۔
(٤)200سے 300 پر 3بکریاں،300سے
زائد ہرسَو(100)بکریوں پر ایک بکری کے حساب سے زکوٰة اداکریں۔گدھوں،گھوڑوںاور خچروں پر کوئی زکوٰة نہیںہے، لیکن اگرتجارت کیلئے رکھے ہو ئے ہیں تو زکوٰة واجب ہے۔
٤۔کانیں اور معدنیات:
اِن پر %20زکوٰة ہے ،جو پائے جانے یا نکالنے کے ساتھ ہی ادا کرنی چاہیئے نہ کہ ایک سال گزرنے کے بعد۔
زکوٰة کی ادائیگی اور تقسیم:
١۔زکوٰة جلدازجلد ادا کرنی چاہیئے۔پیشگی بھی ادا کی جا سکتی ہے۔
٢۔زکوٰة جہاں سے نکالے وہیں ادا کردینی چاہیئے۔دوسری جگہ منتقل نہ کی جائے ،ہاںاگر زیادہ ہو یا بچ جائے،تو دوسری جگہ بھیجی جا سکتی ہے۔ رسولِ کریم ۖ دوسری جگہوں سے آیا ہوا زکوٰة کا مال اہل ِمدینہ یا مہاجرین میں تقسیم فرمایا کرتے تھے۔
وہ لوگ جن پر زکوٰة حرام ہے:
١۔غنی اورمُکتسب(تندرست کماسکنے والا)۔حضرت ابو ہریرہ صسے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جو شخص اپنا مال بڑھانے کیلئے لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگتا ہے۔اسے اختیار ہے چاہے انکی مقدار زیادہ کرے یا کم”۔
٢۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان ۔
٣۔غیر مسلم۔البتہ بعض شکلوں میں ممکن ہے،جن کا ذکر آگے”مصارفِ زکوٰة” میں آرہا ہے۔
٤۔بیوی۔(شوہر بیوی کو زکوٰة نہیں دے سکتا)
٥۔اباء واجداد اور اولاد واحفاد کو زکوٰة نہیں دی جاسکتی۔
وہ لوگ جن کو زکوٰة اور صدقہ دینا دوسروں کی نسبت افضل ہے:
١۔شوہر
٢۔والدین اور اولاد کے سوا دوسرے رشتہ دار، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: ”سب سے افضل صدقہ وہ ہے جو کسی تنگدست رشتہ دار پر کیا جائے۔”
(مختصراً ازفقہ السنہ،محمدعاصم)
زکوٰة کے مصارف و مقامات:
مصارف ِزکوٰة آٹھ(٨) ہیں،جن کا ذکر سورة التوبہ،آیت ٦٠ میں آیا ہے۔ وہ درجِ ذیل ہیں۔
١۔فقیر:
٢۔مسکین:
یہ دونوں باہم قریب قریب ہی ہیں،حتی کہ ان کا ایک دوسرے پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔تا ہم دونوں میں یہ بات قطعی ہے کہ جو شخص حاجت مند ہو اور ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے وسائل سے محروم ہو، اسے فقیرو مسکین کہا جاتا ہے۔فقیر سے مسکین قدرے بہتر حیثیت رکھنے والا ہوتا ہے اور وہ دستِ سوال بھی دراز نہیں کرتا اور نہ ہی اپنی شکل ایسی بناتا ہے کہ لوگ اسے کچھ دیں،جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم کی ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے۔
٣۔عاملین:
حکومت کے وہ اہل کار جو زکوٰة جمع کرنے،اسے تقسیم کرنے اور اسکا حساب کتاب رکھنے پر مامور ہوتے ہیں۔ان کی اجرت یا تنخواہیں مالِ زکوٰة سے دی جاسکتی ہیں اور وہ انکے لئے حلال ہے،چاہے وہ مالدار ہی کیوں نہ ہوں۔ البتہ نبی ۖ نے اپنی ذات اور اپنے خاندان(بنی ہاشم) پر اس مد میں بھی زکوٰة منع قرار دی ہے۔
٤۔مؤلفة القلوب:
{1}وہ کافر جو اسلام کی طرف کچھ مائل ہو، اوراسکی مدد کرنے سے اسکے مسلمان ہوجانے کی توقع ہو {2}وہ نو مسلم افراد جنھیں ایسی امداد اسلام پر مضبوط کردینے کا باعث بن سکتی ہو{3} وہ افراد جنھیں امداد دینے کی صورت میں یہ امید ہو کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے سے روکیں گے، یوں مسلمانوں کو کفّار سے تحفّظ حاصل ہوگا.
٭احناف کے نزدیک یہ مصرف ختم ہوگیا ہے،لیکن یہ بات صحیح نہیں،حالات کے مطابق ہر دور میں اس مصرف پر زکوٰة کا پیسہ خرچ کیا جاسکتا ہے۔
٥۔گردنیں آزاد کرانا:
غلام آزاد کرانے کیلئے زکوٰة کا پیسہ خرچ کیا جاسکتا ہے،وہ مکاتب ہو یا غیر مکاتب۔امام شوکانی کے نزدیک اس میں کوئی فرق نہیں۔
٦۔غارمین:
وہ مقروض جو اہل وعیال کے نان ونفقہ کے سلسلہ میںزیربار ہوگئے ہوں اورقرضہ ادا کرنے کیلئے نہ نقد رقم ہو، نہ کوئی چیز کہ جسے بیچ کر قرض ادا کرسکیں۔ دوسرے وہ ذمہ دار اصحابِ ضمانت ہیں کہ کسی کی ضمانت دی اور پھر اسکی ادائیگی کے ذمہ دار قرا رپاگئے۔تیسرے وہ لوگ جو کسی فصل کے تباہ ہوجانے یا کاروبار کے خسارہ کی وجہ سے مقروض ہوگئے۔ان سب کی امداد بھی مالِ زکوٰة سے کی جاسکتی ہے۔
٧۔فی سبیل اللہ:
جہاد ومجاہدین( نان ونفقہ و اسلحہ وغیرہ) پر خرچ کرنا۔چاہے مجاہدین مالدار ہی کیوں نہ ہوں۔بعض احادیث کی رو س