بسّم اللَّہِ الذی أحاط مخلوقاتہ کلھا بعلمہ و بقُدراتہِ ، و الحمد للَّہ الذی لا یخفی علیہ شیءٌ فی السَّماواتِ و لا فی الارضِ، و الصَّلاۃُ و السَّلامُ علیَ مَن لا نبی بعدہ ُ محمد رسول اللَّہ:::
اللہ کے نام سے آغاز ہے جِس نے اپنی ساری ہی مخلوق کو اپنے عِلم اور اپنی قدرتوں کے احاطہ میں لے رکھا ہے ، اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے جِس سے اِسمانوں اور زمین میں کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ، اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ پر جِن کے بعد کوئی نبی نہیں،
اللہ جلّ و عُلا کی ذات مُبارک کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی وحی میں جو کہ خود اللہ کے کلام مُبارک میں قران حکیم کی صُورت میں ، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث شریف کی صُورت میں ہم تک پہنچی ، اِس وحی میں بڑی ہی وضاحت کے ساتھ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اللہ جلّ جلالہُ اپنی تمام تر مخلوق سے الگ، جُدا اور بلند ، اپنے عرش سے اُوپر ہے ،
الحمد للہ ، کہ اللہ ہی کی توفیق سے میں نے اِسلامی عقیدے کے اِس أہم اور بنیادی عقیدے کی وضاحت کے بارے میں ایک کتاب بعنوان "”” اللہ کہاں ہے ؟ "”” تیار کی جو برقی میڈیا پر نشر کی جا چکی ہے ،
آن لائن مُطالعہ اور برقی نسخہ کے حصول کے لیے درج ذیل ربط دیکھیے :::
میں نے اِس کتاب میں لکھا تھا :::
"”” ( 7 ) اللہ الکریم کا فرمان ہے :::
﴿ هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اِستَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ::: اللہ وہ ہے جِس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق چھ دِن میں کی پھر عرش پر قائم ہوا وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ زمین سے نکلتا ہے ، اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور آسمان میں چڑھتا ہے اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو وہ تم لوگوں کے ساتھ ہے اور جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو اللہ وہ سب دیکھتا ہے ﴾ سورت الحدید(57)/آیت 4 ۔
:::::::: اِس مندرجہ بالا آیت مُبارکہ میں ہمارے اِس رواں موضوع کی دلیل کے ساتھ ساتھ ایک اور بات کی بھی وضاحت ہے ، جِس کے بارے میں اکثر لوگ غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں ، اور وہ ہے اللہ تبارک و تعالی کی "” معیت "” یعنی اِس کا ساتھ ہونا ،جِس کے بارے میں عموماًٍ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اپنی ذات مُبارک کے ذریعے کِسی کے ساتھ ہوتا ہے ، جو کہ دُرُست نہیں ہے کیونکہ اللہ جلّ جلالہُ نے خود ہی اپنی "”” معیت "”” کی کیفیت بیان فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿ وَاللَّہ ُ بِمَا تَعمَلُونَ بَصِیرٌ ::: اور جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو اللہ وہ سب دیکھتا ہے ﴾ یعنی اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا ساتھ ہونا اِس کے علم و قدرت، سماعت و بصارت کے ذریعے ہے ، نہ کہ اِس کی ذات مُبارک کے وجود پاک کے ساتھ کِسی کے ساتھ ہونا ہے، اِن شاء اللہ اِس موضوع پر بات پھر کِسی وقت۔”””
گو کہ اِس وضاحت کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کی معیت ( یعنی اُس کے اپنی مخلوق میں سے کِسی کے ساتھ ہونے )کے ذِکر کی بنا پر اِس شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ اللہ کا ساتھ ہونا اُس کی ذات شریف کا ساتھ ہونا ہے ،
لیکن پھر بھی قارئین کرام کی طرف سے ایسے سوالات یا شبہات کا اظہار ہوا ہےجو اُن آیات مُبارکہ سے ، جِن میں اللہ تعالیٰ کے اپنی کِسی مخلوق کے ساتھ ہونے کا ذِکر ہے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ساتھ ہونا اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پاک کا ساتھ ہونا ہے ،
جِسے "””معیت اللہ "””کہا جاتا ہے ،
اپنے اِس مضمون میں اِن شاء اللہ میں اُن آیات مُبارکہ کی تفسیر پیش کروں گا جِن آیات مُبارکہ میں اللہ جلّ جلالہ ُ کی معیت کا ذِکر ہے ، جِس سے اِن شاء اللہ یہ واضح ہو جائے گاکہ اللہ سُبحانہ و تعالٰی کی معیت اُس کی ذات کا ساتھ ہونا نہیں ،
بلکہ اللہ عزّ و جلّ کی معیت ، یعنی اُس کا اپنی مخلوق میں سے کِسی کے ساتھ ہونے سے مُراد، اُس مخلوق کا ، اور اُس کے ظاہری اور باطنی افعال و اقوال کا اپنے عِلم ، سماعت ، بصارت ، حِکمت ، قُدرت اور تدبیر کےذریعے احاطہ کیے رکھنا ہے،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی معیت ، یعنی اُس کا اپنی مخلوق کے ساتھ ہونا ، دو بنیادی اِقسام میں ہے ، یُوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دو بنیادی انداز میں ہوتا ہے ،
::::::: (1) :::::::: عمومی معیت ،
::::::: (2) ::::::: خصوصی معیت ،
اِن شاء اللہ ، کوشش کروں گا اِن دونوں اِقسام کا مختصر لیکن کافی و شافی تعارف اِسی مضمون میں ذِکر کر سکوں ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالٰی کی اِس صِفت یعنی "””معیت ، ساتھ ہونا "”” کی کیفیت کو دُرُست طور پر سمجھنے میں لوگوں کو دو اِسباب سے غلط فہمی ہوتی ہے :::
::::::: (1) ::::::: غلط فہمی کا پہلا سبب :::::::: اللہ تبارک و تعالیٰ کی صِفات کو اللہ ہی کی دی ہوئی خبر کے مُطابق نہ سمجھنے کی وجہ سے اللہ کی معیت کی صِفت کو بھی سمجھنے میں لوگوں کو غلط فہمی ہوتی ہے ،
وہ اللہ کی مخلوق کی صِفات کے مُطابق ، اللہ کے بارے میں بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کِسی کا کِسی جگہ پر مُوجُود ہوئے بغیر اُس جگہ پر ہونے والی حرکات و سکنات کو جاننا ممکن نہیں ، جب کہ ہمارے اِس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے جو کچھ برقی اور برقیاتی آلات مہیا کروا دیے ہیں اُن کی مُوجُودگی میں اِس قسم کا کوئی خیال نہیں آنا چاہیے ،
::::::: (2) ::::::: غلط فہمی کا دُوسرا سبب :::::::: اللہ جلّ جلالہ ُ کی معیت کی کیفیت سمجھنے میں غلط فہمی کا ایک سبب یہ بھی ہے لوگ”””معھُم ، یا ، معکُم، یا ، معہُ ،یا ، معک َ "”” یعنی "”” اُن سب کے ساتھ ، یا ،تُم لوگوں کے ساتھ ، یا ، اِس کے ساتھ ، یا ، تمہارے ساتھ”””وغیرہ قسم کے اِلفاظ سے یہ سمجھتے ہیں کہ کِسی ایک شخصیت یا چیز کا کِسی دُوسری شخصیت یا چیز کے ساتھ ہونے کے ذِکر سے یہ لازم ہوتا ہے دونوں اپنی اپنی ذات کے وجود کے ساتھ ، ایک دُوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں ، جبکہ ایسا سمجھنا دُرُست نہیں ،اور قران کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمائے ہوئے فرامین مُبارکہ کے مُطابق ہی دُرُست نہیں ، اِس کا ذِکر بھی اِن شاء اللہ آگےہوتا چلے گا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی معیت ، یعنی اُس کا اپنی مخلوق میں سے کِسی کے ساتھ ہونے کا ذِکر اپنی کتاب کریم میں کئی مُقامات پر ، اور ایک سے زیادہ انداز میں فرمایا ہے ،
اِن شاء اللہ اِس مضمون میں ، ہم اُن آیات کریمہ کا مُطالعہ کریں گے جِن آیات مُبارکہ کو نا دُرُست طور پر سمجھنے کی وجہ سے سمجھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ اپنی مخلوق کے ساتھ ہوتا ہے ، اور معاذ اللہ ، ثم معاذ اللہ ، کچھ تو ایسے بھی ہوئے اور ہیں جو ان آیات مُبارکہ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا اُس کی مخلوق میں، مخلوق کے اندر ، مخلوق کے ساتھ مختلط ہونے کا کفریہ عقیدہ اپنانے کی دلیل بناتے ہیں، اور اللہ ہُو ، اللہ ہُو ، اور پھر ہُو ، ہُو کے کفر میں گمراہ ہوتے ہیں اور گمراہ کرتے ہیں، اور اِسے اللہ کا ذِکر سمجھتے ہیں ،
اللہ ہُو ، اللہ ہُو ، اور پھر نام نہاد تخیلاتی مدارج کی بلندی کے بعد ہُو ، ہُو نامی ، خود ساختہ اورباطل عقیدے پر مبنی شور شرابہ کِسی بھی طور اللہ کا ذِکر نہیں ، بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرامین کے انکار کا اعلان ہیں ، کیونکہ نہ تو اللہ پاک ہر جگہ مُوجُود ہے ، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اِس دُنیا میں کِسی کو نظر آتی ہے ،
اِس موضوع پر اِن شاء اللہ کِسی اور وقت بات کروں گا ، فی الحال تو اپنے اِس رواں موضوع یعنی””” اللہ کی معیت ، اللہ کا ساتھ ہونا "””کی طرف واپس آتا ہوں ، اورقران کریم ہی کی روشنی میں اُن آیات کریمہ کو دُرُست طور سمجھتے ہیں جِن آیات شریفہ کی بنا پر لوگ”””معیت اللہ "”” کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا بذاتہ اُس کی مخلوق میں مُوجُود ہونا سمجھتے ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::::: پہلی آیت :::::::
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا اِرشاد پاک ہے﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ::: کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ جو کچھ بھی اِسمانوں اور زمین میں ہے اللہ اُس کے بارے میں سب عِلم رکھتا ہے ،(حتیٰ کہ)اگر کوئی تین لوگ سرگوشی کرتے ہیں تو اللہ (گویا کہ )اُن میں چوتھا ہوتا ہے ، اور اگر (سرگوشی کرنےو الے )پانچ ہوں تو اللہ اُن میں چَھٹا ہوتا ہے ، اور اگر سرگوشی کرنےو الے اِس (تعداد)سے کم ہوں یا زیادہ ہوں، تو بھی اللہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں ، پھر قیامت والے دِن اللہ اُن لوگوں کو (اُن کی سرگوشیوں کے بارے میں)خبر کردے گا ، یقیناً اللہ ہر ایک چیز کا خوب عِلم رکھتا ہے﴾سُورت المُجادلہ(58)/آیت 7،
اِس مذکورہ بالا آیت کریمہ کے بارے میں اتنا ہی سمجھنا کافی ہے کہ اِس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ کا لوگوں کے ساتھ ہونا اُس کے عِلم کے ذریعے ہے کہ ، وہ لوگوں کے بارے میں اُن کی ہر ایک بات اِس طرح جانتا ہے کہ گویا وہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے ،
جی ہاں ، غور فرمایے، قارئین کرام ، کہ اِس آیت کریمہ کا آغاز اللہ العلیم کے عِلم کے ذِکر کے ساتھ فرمایا ہے اور اِختتام بھی اُس کے عِلم کے ذِکر پر فرمایا ہے ،
اللہ تعالیٰ نے اپنے عِلم کے بارے میں اِس خبر کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ::: کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ اُس کے بارے میں سب عِلم رکھتا ہے﴾
اور پھر اُس عِلم کی وُسعت اور کیفیات میں سے ایک کیفیت کا بیان فرمایا ہے کہ﴿مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا:::(حتیٰ کہ)اگر کوئی تین لوگ سرگوشی کرتے ہیں تو اللہ (گویا کہ )اُن میں چوتھا ہوتا ہے ، اور اگر (سرگوشی کرنےو الے )پانچ ہوں تو اللہ اُن میں چَھٹا ہوتا ہے ، اور اگر سرگوشی کرنےو الے اِس (تعداد)سے کم ہوں یا زیادہ ہوں، تو بھی اللہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں﴾
اور پھر اپنے اِسی عِلم کے مُطابق لوگوں کو اُن کے اعمال کی خبر دینے کا ذِکر فرمایا ﴿ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ:::پھر قیامت والے دِن اللہ اُن لوگوں کو (اُن کی سرگوشیوں کے بارے میں)خبر کردے گا ، یقیناً اللہ ہر ایک چیز کا خوب عِلم رکھتا ہے﴾
پس اِسی آیت مُبارکہ میں سے ہی یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا لوگوں کے ساتھ ہونا اللہ کے عِلم کے ذریعے ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ ، اپنی مخلوق کے ساتھ نہیں ہوتا ، دُوسرے اِلفاظ میں یوں کہیے کہ اللہ کی ذات پاک اُس کی مخلوق کے ساتھ نہیں ہوتی ہے ۔
یہ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے ، یہ میری ذاتی سوچ ، یا خود فہمی نہیں ہے ، بلکہ سُورت المُجادلہ کی اِس مذکورہ بالا آیت کریمہ کی یہی تفسیر صحابہ میں سے مفسر ء قران عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ، اور اُن کے بعد والوں میں سے إِمام الضحاک بن مزاحم الہلالی رحمہُ اللہ ، إِمام سُفیان الثوری رحمہُ اللہ اور إِمام احمد ابن حنبل رحمہُ اللہ سے منقول ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::::: دُوسری آیت ::::::نماز میں قِبلہ کی سِمت (جہت)کے ذِکر کو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا مُوجُود ہوناِسمجھنا:::::::
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا اِرشاد گرامی ہے ﴿وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاِسعٌ عَلِيمٌ ::: اور اللہ کے لیے ہی ہے مشرق اور مغرب ، لہذا تُم لوگ جِس طرف بھی اپنے چہرے پھیرو گے اِسی طرف کو اللہ کی طرف توجہ والا(قِبلہ) پاؤ گے ، یقیناً اللہ بہت وسعت والا (اور)بہت عِلم والا ہے﴾سُورت البقرہ(2)/آیت 115،
یہ آیت مُبارکہ دوران سفر ادا کی جانے والی نفلی نماز کے بارے میں نازل ہوئی تھی ، ایسی نفلی نماز جِس میں کوشش کے باوجود قِبلہ کی طرف رُخ نہ ہو سکے ،
اِس آیت مُبارکہ میں بھی ایسی کوئی بات نہیں جو یہ سمجھنے کی طرف مائل ہی کر سکے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پاک ہر جگہ مُوجُود ہے ، اِس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے عِلم کی وُسعت کا ہی بیان فرمایا ہے ،
اور اِسی بیان پر اِس آیت شریفہ کو اختتام پذیر فرما کر اللہ تعالیٰ نے یہ سبق دِیا ہے کہ اِنسان مشرِق یا مغرب یا کِسی بھی اور طرف توجہ کرے ، ہر طرف ، ہر سمت میں وہ اللہ تعالیٰ کے عِلم کی وُسعت میں محیط ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کے عِلم سے کِسی بھی جہت میں خارج نہیں ہو پاتا ، پس وہ جِس طرف بھی اپنا چہرہ پھیرے گا اللہ کے عِلم میں اُسی طرح ہو گا جیسا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بالکل سامنے ہے ،
اور اگر اُس کی جہت بالکل دُرُست طور پر قِبلہ کی طرف نہ بھی ہو سکی تو بھی اللہ تعالیٰ اُس کی توجہ کو اُسی طرح قبول فرمائے گا کہ جیسے وہ قِبلہ کی بالکل دُرُست جہت اختیار کرتے ہوئے اللہ کی طرف متوجہ ہوا ہو ، خیال رہے کہ یہ آیت کریمہ منسوخ فرمائی جا چکی ہے ، اِس کی تفصیل تقریباً تفسیر کی ہر ایک معتبر کتاب میں مذکور ہے ،
اِس آیت مُبارکہ کے نزول کا سبب یہ بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خواہش تھی کہ مُسلمانوں کا قِبلہ کعبۃ اللہ ہو ،
پس اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خواہش کو شرفء قبولیت عطاء فرماتے ہوئے مسلمانوں کا قِبلہ تبدیل فرما نے کا حکم صادر فرما دِیا ﴿قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ::: (اے محمد)ہم نے آپ کے چہرے کا بار بار اِسمان کی طرف (اٹھنااور)پلٹنا دیکھ لیا ہے، لہذا ہم آپ کو وہی قِبلہ عطاء کرتے ہیں جو آپ کی خواہش کے مُطابق ہے ، پس آپ اپنا چہرہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیجیے ، اور تُم لوگ جہاں کہیں بھی ہو (نماز کے لیے)اپنے چہرے مسجد الحرام کی طرف پھیر لیا کرو ،اور جِنہیں (تُم لوگوں سے پہلے ) کتاب دِی گئی وہ ضرور یہ جانتے ہیں کہ (قِبلہ کی تبدیلی کا)یہ ( حُکم)اُن کے رب کی طرف سے حق ہے، اور جو کچھ بھی تُم لوگ کرتے ہو اللہ اُس سے لاعِلم نہیں﴾سُورت البقرہ(2)/آیت 144۔
لہذا ﴿فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ::: لہذا تُم لوگ جِس طرف بھی اپنے چہرے پھیرو گے اُسی طرف کو اللہ کی طرف توجہ والا(قِبلہ) پاؤ گے ﴾سُورت البقرہ(2)/آیت 115، میں اِس خیالی بات کی کوئی دلیل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بذاتہ ہر جگہ مُوجُود ہے ۔
اور یہاں ایک دفعہ پھر آپ کی توجہ اِس طرف مبذول کرواتا چلوں کہ اِس دُوسری آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ یاد دھانی کروائی ہے کہ وہ اُن کے تمام اعمال کا خوب عِلم رکھتا ہے ، توجہ فرمایے کہ پھر اللہ عزّ و جلّ اپنے عِلم کی وُسعت کے ذِکر پر ہی اپنی اِس بات شریف کو اختتام پذیر فرمایا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::: تیسری اور چوتھی آیات ::: اللہ کا اپنی مخلوق کے قریب ہونے کے ذِکر والی آیات مُبارکہ :::::::
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ::: اور یقیناً ہم نے اِنسان کو تخلیق کیا ، اور جو کچھ اُس کا نفس اِسے وساوس ڈالتا ہے ہم اُس کا عِلم رکھتے ہیں اور ہم اُس (اِنسان)کی شہ رگ سےبھی زیادہ اُس کے قریب ہیں﴾سُورت ق(50)/آیت 16،
[[[ ایک تنبیہ ::: اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِنسان کو اور دیگر ساری ہی مخلوقات کو تخلیق فرمایا ہے ، پیدا نہیں کیا ، ہمارے ہاں عموماً یہ لکھا ، پڑھا ، کہا سُنا جاتا ہے کہ سب کچھ اللہ نے پیدا کیا ہے ، یہ بات دُرست نہیں کیونکہ پیدائش دینا ، پیدا کرنا ، الگ عمل ہے اور تخلیق کرنا الگ، اور دونوں میں بہت دُور کی دُوری ہے اور پیدائش دینا ، پیدا کرنا اللہ جلّ و عزّ کی توحید کے عین خِلاف ہے ﴿و لم یُولَد::: اور اللہ نے کِسی کو پیدا نہیں کیا﴾کِسی غلطی کو دُرُست دِکھانے کی کوشش میں لفاظی اور اِدھر اُدھر کی تاویلات میں وقت ضائع کرنے سے کہیں بہتر اور خیر والا کام یہ ہے کہ ہم لوگ اِس غلطی کی اصلاح کرلیں]]]
اللہ جلّ جلالہ ُ نے اِرشاد فرمایا ہے ﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ::: اور ہم تُم لوگوں کی نسبت اِس (مرنے والے)کے زیادہ قریب ہوتے ہیں﴾سُورت الواقعہ(56)/آیت 85،
اِن دونوں مذکورہ بالا آیات شریفہ سے بھی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اِن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنی ذات پاک کے ساتھ اِنسانوں کے پاِس مُوجُود ہونے کی خبر ہے ،
جب کہ یہ دونوں ہی آیات مُبارکہ اِس قسم کی کوئی خبر مہیا نہیں کرتی ہیں ،
پہلی آیت شریفہ میں یہ بیان ہے کہ اللہ عزّ و جلّ نے اِس آیت کریمہ میں بھی اپنے عِلم کے بارے میں یہ خبر عطاء فرمائی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کِسی بھی اِنسان کے اندر پائے جانے والے وسوسوں کو اُس اِنسان سے بھی زیادہ جانتا ہے کیونکہ اللہ کا عِلم اُس اِنسان کے اندر تک اُس اِنسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ داخل ہوتا ہے لہذا وہ اُس اِنسان کے نفس کے اعمال کا اُس اِنسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ عِلم رکھتا ہے ،
خیال کیجیے کہ قارئین کرام کہ اللہ سُبحانہ ُ وتعالیٰ نے اپنے عِلم کا ذِکر اِسی لیے فرمایا ہے کہ اُس کے بندے یہ جان لیں کہ اُن کا اکیلا حقیقی سچا معبود اللہ اُن کے نفوس کے اندر کی خبر اِس قدر باریک بینی اور تفصیل سے جانتا ہے کہ گویا وہ اُن کے اپنے اندرونی أعضاء سے بھی زیادہ اُن کی شخصیات کے قریب ہے ،
اور اِس قُرب کے اسباب بھی اللہ تعالیٰ نے اِس آیت کریمہ کے بعد والی دو آیات مُبارکہ میں بتائے ہیں ، اِن کا ذِکر ابھی اِن شاء اللہ آگے آئے گا ،
مذکورہ بالا دُوسری آیت مُبارکہ میں بھی اللہ جل ّ و عُلا نے یہی خبر فرمائی ہے کہ جِس انسان پر نزع کی حالت طاری ہوتی ہے اور اُس کی رُوح سلب کی جا رہی ہوتی ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ اللہ اُس کے حال سے بے خبر ہو بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُس کے حال کو اُن لوگوں سے زیادہ جانتا ہے جو لوگ اُس وقت اُس مرنے والے کے قریب ہوتے ہیں ،
یہ مذکورہ بالا تفسیر تو آیات مُبارکہ کے ظاہری اِلفاظ کے ظاہری معانی کے مُطابق سمجھ میں آتی ہے ، لیکن اگر ہم دیگر آیات کریمہ کو بھی سامنے رکھیں تو ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کِسی کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہونا ، اور کِسی مرنے والے کے احوال کو اُس مرنے والے کے پاِس مُوجُود لوگوں سے بھی زیادہ جاننے کا سبب اللہ کا اُس کی ذات شریف کے ساتھ وہاں مُوجُود ہونا نہیں ، بلکہ ، ،،
اِس کا سبب ، اور اِس کا ذریعہ اللہ تعالٰیٰ کا سُننا اور دیکھنا بھی ہے ، اور اللہ کے فرشتوں کے ذریعے لوگوں کے احوال کی خبر حاصل کرنا بھی ہے ، کیونکہ اِنسانوں اور مخلوقات کےظاہری اور باطنی احوال کی خبر محفوظ کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے ذمہ لگا رکھا ہے ،
﴿إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ ::: جو مکاریاں تُم لوگ کرتے ہو ، یقیناً ہمارے رُسول (فرشتے) وہ سب کچھ لکھتے ہیں﴾سُورت یُونُس(10)/آیت 21،
﴿أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ ::: کیا وہ لوگ یہ سمجھتےہیں کہ ہم اُن کی خفیہ باتیں اور شرگوشیاں نہیں سُنتے ، بلکہ ہمارے رُسول (فرشتے)اُن لوگوں کے پاِس لکھ رہے ہوتے ہیں﴾ سُورت الزُخرف(43)/آیت 80،
﴿ وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ oكِرَامًا كَاتِبِينَ o يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ :::اور یقیناً تُم لوگوں پر محافظ (مُقرر)ہیں oعِزت اوربزرگی والے لکھاری oجو کچھ تُم لوگ کرتے ہو وہ سب جانتے ہیں ﴾سُورت الانفطار(82)/آیات 10 تا 12،
سُورت ق کی جو آیت رقم 16 اوپر لکھی گئی ہے ، اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ خبر بھی دی ہے کہ ﴿إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌo مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ ::: جب کہ (اِنسان جو کچھ کہتا ہے یا کرتا ہے) دو لکھنے والے جو دائیں بائیں بیٹھے ہوتے ہیں ، لکھ لیتے ہیںoوہ جو کوئی بات بھی ز ُبان پر لاتا ہے تو ایک چاک و چوبند نگران اِس کے پاِس تیار ہوتا ہے﴾سُورت ق(50)/آیات 17، 18،
اور اِسی طرح مرنے والے کے پاِس مختلف فرشتوں کو حاضر ہو کر اُس کے احوال کی خبر جمع کرنے کی ذمہ داری بھی سونپ رکھی ہے ، اور رُوح سَلب کرنے کی ذمہ داری بھی ملک الموت اور فرشتوں کو دے رکھی ہے ﴿إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ :::بے شک وہ لوگ جِنہیں ہمارے فرشتے (رُوح قبض کر کے)موت دیتے ہیں ﴾ سُورت النِساء(4)/آیت 97،
﴿حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لا يُفَرِّطُونَ ::: یہاں تک کہ جب تُم لوگوں میں سے کِسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو ہمارے فرشتے(روح قبض کر کے) اُسے موت دیتے ہیں اور فرشتے (اپنے کام کی ادائیگی میں ) معمولی سی بھی کوتاہی نہیں کرتے﴾ سُورت الانعام(5)/آیت 61،
﴿وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلائِكَةُ ::: اور اگر آپ دیکھیے کافروں کو اِس وقت دیکھیے جب ہمارے فرشتے(روح قبض کر کے) انہیں موت دیتے ہیں﴾ سُورت الانفال(8)/آیت 50،
﴿قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ::: (اے محمد) فرمایے کہ تُم لوگوں کو وہ ملک الموت موت دیتا ہے جِسے تمہاری طرف ذمہ داری دی گئی ہو ، پھر تُم لوگ اپنے رب کی طرف ہی پلٹائے جاؤ گے ﴾ سُورت السجدہ(32)/آیت 11،
[[[ ایک تنبیہ ::: موت کے فرشتے کا نام قران کریم اور صحیح احادیث شریفہ میں ملک الموت بیان ہوا ہے ، اُس کا نام عزرائیل ہونا قران حکیم اور صحیح احادیث میں ثابت نہیں ]]]
اور اب یہ بھی دیکھیے کہ اِن ہی کاموں کو اور کئی دیگر کاموں کو جو کہ اللہ کے فرشتے کرتے ہیں ، اور فرشتوں نے کیے ، اُن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات شریف سے بھی منسوب فرما کر ذِکر فرمایا ہے ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے درج ذیل فرامین مُبارکہ پر غور فرمایے :::
﴿وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ:::اور اللہ ہی تُم لوگوں کو رات میں موت دیتا ہے اور جو کچھ تم لوگ دِن بھر کرتے ہو اُس کا بھی عِلم رکھتا ہے ، پھر تُم لوگوں کو دِن کے وقت میں دوبارہ اِرسال کرتا ہے تا کہ(تم لوگوں کی موت کا)مقرر شُدہ وقت پورا ہو جائے، پھر تُم لوگوں نے اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے پھر اللہ تم لوگوں کو اُس کی خبر کر دے گا جو کچھ تُم لوگ کیا کرتے تھے﴾ سُورت الانعام (6)/آیت 60،
﴿اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ::: اللہ ہی جانوں کو اُن کی موت کے وقت(پورے کا پورا) قبض کرتا ہے اور اُن جانوں کو بھی (اِسی طرح قبض کرتا ہے )جِن کی موت اُن کے سونے کے وقت نہیں آئی پھر اُن جانوں کو روک لیتا ہے جِن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک مقررہ وقت تک کے لیے واپس بھیج دیتا ہے بے شک اِس میں اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں﴾سُورت الزُمر(39)/آیت 42،
﴿ وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ ::: اور اللہ ہی ہے جِس نے تم لوگوں کو تخلیق کیا ، پھر وہ تُم لوگوں کو موت دیتا ہے ، اور تُم لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جِسے ذلت والی عمر تک پہنچا دیا جاتا ہے تا کہ وہ عِلم پانے کے بعد پھر سے جاھل بن جائے ، بے شک اللہ سب سے زیادہ اور مکمل علم والا ، قدرت والا ہے﴾ سُورت النحل (16)/آیت 70،
اِن سب ہی آیات مُبارکہ میں اِنسانوں کو موت دینے ، اُن کی جان نکالنے ، اُن کی ارواح قبض کرنے کے کام اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک سے منسوب فرما کر ذِکر کیے ہیں ،
جب کہ اِن سے پہلے ذِکر شدہ آیات مُبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہی یہ بیان فرمایا ہے کہ اِنسانوں کی جان نکالنا ، اُن کی رُوحیں قبض کر کے اُنہیں موت دینا ، اللہ کے حکم کے مُطابق اللہ کے فرشتے کرتے ہیں ،
پس اللہ تعالیٰ کے اپنے فرامین مُبارکہ سے ہی یہ ثابت ہوا کہ ایسے کئی کام ہیں جو کہ اللہ کے فرشتے کرتے ہیں ، اور فرشتوں نے کیے ، لیکن اُن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات شریف سے بھی منسوب فرما کر ذِکر فرمایا ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرشتوں کے افعال کو اِس کی اپنی ذات مُبارکہ سے منسوب کر کے ذِکر فرمانے کی مزید چند مثالیں ملاحظہ فرمایے :::
﴿تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ:::یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم بالکل ٹھیک ٹھیک آپ پر تلاوت کر رہے ہیں اور بے شک آپ رسولوں میں سے ہیں﴾سُورت البقرہ(2)/آیت 252،
﴿فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ::: اور جب ہم قران کی قرأت کریں تو(آپ اُس کو توجہ سے سنیے او رپھر) اُس قرأت کی پیروی (کرتے ہوئے اُس کے مُطابق قرأت)کیجیے﴾سُورت القیامہ(75)/آیت 18،
جب کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بذات خود ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو تلاوت کر کے اپنے پیغامات اور وحی نہیں سُنائی، اور نہ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو قران قرأت کر کے سُنایا ، یہ دونوں کام اللہ کے فرشتے جبرئیل علیہ السلام کیا کرتے تھے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام کے اِس کام کو اپنی ذات پاک سے منسُوب فرما کر اپنے کام کے طور پر ذِکر فرمایا ہے ،
﴿إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَى ٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمام مُّبِينٍ::: بے شک ہم ہی مُردوں کو زندہ کریں گے،اور جو کچھ اُنہوں نے آگے بھیجا ہے اور جو کچھ پیچھے چھوڑا وہ ہم لکھتے ہیں، اور ہم نے ہر ایک چیز کو واضح کتاب میں محفوظ کر رکھا ہے﴾سُورت یٰس(36)/آیت 12،
﴿هَذَا كِتَابُنَا يَنطِقُ عَلَيْكُم بِالْحَقِّ إِنَّا كُنَّا نَسْتَنسِخُ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ:::یہ ہماری کتاب ہے جو تُم لوگوں کے سامنے(تُمہارے سب کاموں کے بارے میں ) سچ سچ بول دے گی ، جو کچھ تُم لوگ کرتے تھے ہم سب ہو بہو اُس کا نسخہ بنا لیتے ہیں ﴾سُورت الجاثیہ (45)/آیت 29،
[[[ ایک ملاحظہ ::: (نسخہ کرنا لکھنے کی صُورت میں بھی ہو سکتا ہے اور کِسی اور صُورت میں بھی ، اِس نسخہ گری کی کیفیات اللہ ہی بہتر جانتا ہے،ہمارے لیے اتنا جاننا اور اِس پر اِیمان رکھنا لازم ہے کہ اِنسانوں کا ہر ایک کام اللہ کے ہاں ہو بہو محفوظ ہو جاتا ہے جو روزء قیامت اُس کے سامنے لایا جائے گا ]]]
قارئین کرام ، ایک دفعہ پھر غور فرماتے چلیے کہ ، اِن مذکورہ بالا آیات مُبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اِنسانوں کے اقوال و اعمال لکھنے کا عمل اپنا عمل بیان فرمایا ہے جبکہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہی یہ بھی واضح فرما دِیا ہے کہ انسانوں کے افعال و اقوال کو اللہ تعالیٰ خود بذاتہ نہیں لکھتا ، اور نہ ہی بذاتہ اُن کے اعمال و اقوال کے نسخے تیار فرماتا ہے ، بلکہ ،،،،،ابھی ابھی جو آیات مُبارکہ ذِکر کی گئی ہیں اُن میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرما دِیا ہے کہ اِنسانوں کے افعال و اقوال لکھنے کا کام اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے ذمہ لگا رکھا ہے :::
﴿إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ ::: جو مکاریاں تُم لوگ کرتے ہو ، یقیناً ہمارے رُسول (فرشتے) وہ سب کچھ لکھتے ہیں﴾سُورت یُونُس(10)/آیت 21،
﴿ وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ oكِرَامًا كَاتِبِينَ o يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ ::: اور یقیناً تُم لوگوں پر محافظ (مُقرر) ہیں o عِزت اوربزرگی والے لکھاری oجو کچھ تُم لوگ کرتے ہو وہ سب جانتے ہیں﴾سُورت الانفطار(82)/آیات 10 تا 12 ،
﴿إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌo مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ ::: جب کہ (اِنسان جو کچھ کہتا ہے یا کرتا ہے) دو لکھنے والے جو دائیں بائیں بیٹھے ہوتے ہیں ، لکھ لیتے ہیںoوہ جو کوئی بات بھی ز ُبان پر لاتا ہے تو ایک چاک و چوبند نگران اُس کے پاِس تیار ہوتا ہے﴾سُورت ق(50)/آیات 17، 18،
﴿أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ ::: کیا وہ لوگ یہ سمجھتےہیں کہ ہم اُن کی خفیہ باتیں اور شرگوشیاں نہیں سُنتے ، بلکہ ہمارے رُسول (فرشتے)اُن لوگوں کے پاِس لکھ رہے ہوتے ہیں﴾سُورت الزُخرف(43)/آیت 80،
یعنی اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے رسول فرشتے لوگوں کے پاِس ہوتے ہیں اور اِس قدر پاِس ہوتے ہیں کہ لوگوں کے راز اور سرگوشیاں تک جانتے ہیں اور لکھتے ہیں ،
پس فرشتوں کے کاموں کو اپنی ذات پاک کے کام کے طور پر ذِکر کرنے کی مثالوں میں سے یہ بھی ہے،
﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ::: اور ہم اُس کی شہ رگ سےبھی زیادہ اُس کے قریب ہیں﴾سُورت ق(50)/آیت 16،
اور یہ بھی ﴿ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ::: اور ہم تُم لوگوں کی نسبت اُس (مرنے والے)کے زیادہ قریب ہوتے ہیں﴾سُورت الواقعہ(56)/آیت 85،
پس اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مُبارکہ کے ہی مُطابق یہ ثابت ہوتا ہے کہ اِن دو آخر الذکر آیات مُبارکہ میں مذکور قُرب عِلم پر مبنی ہے اور فرشتوں کے ذریعے ہے نہ کہ بذاتہ ، سُبحانہ ُ و تعالیٰ ہے ،
تو حاصل کلام یہ ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا کِسی کے قریب ہونا ، کِسی کے ساتھ ہونا اُس کی ذات شریف کے ذریعے نہیں ہوتا ، بلکہ اُس کی صِفات ، فرشتوں ، قوتوں ، قدرتوں ، حِکمتوں، کے ذریعے ہوتا ہے،
اور یہ ہی حق ہے کیونکہ اللہ تعالٰی کے بے شمار فرامین اِس کی دلیل ہیں ، اور یہ ہی حق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اپنی تمام تر مخلوق سے الگ ، جُدا ، اور بلند اپنے عرش سے اُوپر ہونے کی خبروں کے عین مُطابق ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::: لُغوی طور پر لفظ "”” مع”””یعنی "””””” ساتھ "”” کا اِستعمال ::::::
اللہ العلیُّ القدیر کے بہت سے فرامین کے مُطابق یہ سمجھنا ٹھیک ثابت نہیں ہوتا کہ کِسی دو یا چند شخصیات یا چیزوں کے بارے میں لفظ "”” مع "””یعنی "”” ساتھ "””کے ذِکر سے اُن شخصیات یا چیزوں کا اپنے اپنے وجود کے ساتھ ایک دُوسرے کے ساتھ ہونا ہے ،
اللہ جلّ وعُلا کے کلام مُبارک میں لفظ””” مع "”” یعنی "”” ساتھ "”” کا ہر جگہ یہ مفہوم نہیں لیا جا سکتا ،
الحمد للہ میں یہ قانون کئی مجالس میں سمجھا چکا ہوں کہ کِسی معتدد المفاہیم حرف کے مفہوم کا تعین صِرف اُس کے کِسی ایک لُغوی معنی کی بنا پر ہی اخذ کیا جانا عموماً غلط ہوتا ہے ،
ضروری ہے کہ ایسے حرف کے مفہوم کا تعین اُس کے سیاق و سباق کے مُطابق ، اور جِس موضوع اور مسئلے کے بارے میں وہ نص ہو جِس کا مُطالعہ کیا جا رہا ہو، اُس موضوع اور مسئلے سے مُتعلق دیگر نصوص کو سامنے رکھتے ہوئے ، کیا جائے ،
اور جب بات اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات و صِفات کی ہو، یا اُن سے مُتعلق ہو تو پھر تو خُوب اچھی طرح سے یہ سمجھ رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی صِفات اُس کی ذات پاک کی شان کے مُطابق ہیں ، کِسی بھی مخلوق کی صِفات کے مُطابق اللہ تعالیٰ کی صِفات کو سمجھنے کو کوشش سوائے گمراہی کے اور کچھ دینے والی نہیں ہوتی ،
آیے اللہ جلّ جلالہ کے کچھ اور ایسے فرامین مُبارکہ کا مُطالعہ کرتے ہیں جِن میں””” مع "”” یعنی "””ساتھ””” اِستعمال فرمایا گیا ہے ،
اِن شاء اللہ آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ "””کِسی دو یا چند شخصیات یا چیزوں کے بارے میں لفظ "مع ” یعنی "ساتھ "کے ذِکر سے ہر گِز یہ لازم نہیں ہوتا کہ وہ شخصیات یا چیزیں اپنے اپنے وجود کے ساتھ ایک دُوسرے کے ساتھ مُوجُود تِھیں ، یا ہیں ، یا ہوں گی "””،
::::::: اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے :::
﴿الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ:::وہ لوگ جو پیروی کرتے ہیں (ہمارے اِس ) نبی کی ، جولکھنا پڑھنا نہیں جانتا، (اور)جِس (کے ذِکر)کو وہ لوگ اپنے پاِس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، اور وہ (رسول)اُن لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے ، اور اُن کے لیے پاک چیزیں حلال قرار دیتا ہے اور ناپاک چیزیں حرام قرار دیتا ہے ، اور اُن لوگوں پر جو کچھ بوجھ اور طوق تھے اُنہیں اُتارتا ہے ، لہذا جو لوگ اُس (رسول) پر اِیمان لائے اور اُس کی عِزت کی اور اُس کی مدد کی ، اور اُس روشنی کی پیروی کی جو روشنی اِس رسول کے ساتھ اُتاری گئی ، یہ ہی کامیابی پانے والے لوگ ہیں﴾سُورت الاعراف(7)/آیت 157،
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ کوئی روشنی نازل ہوئی تھی ؟؟؟؟؟
قران کریم کے ناموں میں سے ایک نام "””النور””” ہے ، اور اِس آیت مُبارکہ میں "”” النور "””سے مُراد قران کریم ہی ہے ، لیکن ، قران کریم بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک لمبے عرصے میں تھوڑا تھوڑا کر کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف وحی کے ذریعے اِرسال فرمایا ، ایک کتاب کی صورت میں ، یک دم اُن صلی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ اِس طرح نازل نہیں فرمایا جِس طرح لوگ لفظ "””مع "””یعنی "””ساتھ””” کا ایک ہی مفہوم لے کر اللہ تبارک وتعالی کی ذات پاک کو ہر جگہ مُوجُود سمجھتے ہیں ،
::::::: اللہ پاک کا اِرشاد ہے :::
﴿وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا :::اور اُس(قیامت والے) دِن ظلم کرنے والا کہے گا کہ کاش میں نے رسول کے ساتھ(اللہ کی) راہ اپنائی ہوتی﴾سُورت الفُرقان(25)/آیت 27،
کیا اِس آیت مُبارکہ میں صِرف اُنہی لوگوں کا ذِکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ اُن کے زمانہ میں تھے اور اُنہوں نے اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ اللہ کی راہ نہیں اپنائی ؟؟؟؟؟
جی نہیں ، اور ہر گِز نہیں ، اِس آیت مُبارکہ میں قیامت والے دِن سب ہی ظالموں کے احوال میں سے ایک حال بیان فرمایا گیا ہے ، اِ س میں وہ لوگ خارج نہیں کیے جاِسکتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھے ،بلکہ قیامت تک آنے والے ہراِس شخص کا یہ قول ہو گا جِس شخص تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا پیغام پہنچا اور اُس نے اُس پیغام کی اِتباع نہیں کی ،
::::::: دیکھیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام اور ملکہ ء سبا کے واقعے میں ملکہ سباء کے اِیمان لانے کا ذِکر اُسی کے اِلفاظ کے طور پر یوں بیان فرمایا ہے ﴿قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاِسلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ:::اُس نے کہا ، اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ، اور میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی تابع فرمان ہوئی﴾سُورت النمل (27)/ آیت 44،
تو کیا سلیمان علیہ السلام نے اُسی وقت اِسلام قُبول کیا تھا ، جو ملکہء سباء نے یہ کہا کہ میں سلیمان (علیہ السلام)کے ساتھ اِسلام قُبول کرتی ہوں ؟؟؟؟؟
جی نہیں ، ملکہ سباء نے تو سلیمان علیہ السلام کے اِیمان کے سالہا سال بعد اِیمان قبول کیا ، اور نہ ہی ملکہ سباء سلیمان علیہ السلام کے ساتھ اللہ کی تابع فرمانی میں برابر ہو سکتی تھی ،
اللہ جلّ جلالہ ُ کا فرمان ہے :::
::::::: ﴿وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ :::اور آپ کے چچا وتایا کی بیٹیاں ، اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں ، اور آپ کے ماموؤں کی بیٹیاں ، اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں ، وہ (کزنز، بلکہ فرسٹ کزنز)جِنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی﴾سُورت الاحزاب (33) /آیت 50 ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی کزنز میں سے کس نے ہجرت کی تھی ؟؟؟؟؟
کِسی نے بھی نہیں ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کرنے والے تو صِرف اور صِرف خلیفہ أول بلا فصل أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ تھے ،
[[[ اِس مذکورہ بالا آیت شریفہ کو اپنی عقل کے ڈسے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے کچھ ایسے انداز میں سمجھا کہ تقریبا ً ساری ہی اُمت کو حرام کار قرار دے دیا ،یہ نام نہاد خود ساختہ قران فہمی کے شگوفوں میں سے ہے ، تفصیل کے لیے ‘‘‘‘‘ کزنز کے ساتھ شادی بلا شک و شبہ جائز ہے ’’’’’ کا مُطالعہ فرمایے ، اِن شاء اللہ فائدہ مند ہو گا ،
آن لائن مُطالعہ کا ربط درج ذیل ہے : http://bit.ly/RpoQEO ]]]
اگلی آیت کی طرف چلتے ہیں ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا اِرشاد پاک ہے :::
::::::: ﴿ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاِس بِالْقِسْطِ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَاِس شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاِس وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ :::یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں اور احکام کے ساتھ بھیجا ، اور اُن کے ساتھ کتاب اور ترازو نازل کیا تا کہ وہ لوگوں کو اِنصاف کے ساتھ کھڑا کریں ، اور ہم نے لوہا نازل کیا جِس میں سخت نقصان (بھی)ہے اور لوگوں کے لیے فائدے(بھی) ہیں ، اور اِس لیے کہ اللہ یہ جان لے کہ کون اللہ اور اِس کے رسولوں کو دیکھے بغیر اُن کی مدد کرتا ہے، بے شک اللہ قوت والا اور زبر دست ہے﴾سُورت الحدید(57)/آیت 25،
کیا کِسی بھی نبی اور رسول علیہم السلام کے ساتھ کوئی کتاب یا کوئی ترازو اُتارا گیا تھا ؟؟؟؟؟
جی نہیں ، انبیاء اور رسولوں علیہم السلام کو اللہ کے پیغامات دیے جاتے تھے ، موسیٰ علیہ السلام کو لکھی ہوئی تختیاں دی گئیں ، لیکن کِسی بھی نبی یا رسول علیہم السلام کے ساتھ کوئی بھی کتاب یا ترازو نازل نہیں ہوا ،
پس اللہ جلّ و علا کے اِن فرامین مُبارکہ سے یہ پتہ چلا کہ "””کِسی دو یا چند شخصیات یا چیزوں کے بارے میں لفظ "مع ” یعنی "ساتھ "کے ذِکر سے ہر گِز یہ لازم نہیں ہوتا کہ وہ شخصیات یا چیزیں اپنے اپنے وجود کے ساتھ ایک دُوسرے کے ساتھ مُوجُود تِھیں ، یا ہیں ، یا ہوں گی "””،
یہاں میں اپنی بات ایک دفعہ پھر دُہراتا ہوں کہ کِسی معتدد المفاہیم حرف کے مفہوم کا تعین صِرف اِس کے کِسی ایک لُغوی معنی کی بنا پرہی کیا جانا عموماً غلط ہوتا ہے ،
ضروری ہے کہ ایسے حرف کے مفہوم کا تعین اُس کے سیاق و سباق کے مُطابق ، اور جِس موضوع اور مسئلے کے بارے میں وہ نص ہو جِس کا مُطالعہ کیا جا رہا ہو، اُس موضوع اور مسئلے سے مُتعلق دیگر نصوص کو سامنے رکھتے ہوئے ، کیا جائے ،
اور جب بات اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات و صِفات کی ہو، یا اُن سے مُتعلق ہو تو پھر تو خُوب اچھی طرح سے یہ سمجھ رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی صِفات اُس کی ذات پاک کی شان کے مُطابق ہیں ، کِسی بھی مخلوق کی صِفات کے مُطابق اللہ تعالیٰ کی صِفات کو سمجھنے کو کوشش سوائے گمراہی کے اور کچھ دینے والی نہیں ہوتی ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اِس مضمون کے ابتدائی حصے میں معیت کی دو اِقسام کا اجمالی ذِکر کیا تھا ، اب اُن کے بارے میں کچھ مختصر لیکن اِن شاء اللہ کفایت کرنے والی شرح بھی بیان کرتا ہوں ،
::::::: (1) :::::::: عمومی معیت ::::::::
یہ ایسی معیت ہے جو ساری مخلوق کے لیے عمومی ہے ، جِس کا ذِکر اُن تمام آیات کریمات میں ہے جو پہلے ذِکر کی گئی ہیں ، جِن کے دُرُست فہم کی روشنی میں اُن کے نا دُرُست فہم کو واضح کرنے لیے یہ مضمون لکھا جا رہا ہے ،
::::::: (2) ::::::: خصوصی معیت ::::::::
یہ ایسی معیت ہے جِس کی خبر اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں کچھ خاص صِفات رکھنے والے لوگوں کے لیے ذِکر کیا ہے ، مثلاً اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے فرمایا ہے :::
﴿وَأَنَّ الله مَعَ الْمُؤْمِنِينَ:::اور یقیناً اللہ اِیمان والوں کے ساتھ ہے﴾سُورت الانفال(8)/آیت 19،
﴿أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ::: یقیناً اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے﴾سُورت البقرہ(2)/آیت 194،
﴿إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ ::: بے شک اللہ اُن کے ساتھ ہے جو (اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے) بچتے ہیں ، اور جو اِحسان کرنے والے ہیں﴾سُورت النحل(16)/آیت 128،
﴿إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ:::بے شک اللہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے﴾سُورت البقرہ(2)/آیت 153،
﴿قَالَ لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا اِسمَعُ وَأَرَى::: اللہ نے فرمایا ، تُم دونوں ڈرو نہیں ، بے شک میں تُم دونوں کے ساتھ ہوں ، (اِس طرح کہ)سُنتا ہوں اور دیکھتا ہوں﴾سُورت طہٰ (20)/آیت 46،
مذکورہ بالا پانچ آیات شریفہ میں سے آخر الذِکر آیت مُبارکہ اِس مسئلے کی ایک اور دلیل ہے ، اور بڑی واضح اور قاطع دلیل ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ اُس کی سماعت اور بصارت کے ذریعے ہوتا ہے ، نہ کہ اِس کی ذات مُبارک کے ساتھ ، یعنی اپنے بندوں کے ساتھ اِس طرح ہوتا ہے کہ اُن کی ہر بات ، ہر ظاہری اور باطنی قول اور فعل دیکھتا اور سُنتا ہے ،
یعنی ، اپنے عِلم کے ذریعے اُن کا اِس طرح احاطہ رکھتا ہے کہ اُن کا کوئی بھی ظاہری اور باطنی فعل اللہ کے عِلم سے خارج نہیں ہوتا ،
جِس کی ایک اور دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے کہ ﴿ قَالَ كَلَّا فَاذْهَبَا بِآيَاتِنَا إِنَّا مَعَكُمْ مُسْتَمِعُونَ::: (اللہ نے ) فرمایا ہر گز نہیں ، لہذا تُم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ ، ہم تمہارے ساتھ ہیں ، سُنتے ہوئے﴾سُورت الشُعراء (26)/آیت 15۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی بات کے آغاز میں ، اپنے اِس مضمون کے آغاز میں ، اپنی کتاب "”” اللہ کہاں ہے ؟ "”” کے حوالے سے میں نے سُورت الحدید کی آیت رقم 4 کا ذِکر کیا تھا ،
اور اب ، اللہ پاک کے اِسی فرمان پر اپنی اِس بات کا اختتام بھی کرتا ہوں ، اور اختتامی کلمات کے طور پر کہتاہوں کہ اللہ جلّ و عزّ کے اِس فرمان پر کچھ توجہ فرما ہی لیجیے گا کہ ﴿ هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اِستَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ::: اللہ وہ ہے جِس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق چھ دِن میں کی پھر عرش پر قائم ہوا وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ زمین سے نکلتا ہے ، اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور آسمان میں چڑھتا ہے اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو وہ تم لوگوں کے ساتھ ہے اور جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو اللہ وہ سب دیکھتا ہے﴾سُورت الحدید(57)/آیت4،
اِس آیت مُبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے عرش سے اوپر اِستویٰ فرمانے اور معیت کا ذِکر ایک ہی آیت میں فرمایا ہے، اور ایک دونوں صِفات کو تسلسل و تواصل کے ساتھ ذِکر فرمایا ہے ، جِس کے ذریعے اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ بذاتہ الشریف تو اپنے عرش سے اُوپر ، اپنی تمام تر مخلوق سے جُدا اور الگ ہے ، لیکن اپنے عِلم و قُدرت کے ذریعے اپنی ساری ہی مخلوق کے تمام افعال کا عِلم اِس طرح رکھتا ہے کہ گویا وہ اپنےبندوں کے ساتھ ہے، اور یہ ہی ہے اللہ جلّ جلالہُ کی معیت، اللہ کا ساتھ ہونا، جب کہ وہ اپنی ذات پاک کے ساتھ اپنی تمام تر مخلوق سے الگ ، جُدا اور بُلند اپنے عرش سے اُوپر ہے ۔و الحمد للَّہ الذی لا تتم الصالحات إِلّا بعونہ، والسلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کتابت : 26/01/1434ہجری، بمُطابق،10/12/2012عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث : 12/12/1437ہجری،بمُطابق،13/09/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مضمون پہلی بار ، کچھ فورمز پر، محرم 1434،بمُطابق دسمبر2012 میں نشر کیا تھا، تو ایک دو میفد سوالات بھی کیے گئے تھے،
وہ سوال و جواب یہاں بھی شامل کیے دے رہا ہوں ، اِن شاء اللہ مزید فائدے کا سبب ہوں گے ،
::: سوال :::
جزاک اللہ ،
اللہ تبارک و تعالی کا قرآن و حدیث میں جہاں بھی ہاتھ پاؤں کا ذِکر ہوا تو وہاں مُراد ہاتھ اور پاؤں ہی لیے جاتے ہیں بغیر کسی تاویل کے اوراُس کی کوئی تشبیہ اور کیفیت بیان نہیں کی جاتی ،
اُلجھن یہ ہے کہ جب اللہ کی معیت کا بیان ہوتا ہے تو یہاں ظاہری معنی نہیں لیے جاتے بلکہ تاویل کی جاتی ہے ،
جو حضرات استوی علی العرش کو بمعنی عُلو و طاقت سے تاویل کرتے ہیں اور ظاہری معنی میں نہیں لیتے اُن کی دلیل یہ ہے کہ عرش محدود ہے اور اللہ تبارک و تعالی کی ذات لامحدود تو محدود میں لا محدود نہیں سماسکتا اس لیے وہ تاویل کرتے ہیں،
تو جب اللہ کی معیت کی بات ہوتی ہے تو اُس کو ظاہری معنوں میں کیوں نہیں لیا جاتا کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے بغیر کسی تاویل کے اور نہ ہی کوئي تشبیہ اور کیفیت بیان کی جائے ، یہاں یہ تاویل کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ اللہ کی معیت کا مطلب بطور علم کے ہے ؟
::: جواب :::
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،
اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو بھی بہترین اجر سے نوازے بھائی ،
میرے بھائی ، اگر "تأویل ” سےآپ کی مُراد کِسی لفظ یا بات کا غیر حقیقی مفہوم ہے تو ، اللہ جّل جلالہُ کی معیت کے بارے میں ہم نے ایسی کوئی تأویل نہیں کی ،
اور اگر "تأویل ” سےآپ کی مُراد تفسیر ہے تو میرے بھائی ، میں نے اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی معیت کی تفسیر اللہ تعالیٰ کے فرامین کی روشنی میں ہی پیش کی ہے ، جو کہ "”” ،معیت اللہ "”” کا حقیقی مفہوم ہے کیونکہ اللہ جلّ و عُلا کے فرامین کے مُطابق ہے ،
اگر اللہ تعالیٰ کی معیت کو لفظ "”” مع "”” کے عام معروف لُغوی معنی میں مُقید کر کے سمجھا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے اُن سارے ہی فرامین کا معیت والے فرامین سے تضاد لازم آتا ہے ، جن فرامین میں اللہ العلیُّ القدیر نے اپنی ذات مُبارک کے اپنی تمام مخلوق سے الگ ، جُدا اور بلند ہونے کی خبریں عطاء فرمائی ہیں ،
اور اگر اِن دونوں قِسم کی خبروں میں اِتفاق کی صُورت کے مُتعلق چھان بین کی جائے تو ہمیں اللہ یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ایسی کوئی خبر نہیں ملتی جو یہ سمجھا سکے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام تر مخلوق سے الگ، جُدا اور بلند اپنے عرش سے اُوپر مستوی بھی ہے اور اپنی ذات پاک کے ساتھ اپنی مخلوق کے ساتھ بھی ہے ،
رہا معاملہ اللہ جلّ و عُلا کی ذات مُبارک کے "”” مستوی علی العرش "”” ہونے سے عُلو اور طاقت مُراد لینا ، تو اِس میں سے عُلو والی بات تو دُرست ہے کیونکہ اِسے آیات قرانیہ اور احادیث صحیحہ کی موافقت مُیسر ہے جِن کا ذِکر میری کتاب "”” اللہ کہاں ہے ؟ "”” میں کیا جا چکا ہے ،
لیکن اِس سے مُراد "”” طاقت "”‘ لینے کی قران کریم اور صحیح سُنّت مُبارکہ میں سے کوئی دلیل میسر نہیں ہوتی ، لہذا اس مُراد کو "”” تأویل "”” بمعنی””” حقیقت سے پھیرنا "”” کہا جائے گا ،
اِس قسم کی غلط فہمی کا سبب اُس عبارت میں ہی عیاں ہے جو آپ نے ذِکر کی ہے کہ :::
"””جو حضرات استوی علی العرش کو بمعنی عُلو و طاقت سے تاویل کرتے ہیں اور ظاہری معنی میں نہیں لیتے اُن کی دلیل یہ ہے کہ عرش محدود ہے اور اللہ تبارک و تعالی کی ذات لامحدود تو محدود میں لا محدود نہیں سماسکتا اس لیے وہ تاویل کرتے ہیں،”””
یہ مذکورہ بالا بات کہنے والوں کو غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ عرش سے اُوپر بھی کوئی محدُود مکان ہے ، لہذا اگر اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی ذات مُبارک کو عرش سے اُوپر مستوی مانا جائے تو یہ لازم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ایک محدُود میں مُقید ہو گیا،
الحمد للہ ، اللہ کی توفیق سے اپنی کتاب "””اللہ کہاں ہے ؟ "”” میں اِس شبہے کے بارے میں بھی کافی وضاحت پیش کر چکا ہوں ،
محترم بھائی ، اللہ سُبحانہ ُ وتعالیٰ کے فرامین مُبارکہ کو سب سے پہلے اللہ ہی کے فرامین کے ُمطابق سمجھنا حق ہوتا ہے اور پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سنت مُبارکہ کے مُطابق سمجھنا ، اللہ کے فرامین کو سمجھنے کے لیے لُغوی معانی اور مفاہیم بھی وہی دُرُست مانے جاتے ہیں جنہیں اللہ یا اُس کے رسول صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کی طرف سے تائید میسر ہو ،
میں نے اپنے مضمون میں دو دفعہ لکھا ہے کہ :::
"”” کِسی معتدد المفاہیم حرف کے مفہوم کا تعین صِرف اُس کے کِسی ایک لُغوی معنی کی بنا پر ہی اخذ کیا جانا عموماً غلط ہوتا ہے ،
ضروری ہے کہ ایسے حرف کے مفہوم کا تعین اُس کے سیاق و سباق کے مُطابق ، اور جِس موضوع اور مسئلے کے بارے میں وہ نص ہو جِس کا مُطالعہ کیا جا رہا ہو، اُس موضوع اور مسئلے سے مُتعلق دیگر نصوص کو سامنے رکھتے ہوئے ، کیا جائے ،
اور جب بات اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات و صِفات کی ہو، یا اُن سے مُتعلق ہو تو پھر تو خُوب اچھی طرح سے یہ سمجھ رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی صِفات اُس کی ذات پاک کی شان کے مُطابق ہیں ، کِسی بھی مخلوق کی صِفات کے مُطابق اللہ تعالیٰ کی صِفات کو سمجھنے کو کوشش سوائے گمراہی کے اور کچھ دینے والی نہیں ہوتی "””
لہذا میرے بھائی اللہ کی معیت کا دُرُست مفہوم لفظ "مع” کے عام معروف لُغوی معنی کی قید میں رہتے ہوئے نہیں سمجھا جاسکتا ، اور نہ ہی اللہ جلّ شانہُ کی ذات اور صِفات کو اُس کی مخلوق کی ذاتوں اور صِفات کے معایر کے مُطابق سمجھا جا سکتا ہے،
پس میں نے "معیت اللہ” کی کوئی ایسی تأویل نہیں کی جو اللہ کے کلام کے مُطابق نہ ہو ،
اگر آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ میں نے جو معلومات پیش کی ہیں وہ اللہ کے کِسی فرمان مُبارک کی روشنی میں دُرُست نہیں ہیں ، تو وضاحت سے سمجھایے ، اللہ تعالیٰ آپ کو اِس کا بہترین أجر عطاء فرمائے ،والسلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
A4 سائز میں :
۔۔۔۔۔۔۔۔
A5سائز میں :
۔۔۔۔۔۔۔
بلاگ پر لنک: https://adilsuhail.blogspot.co.uk/2016/09/blog-post_87.html