تحریر: شیر سلفی
ملحدین کو دعوت فکر، قرآن حدیث بعد میں!! آج صرف عقل پر بات کرتے ہیں۔ملحدین کو دعوت فکر۔
شائد میری اس پوسٹ میں کچھ سخت یا ایسے الفاظ آ جائیں۔ جو کسی کے لیے عجیب و غریب ہوں۔ اس کے لیے معذرت۔۔۔
ہر ہر ملحد جو خدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتا۔۔ وہ یہ تحریر پڑھے۔۔ اور جو کچھ شک میں ہوں وہ بھی۔
آپ باتھ روم جائیں اور کپڑے اتاریں۔ تو زرا شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے جسم کے ایک ایک حصے پر غورو فکر کریں۔
اسی دوران آپ پاخانے کے لیے بیٹھ جائیں۔ میں یہاں کسی ٹائپ کے کموڈ کو بیچ میں نہیں لانا چاہتا۔۔ نہ انگریزی کرسی والا کموڈ نہ انڈین کموڈ، جو ہمارے ہاں عام ہے۔۔
بلکہ آپ باتھ روم کی زمین ۔۔فلور پر بیٹھ جائیں اور پاخانہ شروع کر دیں۔۔
اب اپ پاخانہ کرتے جائیں۔۔ اور جو کھایا تھا وہ ہضم ہو کر ایک خاص شکل بن کر نکل رہا ہے۔ بس نکالتے جائیں۔
اب اپ غور کریں کہ آپ کی ٹانگیں نیچے پیروں سے لے کر اوپر گھٹنوں تک لمبی ہیں۔ یعنی گھٹنا۔ پنڈلی۔ اور پاوں۔
اور گھٹنے سے دوبارہ ہپ (hip) یا وہ سوراخ جہاں سے پاخانہ نکل رہا ہے وہاں تک کی سائیڈ چھوٹی ہے۔ یعنی گھٹنے اور رانوں سے دبر تک کی جگہ بیٹھنے کے بعد زمین کی سطح سے اوپر ہوتی ہے۔۔۔ اور اس حصے کی لمبائی (اس پہلے حصے سے جو گھٹنے سے پیروں تک تھا) کم ہے۔۔
اب ایسا کیوں ہے بھلا۔ چلیں چھوڑیں آگے چلیں۔
کیونکہ جب آپ بیٹھتے اور دونوں کی لمبائی ایک جتنی ہوتی تو آپ کی دبر یا سوراخ والی جگہ بھی زمین سے ٹچ ہوتی۔ لیکن جب پاخانے کے لیے عام انڈین کموڈ والے سٹائل میں بیٹھیں تو آپ کی دبر (پاخانے والی جگہ) زمین کی سطح سے اونچی ہے تاکہ زمین پر آپ کی دبر نہ لگے اور جو نکل رہا ہے وہ آپ کے جسم کے ساتھ لگ کر گند نہ بنے۔۔اور آرام سے نکل بھی سکے ۔
۔ورنہ کبھی کیچپ جو پلاسٹک تھیلی یا پلاسٹک بوتل میں آتا ہے۔ اس کے ایک سائڈ میں سوراخ کرکے ۔ پھر سوراخ والی جگہ کو زمین پر رکھ کر کیچپ نکالیں۔ کیا صورتحال بنتی ہے۔ وہی باتھ روم میں بھی ہوتی۔
اب آئیں۔ دوسرا تجربہ کریں۔۔ جب آپ سب کچھ کر چکے تو ہاتھ پیچھے لے کر جائیں صفائی کے لیے تو وہ چھوٹا نہیں ہے۔ آپ کی انگلیاں ٹھیک سوراخ پر ٹک رہی ہیں۔ اب آپ آرام سے صفائی کریں۔ جب ہاتھ آگے لے کر جائیں۔ پیشاب والی جگہ صاف کرنے کے لیے تو وہاں بھی پہنچ رہے ہیں۔
یہ فکس لمبائی کہاں سے آ گئی کس نے ایسا ناپ لے کر یہ ہاتھ بنایا ہے کہ سوراخ تک پہنچ جاتا ہے۔
کیا یہ ارتقا ہے کیسا سوچا سمجھا اور پلینڈ ارتقا ہے۔؟؟؟
بہرحال آگے چلتے ہیں۔
تھوڑا مزید سوچیں کہ جب آپ پاخانہ نکال رہے تھے تو ایسا نہیں ہوا جیسے کوئی بوری بند آٹا یا گندم ہو اور کسی نے الٹی کرکے انڈیل دی ہو۔
ہونا تو ایسا چاہیے تھا کہ آپ کا پیٹ بوری تھا۔ سب کچھ جیسے کھایا تو نیچے سوراخ تھا جو کھلا ہوا ہے وہاں سے فورا نکل جاتا یا گر جاتا۔ نہیں بلکہ اپ کے اختیار میں ہے کہ کس طرح اور کتنا اور آرام سے اسکو نکالنا ہے۔ اور وہ ایک خاص سپیڈ سے آئستہ سے نکل رہا ہے۔۔
کیا یہ ارتقا ہے کیسا سوچا سمجھا اور پلینڈ ارتقا ہے۔؟؟؟
چلیں آگے چلتے ہیں۔ اب اٹھ جائیں اور تھوڑا شیشے میں دیکھ کر یہ سوچیں کہ یہی پاخانے کا سوراخ اگر میری کمر کے درمیان گردن سے کچھ نیچے ہوتا جہاں کبھی کبھی خارش ہو تو ہاتھ نہیں پہنچتا۔
تو زرا ہاتھ وہاں پہنچا کر صفائی کریں کیسی ہوگی۔ اور اس پاخانے کو نکالنے کے لیے کونسی پوزیشن میں بیٹھنا یا لیٹنا پڑتا۔
اب آگے چلیں۔ ابھی منزل باقی ہے۔
اب شیشے میں کھڑے ہو کر اپنے ننگے بدن کو غور سے دیکھیں۔ اور یہ جو دو ٹانگوں کے درمیان پیشاب کی جگہ ہے۔ اسی طرح عورتوں کے ساتھ بھی ہے۔ تو تھوڑا دماغ پر زور ڈالیں جو بند ہو چکا ہے۔ کہ یہ کیسا ارتقا تھا کہ ایک جسم بنتا ہے مرد کا۔۔ اس میں فکس ٹانگوں کے درمیان ایک چیز نکل کر آتی ہے۔
پھر اسی کے مقابل کی اسی پوزیشن اور پوائنٹ پر عورت کی شرمگاہ بھی وجود میں آتی ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہوا۔ کہ آپ کی شرمگاہ کان کے ساتھ لٹک رہی ہے یا ناک کے اوپر لگی ہوئی ہے۔ اور عورت کی پاوں کی نیچے بن جائے۔۔ دونوں ایک جگہ ایک پوائنٹ پر کیوں۔
کیا یہ ارتقا ہے! واہ۔۔ کیسا سوچا سمجھا اور پلینڈ ارتقا ہے۔؟؟؟
چلیں آگے چلتے ہیں۔ اب دونوں ہاتھوں کو سیدھا کرکے دونوں کی انگلیاں آپس میں ملائیں ۔۔ کسی کو بلوا کر ناپ کروا لیں۔ پہلے ہاتھ کی انگلیاں دوسرے کی انگلیوں سے ایک ملی بھی ناپ میں کم نہیں ہونگی۔ اسی طرح دونوں ٹانگوں کو بھی دیکھ لیں۔
کیا یہ ارتقا ہے! واہ۔۔ کیسا سوچا سمجھا اور پلینڈ ارتقا ہے۔؟؟؟
اسی طرح دونوں آنکھوں کا سائز۔۔ کانوں کا ایک سیدھ میں ہونا۔۔ دونوں ہونٹوں کا ایک ہونا۔۔
اچھا اب منہ کھول کر شیشے کو دیکھ کر زبان سے یہ جملے بولیں۔
"میں اتنا پاگل کیوں ہوں۔ میں ملحد کیوں ہوں۔کیا یہ ارتقا ہے ۔ کیسا عجیب ارتقا ہے۔ کیا یہ سب خود بنا۔ نہیں یہ کسی نے بنایا ہوگا "
اور زبان کو ہلتے دیکھیں کہ وہ کیسے دانتوں سے بچ بچ کر کبڈی کھیل رہی ہے دانتوں کو ڈاچ دے رہی ہے۔ اور آواز نکال رہی ہے۔ کہ کوئی دانت اس کو پکڑ نہیں پا رہا۔
اب زرا اسی زبان کو انگلیوں سے پکڑ لیں۔ اور پھر یہی جملہ بولیں تو آپ کو شائد ہممم۔ہوں ہوں ہنہ ہممم ممممم ہمم
کے علاوہ کچھ سنائی نہ دے۔
میں تحریر لمبی ہونے کے ڈر سے مزید لکھنا نہیں چاہتا۔ ورنہ ایسی سینکڑوں مثالیں دیتا رہوں۔
یہ تو صرف کچھ باہر کی چیزیں ہیں انسانی جسم میں۔ پھر دماغ دیکھیں۔ اس میں سسٹم دیکھیں۔ رگیں۔ خون۔ نالیاں۔ انتڑیاں۔ گردے۔ دل۔ معدہ۔ سب کا اپنا ایک مخصوص فنکشن۔
خون کا نظام۔ پھیپڑوں کا نظام۔ ہڈیاں۔ انگلیوں کے ایک ایک جوڑ۔۔ وغیرہ
اب پھر اپنے سے سوال کریں۔
کیا یہ ارتقا ہے! واہ۔۔ کیسا سوچا سمجھا اور پلینڈ ارتقا ہے۔؟؟؟
اگر یہ ارتقا ہے تو یہ ارتقا کسی غریب کے لیے کیوں نہیں ہو جاتا کہ رات تکیے کے نیچے پڑا 50 کا نوٹ صبح ہزار ہزار کے نوٹ بنتے چلے جائیں۔
میرے کمپیوٹر کی ریم 10 سال سے 2 جی بی ہے۔ خدارا یہ ارتقا یہاں وقوع پذیر کیوں نہیں ہو جاتا کہ یہ 64 جی بی ہو جائے تاکہ میں آسانی سے کام کر سکوں۔
چلو اپ کا ایک اعتراض یہاں آ سکتا ہے کہ اس کے لیے ایک مخصوص ماحول اور مدت چاہیے۔ مجھے وہ جگہ بتا دیں تاکہ ہم سب وہاں لیپ ٹاپ رکھیں اور ویسے ماحول میں اس کی ریم بڑھتی جائے۔
اب آپ ہاتھوں کے دونوں انگوٹھوں کو بھول جائیں اور سمجھیں وہ ارتقا میں ساتھ آئے ہی نہیں تھے۔اور صرف چار انگلیوں کی مدد سے اب موبائیل جیب میں ڈال کر دوبارہ نکالیں۔ اس کی سم نکال کر دوبارہ ڈالیں۔
اور سوچیں
کیا انگوٹھوں کے بغیر کوئی کام کر سکتے ہیں۔؟؟
اور کیا یہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کا برابر ہونا یہ سب ارتقا ہے! واہ۔۔ کیسا سوچا سمجھا اور پلینڈ ارتقا ہے۔؟؟؟
ایک غریب ساری عمر کماتا ہے۔ بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ لیکن وہ 100 روپے کما کر ایک بکسے میں رکھ دیتا ہے۔ کہ اس سے کچھ جمع ہوگا تو بیٹے بیٹی کی شادی کروں گا یا اپنا گھر بناوں گا۔ وہ پیسے پڑے پڑے ارتقا کی صورت میں کبھی اس کی امید نہیں بنے کہ 100 سے 10 لاکھ بن جائیں۔ لیکن اتنا کمپلیکس اور پیچیدہ نظام جو انسان کے اندر باہر موجود ہے وہ ایک ارتقا ہے۔۔
اب آپ اوپر بیان کردہ مثالوں میں یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ بعض آدمی کا ہاتھ کٹا ہوتا ہے یا وہ پیدائشی معذور ہوتا ہے۔ اس کا کیا ہوگا۔
تو ہم کہتے ہیں یہی تو رب کی ایک اور نشانی ہے کہ وہ کسی کسی کو ابنارمل(فطرت سے ہٹ کر) پیدا کرتا ہے۔ ورنہ یہ اعتراض آپ پر ہے کہ سائنس کہتی ہے لاز آف فزکس یا نیچر کے قوانین ایک جیسے رہتے ہیں یہ بدل نہیں سکتے۔ جبکہ ہم دیکھتے کہ یہ بدل جاتے ہیں۔
میں آخر میں تمام ملحدین کو دعوت فکر دیتا ہوں۔
خدارا 80 سال زندگی اب ایک ملحد کا مقدر ہو۔ تو وہ تو اس نے گزارنی ہی گزارنی ہے۔
خدا کے انکار سے وہ ہزار 1000 سال کا تھوڑی ہو جائے گا۔ ؟؟
مر تو پھر بھی 80 سال میں جانا ہے۔ اور مر جانے کا اقرار آپ کو بھی ہے۔ تو یہ 80 سال یہ سوچ کر گزار لو کہ واقعی کوئی اللہ ہے۔ کوئی خالق ہے۔ کوئی دین ہے۔ بعد میں ذلیل ہونے سے اچھا ہے ابھی آپ ذلیل (چونکہ آپ لوگ دین پر چلنے کو ذلالت سمجھتے ہیں) ہو جائیں۔۔ کیا بعد کی ابدی ذلالت اچھی ہے یا ابھی سوچ بدل لینا فائدہ مند ہے۔ ؟؟؟
چلو بالفرض بالفرض ایک لمحے کے لیے آپ فرض کر لیں کہ کوئی دین نہیں کوئی خدا نہیں۔ تو اس سے اپ کو کیا فائدہ ہو جائے گا اور مان لینے سے کہ یہ سب حقیقت ہے اس سے اپ کا کیا نقصان ہو جائے گا۔
ہم نے اللہ تعالیٰ کو اس کی نشانیوں سے پہچانا اور ڈھونڈا۔ اس کے نظام قدرت اور نشانیوں کو دیکھ کر اس پر ایمان لائے۔ باقی قرآن کا ترجمہ پڑھیں اور دل سے بغض و ضد نکال دیں۔ ان شاء اللہ ہدایت مل جائے گی۔
وما علینا الا البلاغ
نوٹ: یہ پوسٹ صرف ملحدین کو عقلی اعتبار سے دعوت و فکر دینے کے لیے لکھی گئی ہے۔
Sahibzada Abdul Hannan Shah and Salim Shahzad