وصیت کے مختصر احکام
شائع کردہ بذریعہ MAQUBOOL AHMAD
وصیت کے مختصر احکام
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(سعودی عرب)
وصیت کیا ہے؟:
میت کا وہ حکم یا کام جسے ا س کی وفات کے بعد کیا جاتا ہے اسے وصیت کہتے ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے : كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (البقرۃ: 180)
ترجمہ: تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ جانے والا ہو تو ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق وصیت کرجائے، اللہ سے ڈر نے والوں پر یہ ایک حق ہے ۔
وصیت اور ہبہ میں فرق:
وصیت کا تعلق موت سے ہے اور ہبہ کا تعلق زندگی سے اس لئے وصیت کا نفاذ وفات کے بعد ہوتا ہے اور ہبہ کا زندگی میں ہی، اور ہبہ برابر برابر تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ وصیت مختلف ہوسکتی ہے۔
وصیت کی حکمت:
آدمی زندگی بھرمحنت کرتا ہے اور پسینہ بہابہاکر مال جمع کرتا ہے اور جب مرجاتا ہے تو اس کے ورثاء اس مال سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، اس لئے آدمی کو چاہئے کہ وفات سے پہلے ورثاء کو اپنے مال میں سے بھلائی کے کاموں میں صرف کرنے کی وصیت کرجائے ۔ یہ اللہ کا بندوں پر انعام سے کم نہیں کہ اس کی وصیت کے نفاذ سے وفات کے بعد بھی ثواب ملے گا۔ اسی طرح کوئی محتاج رشتہ دار ہوجو ترکہ میں حصہ دار نہیں ہوسکتا اسے کچھ نہ کچھ وصیت کرجائے۔
وصیت کا حکم:
وصیت کا حکم احکام شرعیہ کی طرح پانچ احوال پر منحصر ہے ۔ اگر آدمی کے ذمہ بندوں کے حقوق ہیں مثلا قرض، امانت، ہڑپا ہوا مال ، چوری کی ہوئی چیز، زکوۃ وکفارہ وغیرہ تو ان حقوق کی وصیت کرنا واجب ہے ۔ اعزاء واقرباء(وارث کے علاوہ) کے لئے وصیت کرنا مستحب ہے مثلا کسی مسکین رشتہ دار یا نیکی کے کاموں کی وصیت کرنا ۔اللہ کی معصیت میں وصیت کرنا حرا م ہے جیسے کوئی بیٹے کو ڈاکو بننے کی وصیت کرے یااپنے مال سے اپنی قبر پہ مزارتعمیر کرنے کا حکم دے۔ وارث محتاج ہوتو فقیر کے لئےمال کی وصیت کرنا مکروہ ہے ۔ مالدار آدمی، مالدا ر رشتہ دار یا اجنبی کے لئے وصیت کرے مباح کے درجے میں ہے ۔
وصیت کب کرے:
آدمی اگر کہیں دوردراز کا سفر کرےمثلاسفر حج وعمرہ یا بغیر سفرکےاگراس کے پاس لوگوں کی امانتیں اور حقوق ہوں تو واجبی طور پروصیت لکھ لے اور کسی امانت دار کے پاس جمع کردےتاکہ لوگوں کے حقوق ضائع نہ ہوں ۔موت کی کسی کو خبر نہیں۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : ما حقُّ امِرئٍ مسلمٍ ، له شيءُ يُوصي فيه ، يَبِيتُ ليلتين إلا ووصيتُه مكتوبةٌ عندَه.(صحيح البخاري:2738)
ترجمہ: کسی مسلمان کے لئے جن کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی مال ہو درست نہیں کہ دو رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھے بغیر گزارے۔
لیکن اگر کسی کا کوئی حق نہ ہو تو اس صورت میں وصیت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ مستحب ہے اور اگر اللہ نے مال سے نوازا ہے تو بہتر ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں کی وصیت کرجائے تاکہ وفات کے بعد اس کا ثواب ملے ۔ یاد رہے وصیت ثلث مال سے زیادہ کی نہیں کرسکتا ۔
وصیت لکھنے کا طریقہ:
شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے وصیت لکھنے کا طریقہ اس طرح لکھا ہے کہ میں فلاں وصیت کرنے والاوصیت کرتا ہوں اس بات کی گواہی دیتے ہوئے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ،وہ یکتا اور تنہا اور اس کا کوئی شریک نہیں ، محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اور عیسی علیہ السلام اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اوراس کا کلمہ ہیں جسے مریم علیہ السلام کی طرف ڈال دیا تھا اور اس کے پاس کی روح ہیں ۔جنت حق ہے،جہنم حق ہے، قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ جو قبروں میں ہے اللہ اسے دوبارہ زندہ کرے گا۔ میں سارے اہل وعیال کو اللہ سے ڈرنے، آپس میں صلح صفائی کرنے،اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے،ایک دوسرے کو حق کی اور اس پر صبر کرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔ میں ان سب کو ابراہیم علیہ السلام کی طرح وصیت کرتا ہوں جس طرح انہوں نے اپنے بیٹے اور یعقوب کو وصیت کی ۔
يَا بَنِيَّ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ(البقرۃ: 132)
ترجمہ: ہمارے بچو! اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے اس دین کو پسند فرما لیا ، خبردار! تم مسلمان ہی مرنا ۔
پھر تہائی مال یا اس سے کم کی جو چاہے وصیت کرے یا مال معین کی وصیت کرے مگر ثلث مال سے زائد نہ ہو۔ اورپھر مصارف شرعیہ یعنی جہاں خرچ کرنا ہے اسے بیان کرے اور اس کام پر کسی وکیل کا بھی اس میں ذکرکرے ۔ (مجلة البحوث الإسلامية:33/111)
اوراس پر دو عادل گواہ بھی بنالے ۔اللہ کافرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ (المائدة:106)
ترجمہ: اے ایمان والو! تمہارے آپس میں دو شخص کا گواہ ہونا مناسب ہے جبکہ تم میں سے کسی کوموت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو ،وہ دو شخص ایسے ہوں کہ دیندار ہوں خواہ تم میں سے ہوں یا غیرلوگوں میں سے ۔
وصیت لکھ کر کسی امانتدار کے پاس جمع کردے جواس کی صحیح سے حفاظت کرسکے ۔
وصیت کے شروط:
وصیت کی تین شرطیں ہیں ۔
پہلی شرط :جس مال میں وصیت کی جارہی ہے وہ حلال ہو ورنہ وصیت صحیح نہیں ہوگی۔نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنَّ اللهَ طيِّبٌ لا يقبلُ إلا طيِّبًا(صحيح مسلم:1015)
ترجمہ: بے شک اللہ پاک ہے اور پاک چیزوں کو ہی قبول کرتا ہے۔
دوسری شرط: وصیت تہائی مال یا اس سے کم ہو ، اس سے زائد کی وصیت صحیح نہیں الا یہ کہ ورثاء کی اجازت ہو۔نبی ﷺ کا فرمان ہے : عن ابنِ عباسٍ . قال : لو أنَّ الناسَ غضُّوا من الثلثِ إلى الربُعِ ، فإنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قال :الثلثُ . والثلثُ كثيرٌ ۔(صحيح مسلم:1629)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کاش لوگ تہائی سے کم کر کے چوتھائی کی وصیت کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:تہائی (تک کی وصیت کرو)، اور تہائی بھی زیادہ ہے۔
تیسری شرط : وصیت وارث کے علاوہ کسی دوسرے فرد کے لئے ہو کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنَّ اللَّهَ قد أعطى كلَّ ذي حقٍّ حقَّهُ ألا لا وصيَّةَ لوارِثٍ(صحيح ابن ماجه:2211)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔
وصیت کی اقسام:
وصیت دوچیزوں سے متعلق ہوتی ہے ، ایک مال سے متعلق اور دوسری اعمال سے متعلق ۔
مال سے متعلق ایک وصیت تو یہ ہے کہ آدمی کے اوپر لوگوں کے حقوق ہوں اس کی وصیت کرے مثلاقرض ، امانت وغیرہ ۔مال سے متعلق دوسری وصیت عام ہے وہ کسی غیر وارث کو دینے کے لئےتہائی مال یا اس سے کم کی وصیت کرنا ہےمثلا بیٹے کی موجودگی میں بھائی کوکچھ مال کی وصیت کرنا۔
اعمال سے متعلق ایک وصیت مال کے ساتھ معلق ہے یعنی وصیت کرنے والا اپنی وفات کے بعد اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کی وصیت کرجائے مثلا مسجد بنانے، یتیم خانہ تعمیر کرنے ، جہاد میں پیسہ لگانے ، غیر متعین مسکین وفقراء میں متعین مال تقسیم کرنے کی وصیت کرنا۔ اعمال سے متعلق ایک دوسری وصیت بغیر مال کے ہے ، وہ اس طرح کہ وصیت کرنے والا اپنی اولاد،اعزاء واقرباء کو نمازکی وصیت، تقوی کی وصیت، شرک سے بچنے کی وصیت اور دیگر اعمال صالحہ کی وصیت کرے اور یہ عظیم وصیت ہے۔
سب سے عظیم وصیت :
سب سے عظیم وصیت اللہ کی عبادت کی وصیت کرنا، اس کےساتھ کسی کو شریک کرنے سے ڈرانا ، آپس میں صلح وصفائی سے زندگی گزارنا، نماز کی پابندی کرتے رہنا ، زکوۃ ادا کرنا، مسکینوں کی دیکھ ریکھ کرنا، سنت کے مطابق زندگی گزارنا، بدعات وخرافات سے بچنا، ایمان اور صراط مستقیم پر گامزن رہنا، حق اور صبر کی تلقین کرنا وغیرہ۔ یہ ایسے اعمال ہیں جن کی وصیت کرنےسے وصیت کرنے والے کو ہمیشہ ثواب ملتا رہے گا اور اس کے بعد لوگ نیکی وبھلائی کی راہ پر چلتے رہیں گے،دنیا بھی اچھی رہے اور آخرت میں بھی بھلا ہوگا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ وَإِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ غَنِيًّا حَمِيدًا[النساء:131].
ترجمہ: واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر تم کفر کرو تو یاد رکھو کہ اللہ کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ بہت بے نیاز اور تعریف کیا گیا ہے ۔
اور اللہ کا فرمان ہے:
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ(الاحقاف : 15)
ترجمہ:اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا۔
یہاں اللہ کی وصیت بندوں کو حکم دینا ہے۔اورقرآن میں عیسی علیہ السلام کا کلام ہے جب وہ ماں کی گود میں ہی تھے تو تکلم کئے تھے ۔
وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا (مریم:31)
ترجمہ: اور اس نے مجھے بربرکت کیا جہاں بھی میں ہوں،اور اس نے مجھے نماز اور زکوۃ کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں زندہ رہوں ۔
اسی طرح لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں :
وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (لقمان:13)
ترجمہ: اور جب کہ لقمان نے وعظ کرتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بےشک شرک بھاری ظلم ہے۔
ابراہیم علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کی وصیت کا قرآن میں اس طور پر ذکر ہے :
وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَابَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ، أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ [البقرة:132- 133].
ترجمہ: اس کی وصیت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو کی ، کہ ہمارے بچو! اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے اس دین کو پسند فرما لیا ، خبردار! تم مسلمان ہی مرنا ۔ کیا ( حضرت ) یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم ( علیہ السلام ) اور اسماعیل ( علیہ السلام ) اور اسحاق علیہ السلام کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے فرمانبردار رہیں گے ۔
نبی ﷺ نے بھی اپنی امت کے لئے بہت ساری نصیحتیں اور بہت ساری وصیتیں چھوڑی ہیں ، آپ نےزندگی کے آخری لمحات میں قبروں کوسجدہ گاہ بنانے سے منع کیا ہے اور باربار منع کیا،غرغرہ کی حالت میں باربار نمازکی وصیت کی ،اے کاش! امت مسلمہ نبی ﷺ کی آخری وصیت کا نفاذ کرتی۔ آپ ﷺ کی اہم وصیت میں سے یہ ہے کہ آپ نے امت کو کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی ۔ بخاری ومسلم میں طلحہ بن مصرف بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا:
هل كان النبيُّ صلى الله عليه وسلم أَوْصى ؟ فقال : لا . فقلتُ : كيف كَتَبَ على الناسِ الوصيةَ ، أو أُمِروا بالوصيةِ ؟ قال : أَوْصى بكتابِ اللهِ .(صحيح البخاري:2740)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ اس پر میں نے پوچھا کہ پھر وصیت کس طرح لوگوں پر فرض ہوئی؟ یا ( راوی نے اس طرح بیان کیا ) کہ لوگوں کو وصیت کا حکم کیوں کردیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی تھی۔
آج مسلمانوں کی اکثریت شرک وبدعت میں مبتلا ہے ،اگرلوگ قبروں پہ مزار بنانے اور اس پر میلہ ٹھیلہ بنانے سے باز آجائیں اور عمل کرنے کے لئے کتاب اللہ کو دستور بنالیں تو پھر کبھی کوئی مسلمان ہرگزہرگز گمراہ نہیں ہوسکتاجیساکہ نبی ﷺ نے فرمایاہے کہ اگر تم کتاب اللہ اور میری سنت کو پکڑ لو تو کبھی گمراہ نہیں ہوسکتے ۔
وصیت میں تبدیلی یا منسوخی:
کسی وجہ سے وصیت کرنے والا وصیت بدلناچاہے یا اسے منسوخ کرنا چاہے تو اس کے اختیار میں ہے کہ وہ وصیت میں اپنی مرضی سے ردوبدل کرسکے یا اسے منسوخ کرسکے تاہم اس میں عدل کارفرماہو۔
وصیت کا نفاذ:
اگر وصیت کی شرطیں پائی جاتی ہیں اور اس میں کوئی شرعی مخالفت نہیں تو میت کی وفات کے بعد اس کے ورثاء پروصیت کا نفاذ واجب ہے جو اس میں کوتاہی کرے یا وصیت کو بدلے یا چھپائے تو وہ بڑا گنہگار ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے : فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (البقرة:181)
ترجمہ: پھرجو شخص اسے(وصیت کو) سننے کے بعد بدل دے تواس کا گناہ بدلنے والے پر ہی ہوگا ، واقعی اللہ تعالی سننے والا اور جاننے والا ہے۔
اس آیت کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے : فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (البقرۃ: 182)
ترجمہ: ہاں جو شخص وصیت کرنے والے کی جانبداری یا گناہ کی وصیت سے ڈرے پس وہ ان میں آپس میں اصلاح کرادے تو اس پر گناہ نہیں ، اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔