پچھلے دنوں ایک معتبر ترین عالم کا الیکشن کی "قباحتوں ” پر بیان پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ جن میں امیدواروں کو خوف خدا کے ساتھ دیانتدارانہ انتخابی مہم، مخالفین پر بے جا الزام تراشی سے گریز ، جھوٹ اور چغلی وغیرہ کے سدباب ، اسراف اور تبذیر سے گریز کرتے ہوئے ایمان دارانہ انداز میں سارے انتخابی عمل کو بحسن و خوبی انجام دینے کی تلقین کی گئی ہے، اور اس کے نتیجے میں ممکنہ رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا مژدا بھی سنایا گیا، مثلا ایک اچھی قیادت کا انتخاب اور قوم و وطن کی بھلائی اور خیر خواہی وغیرہ۔
فرزندان مدارس و مساجد پر ہی کیا موقوف، جدید تعلیم یافتہ اور ماڈرن اسلامسٹ کہلانے والے بھی دونوں ہی آج یہ بات باتکرار کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ووٹ ایک امانت ہے اور اس امانت کو ایسے استعمال کریں کہ ایک امانت دار اور "صالح” قیادت سامنے آئے ، وغیرہ وغیرہ۔
ایسے تمام لوگ معاملے کی صرف اس سطح کو دیکھتے ہیں ، یا دیکھنا چاہتے ہیں جو گلیاں سڑکیں بنانے ، ترقیاتی اور مفاد عامہ کے کاموں سے متعلق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سطح کو یا تو سمجھتے ہی نہیں ہیں ، یا پھر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے پس پشت ڈال دیتے ہیں جس کا تعلق ان "عوامی نمائندوں” کے اللہ کے مقابلے میں ایک الگ ہی دین و شریعت گھڑنے اور نافذ کرنے سے ہے۔
پھر یہ شریعت سازی ہوتی کیوں ہے، اس پر بھی غور نہیں کرتے شاید ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شریعت اس لیے معرض وجود میں نہیں لائی جاتی کہ قرآن کی طرح طاقوں میں سجا اور آنکھوں سے لگا کر اس کا حق ادا کر دیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شریعت تو عدالتوں میں فی الفور نافذ ہوتی ہے اور عدالتیں از روئے ایت قرآنی "”واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل”” "دلیل” لیتے ہوئے خدائی انصاف کی بجائے اس انسانی وضع کردہ دین کو انصاف کی صورت میں نافذ کر دیتی ہیں !!!
عوام کالانعام ان عدالتوں میں وہ "حق” لینے جاتے ہیں جو ان کو حق کی پڑیا میں باطل بنا کر دیا جاتا ہے اور انہیں خبر تک نہیں ہوتی (( اگر غلطی سے "حق” مل جائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ وہ بھی نہیں!! ))
تب یہ جدید پارلیمانی دین اور اس کے نئے سے نئے ایڈیشن گاہے بگاہے نظر ثانی سے گزرتے ہیں اور "قانون نافز کرنے والے ادارے” ان کی بنا پر زمین کو "عدل و انصاف” سے بھر دیتے ہیں !!
یوں "امانتوں کے لوٹائے جانے” کا وہ عمل جو مفتیان شرع متین اور زعمائے تحریکات اسلامیہ کے ہاں سے دستار فضیلت پا کر بابرکت انداز میں شروع ہوا تھا اب عمل کی دنیا میں اگلے پانچ سال تک ایک خاص خطہ زمین پر خدا کی خدائی کو 300 ان پڑھ/ نیم پڑھے لکھوں میں خوشی خوشی بانٹ بھی دیتا ہے اور یہ عین منشائے فطرت اور تقاضائے شریعت بھی قرار پاتا ہے!!
کاش یہ لوگ غور کر لیا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 60 سال بعد ہی سوچ لیں کہ عملا تو اس جمہوریت خبیثہ نے ہمیں کیا دینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو نقصان اس قومی سطح کے شرک سے ہم اپنی آخرت کا کر چکے ہیں اور کرتے جا رہے ہیں وہ کتنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنا ہی بڑا ہے !
کیونکہ توحید کی موت بھی شرک کی زندگی سے کوئی نسبت نہیں رکھتی ! اس قیمت پر آئیں تو دنیا نہ ملنے کا رونا کوئی نہین ہے ، اصحاب الاخدود بھی جلا دیے گئے تھے اور پیغمبر تک بے دردی سے شہید کر دیے گئے تھے لیکن ان کی کامیابی و کامرانی کے قصیدے آج بھی قرآں میں موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کتنے ہی دنیا میں عیش کرنے والوں کے عذاب کی دردناکی ہے جس کا تصور ہی رلا دیتا ہے !!
کاش ہمارے علماء اس پہلو پر قوم کی موجودہ زندگی سے آگے بڑھ کر اخروی زندگی پر بھی سوچ لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش اے کاش !!!
دور حاضر کے اس صنم اکبر کا "حق” تو یہ بنتا ہے کہ ہر سطح پر اس کی حقیقت کو ایسے واشگاف الفاظ اور انداز میں کھولا جائے جیسے کسی دور میں قادیانیوں کی حقیقت اور ان کے کفر سے آگاہ کیا گیا تھا ، حتٰی کہ اب مسلمانوں کے کسی دور دراز گاؤں کا بچہ بھی کسی دلائل و براہین قاطعہ کی سمجھ بوجھ سے عاری ہونے کے باوجود قادیانی کفار کے کفر اور ان کے گندے موقف کے خلاف ایستادہ چٹان کا کردار ادا کرتا ہے۔
کفر کا اہل ایمان پر یہی "حق” ہوتا ہے کہ وہ اس سے انکار کریں! اور جتنا جس کسی کا حلقہ اثر ہے وہ اس انکار کا دائرہ بھی اتنا ہی وسیع کر دے۔
غلبہ کفر کا مطلب بھی یہ نہیں ہوتا کہ اب کفر سے سمجھوتوں کی سوچنی شروع کر دی جائے کہ یہ تو جانے والانہیں ہے ہمیں ہی کچھ "لچک” لانی چاہیے!!
انبیاء و رسل کے ادوار میں کفر کا غلبہ کتنا واضح نظر آتا ہے ، کچھ کو حکومت نصیب ہوئی تو اکثر کو نہیں ۔ لیکن انہوں نے کفر کو اسی سطح پر دیکھاا ور لوگوں کو دکھایا جو خدا کی خدائی کے متصادم ہونے کا درجہ ہے ۔نہ کہ مصالح و مفاسد کے نام پر توحید کو ایک طرف کر کے جزئی فائدوں میں کھو گئے !!
کفر کے کسی بھی "اچھے ” یا "نرم خو” میٹھے میٹھے پہلو کو سامنے کر کے لوگوں کو اسی نظام میں ساجھے داری کا درس نہیں دیا ۔ یہ توحید ہے اور یہی توحید کا تقاضا ہے کہ جب تک اصل الاصول پر لڑائ ہے تب تک بھلے 1001 "مشترکات نما” چیزیں ہی کیوں نہ پائی جائیں وہ ہمارا سبجیکٹ ہی نہیں ہیں !! ہاں خدا کی خدائی کو مانو تو دیکھیں گے!
الیکشن کے تازہ فسانے میں ہمیں ہر رنگ نظر آتا ہے، سیکولرز اور لبرلز کتنے ہی فلیورز اور لیولز میں ہوں وہ اس بات پر متفق و متحد ہیں کہ حاکمیت کو خدا کے لیے خاص نہیں کیا جائے گا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہیں۔
اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ آئین میں "یہ” لکھ دیا گیا ہے اور قانون "وہ” بن گیا ہے اس لیے اب کچھ نہیں ہو سکتا !، اس کی صرف اور صرف وجہ یہ ہے کہ خود اہل اسلام کے علماء اور "فقہاء” اس بارے میں درجہ اول سے نیچے آ چکے ہیں۔ وہ اس بنیادی فرق کو نظر انداز کرنے پر صرف تیار ہی نہیں عملا قائل وفاعل ہو چکے ہیں جس بنیادی فرق کی خاطر بلال اور خباب نے مکہ کی گلیوں کو خوں رنگ کیا تو حنین اور خیبر کے معرکے لڑے گئے۔
اسلامی حلقے اس کرنے کے کام پر کمربستہ تو ہو کردیکھیں، پھر دیکھتے ہیں کہ انسانوں پر انسانوں کی خدائی کو کس طرح مزید چلایا جا سکتا ہے!!، اور جب آگہی ہی نہیں دی جائیگی تو کیسے شعور آئے گا اور کیسے اس نظام کو بدلنے کی سوچ اور کہاں جا کر نظام کا تلپٹ ہونا اور پھر خلافت کا قیام ۔۔۔خیال است ومحال است و جنوں!!، کم از کم یہ تھوڑا تھوڑا کر کے "کفر کی قبولیت” والا طرز عمل تو یہی ہی ثابت کر رہا ہے۔
فرق کچھ نہیں ، صرف لات و منات کے چولے بدلنے کا عمل وقوع پذیر ہو اہے اور ہم حق سے کچھ کم پر نہیں بہت کچھ کم پر راضی ہو چکے ہیں!!
اسی لیے ہماری حالت نہیں بدلتی اور اسی لیے ہم پر اسمان سے برکتوں کے در وا نہیں ہوتے ۔
لیکن افسوس یہ ہے کہ اس سارے منظر نامے میں ہمیں اگر کوئی رنگ نظر نہیں آتا، کوئی صدا سنائی نہیں دیتی تو وہ حاکمیت جمہور کا یہ بڑا اکھاڑہ سجنے وقت انہیں احکم الحاکمین کی خالص حآکمیت کی طرف بلایا جائے، پکارا جائے، یا قومنا اجیبوا داعی اللہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے قوم اللہ کے منادی کی پکار سن لو! کسی لگی لپٹی کے بغیر یہ بتائیں کہ جمہوریت شرک ہے تو کیسے؟ حاکمیت الٰہی کیا ہوتی ہے؟؟ اور نظام باطل اللہ کا حق بندوں کو کیسے تفویض کرنے کی کوشش کرتا ہے ؟؟ اور اب تک اس سب کچھ کے اجتماعی ثمرات کیا ہیں؟؟ اگردنیاوی ثمرات ایک لاکھ ہوں تو بھی کس قیمت پر ہیں !!
یہ دکھ نہیں کہ اندھیروں سے صلح کی ہم نے
ملال یہ ہے کہ اب صبح کی طلب بھی نہیں
١٥.٠٤.١٣