جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتیں ناکام کیوں ہیں ؟؟؟
چند دن قبل فیس بک پر جماعت اسلامی کے ایک ہمدردعوام الناس کو جماعت اسلامی کی خوبیاں گنواتے ہوئے اس کا ساتھ دینے کی اپیل کررہے تھے ۔ ان کے الفاظ درج ذیل تھے ۔
"حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی ہی ایک ایسی تنظیم جس نے بلا تقسیم رنگ و نسل قوم کی بے لوث خدمت کی ہے ۔اگرچہ ہر موقع پر قوم نے جماعت اسلامی کو ٹھکر ایا ہے۔۔۔۔ 10لاکھ IDP’s کی خدمت اگر اس وقت کوئی کررہا ہے تو جماعت اسلامی۔ملک میں دیگر سیاسی و مذہبی جماعت بھی تو موجود ہیں جن کے بلند وبانگ دعوے اور جھوٹے وعدے،سب قوم کے سامنے ہیں ۔متحدہ قومی موومنٹ،پیپلز پارٹی،اے این پی،پی ٹی آئی جنہوں نے کل تک آپر یشن کی حمایت اور جماعت اسلامی نے مخالفت کی تھی۔۔۔ کہاں ہیں یہ سارے سیاسی دکاندار؟؟؟غزہ کا مسئلہ اور ان سے عملی ہمدردی کا معاملہ ہو جماعت اسلامی کا خلوص کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔۔ اے میری قوم کے لوگوں ! اب بھی وقت ہے پلٹ آو اور پہچانوں اپنے مخلص قیادت تو اور جماعت اسلامی کے دست و بازو بنو۔”
الحمد للہ میں نے بھی جماعت اسلامی میں اپنی عمر عزیز کا جوانی سے بھرپور حصہ گزارا ہے ۔ 1987ء میں جب میں کلاس نہم کا طالب علم تھا ، اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کی ۔ پھر 1991ء میں جب سویڈش کالج گجرات سے فارغ التحصیل ہوا تو سعودی عرب آنے تک ناظم جماعت اسلامی کے طور پر ذمہ داریاں بھی ادا کرتا رہا ۔ جماعت کے مؤقف کو درست سمجھتا تھا ۔ اس پر غیر جماعتی دوستوں سے بحث و تکرار بھی ہوتی رہتی تھی اوران سے فخریہ یہ بات بھی ہوتی تھی کہ اگر جمہوریت کے ذریعے تبدیلی نہیں آ سکتی تو پھر اس کا حل پیش کرو ؟تو اکثر لوگ کم علمی کی وجہ سے خاموش ہو جاتے اور بعض ڈنڈے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی بات کرتے ، جس کو میں یہ کہہ کر رد کر دیتا کہ اس طرح خانہ جنگی ہو جائے گی ۔ چناچہ تقریباً 25 سال تک میں جماعت اسلامی کے اس مؤقف کو صحیح سمجھتا رہا ۔۔۔تا آنکہ پچھلے سال مصر میں ہونے والے واقعات اور حالیہ انتخابات میں ہونے والی دھاندلی نے مجھے اس مسئلہ میں سنجیدگی کے ساتھ سوچنے پر مجبور کیا ۔۔ اور پھر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ موجودہ نام نہاد جمہوریت کے ذریعے تبدیلی کی کوشش بےکار ہے ۔
جماعت اسلامی پچھلے 62 سالوں سے اس تجربے کو دُہرا رہی ہے مگر نتیجہ صفر۔۔۔ جماعتی حلقوں میں جب بھی اس پر بات ہوتی تو ہمیں یہ میٹھی گولیاں دے کر خاموش اور مطمئن کر دیا جاتا کہ ہمارا کام ہے کوشش کرنا ۔۔۔ منزل کا حصول کامیابی کی دلیل نہیں ہے ۔۔ حضرت نوح ؑ کی مثال پیش کرکے سمجھا دیا جاتا کہ ہم صراط مستقیم پرہیں ۔۔۔یہ بھی کہا جاتا کہ اگر ہمارا راستہ درست نہیں ہے تو اس کا متبادل بتاؤ؟؟؟۔۔۔ دوسری طرف اکثر دینی جماعتوں کو بھی اسی راستے کا مسافر پا کر تسلی بھی ہوتی کہ سب غلط تو نہیں ہو سکتے ۔۔۔تاہم اللہ کے فضل و کرم سے ایک دن ایسالگا کہ جیسے دماغ کا ایک ایسا حصہ جو کافی عرصے سے تاریک تھا ، یکایک روشن ہو گیا ہے اور اسی چمک کی وجہ سے وہ راستہ بھی مجھے دکھائی دیا کہ جس کی مجھے تلاش تھی ۔۔۔ چناچہ جیسے ہی مجھ پر مروجہ جمہوریت کے باطل ہونے کا بھید کُھلا اور اس کی اصلاح کے پہلو مجھ پر عیاں ہوئے توجیسے بے چین دل کو قرار آگیا ۔۔۔ اور سخت حیرانی بھی ہوئی کہ ۔۔۔کمال ہے کہ یہ دینی جماعتیں اس راستہ کو اختیار کرنے کی بجائے ،متضاد راستے کو کیوں استعمال کر رہی ہیں ؟؟؟
چناچہ اس بات کا ادراک کرتے ہوئے کہ جماعت کے سیاسی قائدین میری بات سے اتفا ق نہ کریں گے ، جماعت کو بڑے دُکھ سے الوداع کہا ۔۔۔25 سالہ رفاقتوں ،محبتوں ،دوستیوں کو ترک کرنا آسان کام نہ تھا ۔۔۔ مگر پہلے بھی صرف اللہ کی رضا مطلوب تھی تو اب بھی نشانِ منزل یہی ہے ۔یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد ، ان احباب کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ جن کے اذہان میری درج ذیل باتوں کو قبول کرنےکوشاید اسی طرح تیار نہ ہوں کہ جیسے میں بھی ماضی میں کچھ ایساہی خیال کرتا تھا ۔
اب میں اپنے اصل مضمون کی طرف آتا ہوں ۔۔۔جس بات نے مجھے اس مضمون کو تحریر کرنے پر اُکسایا ہے وہ جماعت کے ہمدرد کی مندرجہ بالا وہ تحریر ہے کہ جس کو میں نے اس مضمون کا حرف آغاز بنایا ہے ۔یہ بات بالکل بجا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ جماعت اسلامی ایک بہترین فلاحی تنظیم ہے اور سب سے بڑی اور اچھی بات یہ ہے کہ فرقہ واریت سے پاک ہے ۔ ۔۔ اس کی دعوت اور طریقہ کار بھی درست ہے ۔۔ مگرجماعت اسلامی کی سب سے بڑی غلطی یا بیوقوفی یہی ہے کہ یہ جمہوریت جیسے دھوکے کے ذریعے برسراقتدار آنے کے لیے کوشاں ہے ۔ حالانکہ یہ نظام ہی ایسا ہے کہ اس کے ذریعے اچھے لوگ کامیاب نہیں ہوسکتے ۔۔۔ مولانا مودوی رحمتہ اللہ کا پاکستان بننے سے پہلے جمہوریت کے حوالے سے جو مؤقف تھا وہ بالکل درست تھا ۔۔۔ حیرت ہے کہ جماعت اسلامی اس مؤقف کو کس طرح چھوڑ کا انتخابی سیاست میں شریک ہو گئی ۔۔۔
جماعت اسلامی نے 1951ء میں پنجاب اسمبلی کے لیے ہونے والے الیکشن میں حصہ لیا تھا ۔۔ امید تھی کہ کافی سیٹیں حاصل ہو جائیں گی ۔۔۔ مگر کچھ بھی نہ ملا۔۔۔کہاں 1951 اور آج 2014ء۔۔۔تقریبا 63 سال ہوگئے ہیں اس تجربے کو دہراتے اور آزماتے ۔۔ ۔ مگر صد افسوس کہ ابھی تک اسی خیالِ غلطاں میں غرق ہے ۔ اگر جماعت اسلامی اس سیاسی گندگی سے نکل آئے اور اپنے وسائل و کوششیں کسی بامقصد ذریعے پر لگائےتو فائدہ ہو سکتا ہے ۔ ایک اور مسئلہ جو جماعت میں ہے کہ جب ان کو یہ بات کہی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہمارا کام ہے کوشش کرنا ۔۔ رزلٹ اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر یہ سوچنے کی زخمت گوارا نہیں کرتے کہ بھائی یہ جمہوریت کا راستہ کیا کوئی آخری راستہ ہے یا اللہ نے آپ کو کوئی وحی کی ہے کہ بس یہی راستہ ہے ۔ بس تم کوشش کرتے رہو ۔۔ دیکھیں قرآن تو بار بار کہتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت نافرمان ہے ۔ گنہگار ہے ۔ تو پھر آپ کو کس طرح دو تہائی اکثریت ملے گی کہ آپ موجودہ جمہوریت کے خلافِ قرآن وسنت قوانین بدل سکیں گے ۔
سورۃ الانعام میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ۔
اگر تم زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کی پیروی کرو گے تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا کر چھوڑیں گے ۔
ڈاکٹر اسرا احمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ” الیکشن کا سارا دارومدار اکثریت اور اقلیت پر ہے ۔ پورا نظام ہی اس مفروضے پر چل رہا ہے کہ اکثریت حق پر اور اقلیت باطل پر ۔پاکستان میں 70 فیصد آبادی دیہات پر مشتمل ہے اور یہ سب جاگیرداروں اور وڈیروں کے مزارعین ہیں ۔ ان حالات میں آ پ تبدیلی کیسے لائیں گے ۔ اس نظام کے اندر انتخابات سے یہ تو ہو جائے گا کہ ایک لغاری کی جگہ دوسرا لغاری آ جائے ،اسی طرح ایک مزاری کی بجائے دوسرا مزاری منتخب ہو جائے لیکن ان کو ہٹا کر کوئی اور نہیں آئے گا ۔ شہروں میں ممکن ہے کوئی تبدیلی آجائے مگر شہروں کی کوئی تبدیلی اس ملک کے اندر بحثیت مجموعی فیصلہ کن نہیں ہوسکتی اگر اس تبدیلی کی اساس انتخابات ہو ں۔
انتخابی سیاست کو نہ چھوڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں کو قومی اسمبلی ، سینٹ یا صوبائی اسمبلی کی چند سیٹیں مل جاتی ہیں اور ان چند سیٹوں کے لیے اپنے وسائل اور کارکنا ن کی صلاحیتیں قربان کر دی جاتی ہیں ۔پہلا الیکشن 51ء میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے لیے ہوا تھا اور آج 2014ء ہے ۔ آپ اندازہ لگائیں 63 سال گزر گئے ہیں مگر ان ناکام تجربوں کے بعد بھی عقل نہ آئے تو اسے کیا کہا جائے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے۔حتی اذا بلغ اشدہ وبلغ اربعین سنۃ۔ یعنی بچہ بھی 40 سال کی عمر کو شعوری اعتبار سے پختہ ہو جاتا ہے ۔ کاش ہماری دینی جماعتوں کو بھی سبق حاصل ہو جائے اور وہ اپنے اختیا ر کردہ راستے پر نظر ثانی کے لیے تیار ہو جائیں ”۔
اس پر مزید بات بھی ہو سکتی ہے ۔ اور یہ بھی کہ پھر کیا کرنا چاہیے ۔ مگر سب سے پہلے آپ کو یہ بات تو سمجھ لینی چاہیے کہ جس گاڑی پر آپ یہ سمجھ کر سوار ہوئے ہیں کہ یہ آپ کو اسلام آباد لے جائے گی ۔۔۔ اس کا تو روٹ ہی کراچی کا ہے ۔ تاہم آج جمہوریت کے تجربوں کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ مولانا مودودی کے مقابلے میں ڈاکٹر اسرار صاحب کی رائے زیادہ بہتر تھی ۔
ایک اور مسئلہ جماعتی احباب کے ساتھ یہ پیش آتا ہے کہ جب ان کو ڈاکٹر اسرار صاحب کے حوالے یادہانی کرائی جاتی ہے تو بجائے غوروفکر کرنے کے ۔۔ یہ سوال بطور طنز ضرور کریں گے ۔۔۔اچھا ،اگرا ن کامؤقف درست تھا تو انہوں نے کون سا تیر مار لیا ہے ؟؟؟تو اُن احبا ب کے لیے عرض ہے کہ جب جماعت اسلامی سے ناکامی کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو آپ کہتے ہیں کہ ہمارا کام ہے کوشش کرنا ۔۔ اور منزل کا مقصود اللہ کی مرضی پر ہے ۔۔ دنیا کی کامیابی کے مقابلے میں آخرت کی کامیابی ہمارے مدنظر ہونی چاہیے ۔۔ یہی جواب تمام دینی جماتیں بھی دیتی ہیں اور تنظیم اسلامی بھی دیتی ہے ۔۔ تو پھر غلط کون ہے ؟ ۔۔۔ کس طرح جائزہ لیا جائے کہ کس کا مؤقف درست ہے ؟۔۔۔۔ محترم ڈاکٹر اسرار صاحب بھی اس لیے کامیاب نہیں ہوئے کہ دوسری طرف مولانا مودودی صاحب کی رائے اس وقت کے لحاظ سے ملکی و بین الاقوامی حالات کے عین مطابق تھی(مگر اپنے سابقہ مؤقف کے الٹ) ۔۔۔۔ اور بظاہر بڑی سیدھی اور آسان بات لگتی تھی کہ عوام جس کو اکثریت دیں وہ حکومت بنا لے ۔۔۔ اور چونکہ یہ تجربہ بھی پہلی دفعہ ہورہا تھا اور نئی چیز تھی ۔۔۔ عوام اور عام سیاسی پارٹیوں کے لیے بھی قبول تر تھی ۔۔۔ اس لیے کسی نے ڈاکٹر صاحب کی بات کی طرف توجہ دینا مناسب نہ سمجھااور جمہوری تجربے کو آزمانے کافیصلہ کیا ۔۔۔ اور اب تک یہی صورتحال ہے کہ جب دینی جماعتوں کی اکثریت اس نظام کا حصہ ہیں اور اسی کو ہی اپنی منزل قرار دے رہی ہیں تو پھر ڈاکٹر صاحب کی بات کو کون سنے اور سمجھے ۔۔۔ جب ہماری عوام جماعت اسلامی کی بات ہی نہیں مان رہی تو پھر ڈاکٹر اسرار صاحب کی بات کو کون سنے گا۔۔۔۔ اسی لیے میں نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کے اس جمہوری دھوکے میں ناکامی کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کا مؤقف درست ثابت ہوتا ہے ۔۔ جب کہ جماعت کا موقف غلط ۔۔۔ بات کو مزید پھیلا کر بھی کہا جا سکتاہے ،مگر میں نے سمندر کوکوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے ۔
جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتوں کے کارکنا ن سے میرا سوال ہے کہ ۔۔۔۔مجھے بتائیں کہ گزشتہ 63 سالوں میں آپ نے کتنی رائے عامہ ہموار کر لی ہے ؟؟۔۔۔اس رائے عامہ کی ہمواری سے آپ نے کتنی کامیابی حاصل کی ہے ؟؟۔۔۔ رائے عامہ ہموار ہوتی تو جماعت اسلامی کواس بات کا انتخاب کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا اورتاریخی شرمندگی اور سبکی اٹھانی پڑتی کہ نواز شریف یا عمران خان میں سے کس کے ساتھ انتخابی اتحاد کے لیے مذاکرات کریں؟؟ ۔۔۔۔۔محترم جب آپ سمجھتے ہیں کہ حکومت کا حصول ہی کامیابی کی دلیل نہیں ہے ۔۔۔ تو پھر اسی باطل نظام کو سپورٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟؟؟ جو معمولی سےفوائد آپ نے اس نطام کا حصہ رہتے ہوئے حاصل کیے ہیں ۔۔۔ ان سے زیادہ آپ اس نظام سے باہر رہ کر ایک پریشر گروپ کے طور پر بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
دیکھیں دینی جماعتوں کے لیے اس نظام کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے دو بندو ں کو باکسنگ کے میچ کے لیے اکھاڑے میں اس طرح اتارا جائے کہ ایک تو بالکل آزاد ہو اور اس نے گلوز وغیرہ بھی پہن رکھے ہوں ۔۔ مگر دوسرے بندے کے ہاتھ بندے ہوں اور آنکھوں پر پٹی بھی بندھی ہواور غضب یہ کہ ریفری بھی اس کا مخالف ہو ۔۔۔اب مجھے بتائیں کہ ہارے گا کون؟؟؟۔۔ ۔ اور ہارنے والا اپنے ساتھ زیادتی پر آواز اٹھانےکی بجائے یہ سوچ کر چُپ ہوجائے کہ دیکھنے والے تماشائی تو یہ سب جانتے ہیں ۔۔۔ وہ خود کسی دن اس زیادتی پر آواز بلند کریں گے ۔۔۔ تو بیوقوف کون ہوا ؟؟؟۔۔ ۔ اور اس سے بڑی بیوقوفی اور کیا ہوگی کہ آپ بار بار اسی حالت میں مقابلہ کرنے کے لیے اکھاڑے میں اترتے رہیں اور ہارتے رہیں ۔۔۔حقیقت یہی ہے کہ دینی جماعتوں کے ساتھ 63 سالوں سے یہی ہورہا ہے اور ان سب کی غلطی یہی ہے کہ انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ پہلے مل کر ملکی آئین کو تبدیل کرائیں اور پھرایسے نظام کے تحت حصہ لیا جائے کہ جو اسلامی انقلاب کے لیے ممدومعاون ہو ۔۔۔ جمہوریت کےمروجہ اُصولوں کے تحت ہماری دینی جماعتوں کی سوچ اسی حد تک محدود ہے کہ ٹھیک ہے ہم بھی جمہوریت کو سو فیصد درست نہیں سمجھتے ۔۔۔ا ور اس کی کئی چیزیں اسلامی دستور سے ٹکراتی ہیں ۔۔۔ مگر یہ سب کچھ ہم پارلیمینٹ میں اکثریت حاصل کرکے تبدیل کردیں گے ۔۔۔ اب مجھے بتائیں کہ یہ ممکن ہے کہ موجودہ جمہوری نظام کے تحت آئندہ 100 سالوں تک بھی ایک دینی جماعت یا سب مل کر بھی اکثریت حاصل کر سکیں ؟؟؟۔۔۔63 سال تو ہو گے ہیں!! ۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ کی چند سیٹوں کی خاطر جماعت اسلامی اپنے وسائل، کارکنان کی محنتیں اورپیسہ ضائع کر رہی ہے ۔ ۔۔ ان کے علاوہ پورے پاکستان میں جماعت اسلامی ، کسی کے ساتھ اتحاد کیے بغیر ایک سیٹ بھی لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔۔۔ اور لوگوں کے ساتھ وعدہ ہے اسلامی انقلاب کا ۔۔۔کیا واقعتاً۔۔۔ اسلامی انقلاب کے لیے یہ راستہ درست ہے ؟؟؟
نظام کی تبدیلی کے لیے تجاویز
نظام میں تبدیلی کیے بغیر انتخابات میں حصہ لینا ،گویا دینی جماعتوں کے لیے سیاسی خود کُشی کے مترادف ہے ۔ تاہم اس حوالے سےجب میں نےغور وکر کیا تو درج ذیل نکات سامنے آئے ۔۔۔ بعد میں جب ڈاکٹر اسرار صاحب کی کتب کا مطالعہ کیا تو یہ جان کر حیرت انگیز فرحت محسوس ہوئی کہ الحمد للہ ان کی سوچ اور میری کم فہم سوچ میں کافی مماثلت تھی ، جس سے مجھے کافی حدتک اپنے مؤقف کی پختگی کا احساس ہو ا ۔۔۔ا ور دُکھ بھی ، کہ ہماری دینی جماعتیں ۔۔۔ ڈاکٹر اسرار صاحب جیسے دور اندیش اور مفکر سے کیونکر راہنمائی حاصل نہ کر سکیں ۔
میری سوچ یہ ہے کہ جماعت اسلامی دوسری دینی جماعتوں سمیت اس باطل نظام سے الگ ہو ۔۔تمام جماعتیں باہم مشورے سے اس نظام کی خرابیاں عوام الناس کے سامنے بیان کریں اور اس نظام کو درست کرنے کے لیے اپنےمطالبات پیش کریں اور منوائیں ، احتجاج کریں۔۔۔ ریلیاں نکالیں ۔۔۔ضرورت پڑے تو سول نافرمانی کریں ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ مطالبات یا تجاویز کی شکل کچھ اس طرح ہو سکتی ہے مثلا
· صرف پڑھے لکھے لوگوں کو ووٹ دینے کا اختیار دیا جائے یعنی میٹرک پاس اور عمر کم از کم 25 سال ہو ، ڈاکٹر اسرار صاحب کی رائے کےمطابق 40 سال ہونی چاہیے ۔۔ یہ بات نہایت اہم ہے اور یہی مغربی جمہوریت کی جڑ کاٹتی ہے ۔ووٹر کسی عدالت سے سزا یافتہ نہ ہو ۔ اس لیے کہ ووٹ بھی کسی بندے کے حق میں گواہی ہوتی ہے اور اسلام میں کسی فاسق کی گواہی قبول نہیں ہوتی ۔
· انتخابات کروانے والی انتظامیہ سول لوگوں اور تمام جماعتوں کے متفقہ لوگوں پر مشتمل ہو ۔
· طریقہ کار متناسب نمائندگی ہو ۔ یعنی الیکشن پارٹیاں لڑیں ، افراد نہیں ۔
· انتخابی مہم محدود اور پیسے کے استعمال سے آزاد ہو ۔
· الیکشن الیکٹرونک مشین کے ذریعے ہوں ۔
· صدارتی نظام ہو نا چاہیے کیونکہ اس میں عدلیہ ،انتظامیہ اور مقننہ پر خارجی دباو نہیں ہوتا ۔ صدر پارلیمنٹ سے باہر کسی بھی شخص کو وزیر بنا سکتا ہے جبکہ پارلیمانی نظام میں جو ہمارے ملک میں رائج ہے ، اس کے برعکس ہوتا ہے ۔
· انتخابات جداگانہ تشخص پر ہوں ۔
· دفعات 61 اور 62 میں موجود خامیوں کو دور کرکے اس کا نفاذ عملی طور پر ممکن بنایا جائے ۔
· صدر ، گورنر، وزیر اعلی ، وزیر وغیرہ کسی کو بھی کسی قسم کا کوئی استثناء حاصل نہ ہو ۔
· موجودہ آئین میں قرآن سنت بطور سپریم لاکے عملی نفاذ سے متصادم تمام آئینی شقوں کو ختم کروایا جائے ۔
· اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کو حرف آخر مانا جائے ،محض سفارش کا درجہ نہ دیا جائے اورا س کو فی الفور قانون کا حصہ بنایا جائے ۔
· قرآن وسنت سے متصادم کسی قانون کو اسلامی نظریاتی کونسل کو رپورٹ کرنے کے لیے طریقہ کار سادہ اور آسان بنایا جائے ۔بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار دیا جائے ۔
· ریاست کے تمام پالیسی ساز اداروں کے سربراہ صرف مسلم ہوں گے ۔
· خواتین کی نمائندگی کم سے کم کی جائے ۔
· الیکشن کے بعد جماعتیں جو اپنے امید وار پارلیمنٹ کے لیے نامز د کریں ان کا معیار بہت اعلی قسم کا ہو نا چاہیے ۔
· لسانی ،علاقائی اور محض فرقہ وارانہ عصبیت کے نام پر بننے والی جماعتوں پر پاپندی ہو
· صوبوں کی تعدا د میں باہم مشور ے سے اضافہ کیا جائے ،ا گر ڈویزن لیول پر بنا دئیے جائیں تو بہت اچھا ہے ۔
جب سب قابل لوگ مل کر بیٹھیں گے تو اس سے بھی عمدہ تجاویز سامنے آ سکتی ہیں ۔۔۔۔اورجب تک حکومت یہ مطالبات نہ مانے جائیں ۔۔ عوام الناس کو ان فراڈیا انتخابات کے بائیکاٹ کے لیے آمادہ کریں ۔۔۔ تاکہ کم از کم اس ڈرامے کے ذریعے منتخب ہونے والا ، اکثریت سے منتخب ہونے کا نعرہ نہ لگا سکے ۔۔۔گو کہ ان تجاویز پر عمل در آمد کروانا کوئی آسان کام نہ ہو گا ۔ یو رپ ،امریکہ ، نام نہاد این جی اوز ، انسانی حقوق کے ٹھیکیدار اور سیکولر عناصر آپ کے راستے میں روڑے اٹکائے گئے اور میڈیا پر آپ کی تضحیک ہو گی ۔ مگر مجھے بتائیے کہ یہ بہتر نہ ہوگا کہ آپ یکطرفہ کسی گیم کا حصہ بن کر ہارنے کی بجائے باہر ہی رہیں اور اپنی کوششیں جاری رکھیں ۔۔ جب اللہ نے ہم پر صرف کوشش کو فرض کیا ہے تو پھر کامیاب نہ ہونے کی پریشانی کیوں ؟؟؟ جمہوری یکطرف کھیل میں حصہ نہ لینے سے دینی جماعتوں کی عزت ، ضمانت ، صلاحتیں اور پیسہ وغیرہ بھی محفوظ رہے گا۔۔۔ اس نظام کی مثال اس درخت کی سی ہے کہ جس کا بیج ہی کڑوا ہے ۔۔۔ محض اس کی شاخیں کاٹنے سے کچھ تبدیلی نہ آئے گی بلکہ درخت کو گرا کراس کا بیج بدلنا پڑے گا۔تاہم میں پورے وسوق سے کہتا ہوں اور اللہ کے بھروسے پر یہ امید رکھتا ہوں کہ اگر سب دینی جماعتیں مل کراس تحریک کو اٹھائیں تو اللہ ان کی مدد ضرور کرے گا ۔ ان شاء اللہ۔
علاوہ ازیں ان مطالبات اور احتجاج کے ساتھ ساتھ دینی جماعتیں ۔۔۔ غریب بچوں کے لیے اسکول اور کالج کھولیں جہاں نہایت کم فیس پر یہ بچے پڑھ سکیں ۔۔۔۔ صرف امرا کے بچوں کے لیے دار ارقم جیسے سکول کافی نہیں ہیں ۔۔۔جو بچے قابل ہوں ان کو وظائف دیے جائیں کہ وہ سی آئی ایس جیسے مقابلہ کے امتخانوں کے لیے تیاری کرسکیں ۔۔۔ دینی جماعتیں ان قابل اور دینی لوگوں پر پیسہ خرچ کرکے ان کو اعلی سول اور فوج کے عہدوں کے لیے تیار کریں تاکہ ان اداروں میں بھی ایسے افسر آئیں جو دینی جماعتوں کا راستہ روکنے اور انہیں ناکام کرنے والے نہ ہوں ۔۔۔ جتنا پیسہ دینی جماعتیں ان فراڈیا جمہوریت پر خرچ کرتی ہیں وہ اگر ان غریبوں پر خرچ کیا جائے تو غریب آپ کو اپنا ہمدرد بھی مانے گا ۔۔۔۔ اور بیوروکرسی اور فوج بھی بہتر ہو گی ۔
امید ہے کہ جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتوں کے کارکنان میری ان معروضات پر مثبت انداز میں غوروفکر کرتے ہوئے اپنی اپنی قیادتوں کے سامنے بھی اس سوال کو ضرور اٹھائیں گے ۔۔۔تاکہ دینی جماعتوں کی منزل درست اور ایک ہوسکے ۔۔۔ علاوہ ازیں قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اس مضمون کومزید بہتر بنانے کے لیے میری مدد کریں اور مثبت تجاویز دیں تاکہ ہم نیٹ کے ذریعے اس تحریک کو اس پیمانے پر اٹھائیں کہ دینی جماعتیں اس پر غورو فکر کے لیے آمادہ ہو جائیں ۔ ان شاء اللہ
اس کے ساتھ درج ذیل مضمون کو بھی پڑھ لیا جائے تو بہت مفید ہو گا اور میرا نقطہ نظر سمجھنے میں آپ کو آسانی ہو جائے گی ۔