دعوی بغیر دلیل کے باطل ہے
=======================
تحریر: مقبول احمد سلفی
داعی /اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف
اس وقت عوام کی اکثریت سوشل میڈیا سے جڑی ہوئی۔ ہرمذہب، ہرقوم اور ہرسماج کے لوگ یہاں موجود ہیں جو جس قوم ومذہب اور سماج سے جڑے ہوئے ہیں اس قسم کی باتیں شیئر کررہے ہیں۔اور یہ بات بھی قابل توجہ ہےکہ کوئی چیز نٹ پہ شیئر ہوجاتی ہے تو پھر گردش میں آجاتی ہے ، ایک نے دوسرے کو ، دوسرے نے تیسرے کو اس طرح سے سماجی سرکل میں سرکولیٹ کرتی رہتی ہے ۔ شیعہ اپنی تعلیم کو نشر کررہاہے ، قادیانی اپنی دعوت پیش کررہاہے ، یہودونصاری اپنے مشن میں مشغول ہیں۔ فیس بوک ،واٹس اپ ، گوگل پلس، ٹویٹر، ٹیلی گرام، یوٹیوب اور دیگر سماجی ذرائع ابلاغ سے ہم تک شیعوں کی ، قادیانیوں کی اور یہود ونصاری تمام قسم کے اقوام وملل کی چیزیں منتقل ہوکر آرہی ہیں۔ منتقل مواد میں ریفرنس نہ کے برابر ہوتا ہے ۔ شیعہ کی بعض پوسٹوں میں لکھا ہوتا ہے نبی ﷺ نے فرمایا جبکہ بظاہر پوسٹ سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ شیعہ کی تعلیم ہے ، اسی طرح قادیانی کا معاملہ ہے ۔ یہ کافی تشویش ناک امر ہے ۔ اس سے زیادہ تشویش ناک یہ ہے کہ اسلام کے دشمن ہماری ہی زبان میں جھوٹی باتیں لکھ کر اور باقاعدہ معتبر کتابوں کا حوالہ دے کر مثلا بخاری ومسلم لوگوں میں پھیلاتا ہے جبکہ یہ چیز ان کتابوں میں مذکورہ بات نہیں ہوتی ۔ایسے حالات میں ایک مسلمان کی کیا ذمہ داریاں ہیں ؟ سوشل میڈیا کے ذریعہ ہم تک خبریں پہنچیں تو ہم کیا کریں ؟ ایک اہم سوال ہے ۔
سب سے پہلے ہم یہ جان لیں صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو قرآن اور حدیث کے علاوہ کسی بات کو ماننے سے روکتا ہے یعنی جو بات اللہ اور اس کے رسول کی نہ ہو اسے اسلام کا نام دے کر پھیلانا اسلام کے خلاف ہے ۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم وہی بات مانیں گے جو کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ میں ہے۔ اسی بات کا حکم بھی ہے اور اسی میں ہماری نجات بھی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
فبای حدیث بعد اللہ و آیاتہ یومنون(سورۃالجاثیۃ:6)
ترجمہ : پس اللہ تعالی اور اس کی آیتوں کے بعد کس حدیث (قرآن)پر ایمان لائيں گے۔
یعنی قرآن اور حدیث کے علاوہ ہمیں کسی پر ایمان لانے کی ضرورت ہی نہیں ۔مزید ایک دوسری جگہ اللہ تعالی اپنی اور اپنے پیغمبر کی ہی پیروی کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتاہے :
قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَ . (آل عمران :32)
ترجمہ:آپ فرما دیں کہ اﷲ اور رسول کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تواﷲ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح اللہ کی اطاعت قرآن کی صورت میں ضروری ہے ،اسی طرح نبی ﷺ کی اطاعت حدیث(قول ، فعل، تقریر اور صفت) کی صورت میں ضروری ہے بلکہ یہ دونوں اطاعتیں در اصل ایک ہی ہیں۔
جیساکہ اللہ کا فرمان ہے : مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۔ (النساء:80)
ترجمہ : جو شخص رسول کی اطاعت کرتا ہے، وہ گویااللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام کا ایک اصول ہے کوئی بات ہم بغیر دلیل کے تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ ہمارا دین دلیل و ثبوت پر قائم ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
لو يُعطى الناس بدعواهُم ، لادّعَى ناسٌ دماءَ رجالٍ وأموالهُم . ولكن اليمينَ على المدّعَى عليهِ(صحيح مسلم:1711)
ترجمہ: اگر صرف دعویٰ کی وجہ سے لوگوں کا مطالبہ مان لیا جانے لگے تو بہت سوں کا خون اور مال برباد ہو جائے گا لیکن قسم مدعیٰ علیہ پر ہے ۔
یہ حدیث ہمیں بتلاتی ہے کہ دعوی کرنے والے پر لازما دلیل دینی ہے بغیر دلیل کے کوئی دعوی تسلیم نہیں کیا جائے اور جو کسی معاملہ میں انکار کرے تو اسے قسم کھانی ہے ۔ مدعی کے ذمہ دلیل و برہان دینا ہے اس کی ایک واضح حدیث یہ ہے ۔
البيِّنةُ على المدَّعي واليَمينُ علَى مَن أنكرَ(إرواء الغليل:2685)
ترجمہ:دلیل دینا اس کے اوپرہے جو دعوی کرے اور قسم کھانا اس کے اوپر ہے جو انکار کرے ۔
اس وجہ سے اگر ہم سے کوئی زبانی دعوی کرے یا کوئی خبرسوشل میڈیا پہ ملے جو اسلام کی طرف منسوب کی گئی ہے تو بھیجنے والے سے دلیل و برہان طلب کریں گے اگر بھیجنے والا نہ بتاسکے تو ہم اپنے علماء سے پوچھیں گے کہ کیا اس بات کی اسلام میں کوئی دلیل ہے ، اگر دلیل مل جائے تو ٹھیک ورنہ اس بات کو نہ ماننا ہے اور نہ کہیں پھیلانا ہے ۔
یہ قاعدہ اپنے ذہن میں رکھیں اور صرف یہودونصاری اور شیعہ کے لئے نہیں بلکہ کوئی مسلمان بھی آپ سے ذکر کرے اور کہے کہ نبی ﷺ نے اس طرح فرمایا تو ان سے دلیل مانگیں کہ یہ حدیث کہاں ہے ۔ اگر حدیث مل جائے تو پھر دیکھیں کہ کہیں ضعیف یا گھڑی ہوئی تو نہیں ۔اگر ایسا ہے تو اس حدیث پر بھی عمل نہیں کیا جائے گا ,جو حدیث صحیح ہو بس اسی پر عمل کرنا ہے ۔
ان باتوں کے چند نمونے پیش کرتا ہوں ۔
قادیانی کی مثال :مرزاغلام احمد قادیانی کہتا ہے :تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے مکہ، مدینہ اور قادیان بحوالہ تذکرہ صفحہ 60، از مرزا قادیانی۔
یہ بالکل سفید جھوٹ ہے ، قرآن میں قادیان کا کہیں ذکر نہیں ہے ، پھربھی کوئی قادیانی آپ سے بحث کرے تو کہیں قرآن سے اس دلیل پیش کرواور یہ طے ہے کہ اسے دلیل کہیں بھی نہیں ملے گی۔
شیعہ کی مثال : ہندی اور اردو زبان میں آپ نے ایک پوسٹ دیکھا ہوگا اس کا عنوان ہے ” گھرمیں غربت آنے کے اسباب” اس کے تحت چالیس باتوں کاذکر ہے یعنی ان چالیس باتوں سے گھر میں غربت آتی ہے ۔ شیئر کرنے والا اس میسیج میں لکھتا ہے سب پہلے سینڈ کروکیونکہ جب تک کوئی یہ پیغامات پڑھتا رہے گا جنت میں آپ کے نام کا درخت لگتا رہے گا۔
جب میں نے ان باتوں کی تحقیق کی تو پتہ چلا یہ ساری باتیں شیعہ کی کتابوں میں ہیں اور ہم سادہ مسلمان اسے حدیث مصطفی سمجھ کر اس نیت سے شیئر کررہے ہیں کہ جنت میں ہمارے نام کا درخت لگتا رہے گا۔
بریلوی کی مثال : الیاس قادری بریلوی کا کہنا ہے کہ رات کو جھاڑو دینے سے تنگ دستی آتی ہے ۔ اس بات کو ہم قرآن وحدیث کی کسوٹی پہ پرکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے یہ سراسر جھوٹ ہے ، اس بات کا تنگ دستی یا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
دیوبندی تبلیغی کی مثال : مولانا طارق جمیل کے بہت سارے قصے کہانیاں لوگوں میں گردش کررہے ہیں مثلا اللہ تعالی نے نبی ﷺ کا جنازہ پڑھا، محمد علی جناح سے قبر میں طارق جمیل کی ملاقات وغیرہ ۔ کوئی بھی بات ہو شریعت سے اس کی دلیل ہے تو اھلاوسھلا ،نہیں تو مولانا طارق جمیل ہوں یا کوئی اورانکی بات رد کردی جائے گی۔
صوفیوں کی ٹولی بہت گمراہی پھیلارہی ہے ، بزرگوں اور اماموں کے نام پہ جھوٹی باتیں امت میں پھیلارہے ہیں اس لئے ہمیں ہرحال میں اسلام کی طرف منسوب باتوں کی دلیل ڈھونڈنی ہے اوراس کی تحقیق کرنی ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ يأيها الذين آمنوا إذا ضربتم في سبيل الله فتبينوا ولا تقولوا لمن ألقى إليكم السلام لست مؤمنا ﴾( سورة النساء :94)
ترجمہ: اے ایمان والو! جب اللہ کی راہ میں نکلو تو خوب تحقیق کر لیا کرو، اور جو شخص تم پر سلام کہے تو اسے (کافر سمجھ کر) یہ نہ کہو کہ تو مؤمن نہیں۔
جو بات بغیر دلیل کے ہواسے نہ ماننا ہےاور نہ کہیں شیئر کرنا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
كفى بالمرءِ كذبًا أن يُحَدِّثَ بكلِّ ما سمِع( صحيح مسلم [المقدمة])
ترجمہ: کسی انسان کے جھوٹا اور ایک روایت کے مطابق گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے۔