─━•<☆⊰✿﷽✿⊱☆>•━
┄┄┅┅✪❂✵✵❂✪┅┅┄
✍️ تحریر:الشیخ ابو عمير حزب الله بلوچ*
✍️اردو ترجمہ: حافظ محسن انصاری حفظہ اللہ۔ ┄┄┅┅✪❂✵✵❂✪┅┅┄┄
صحابی اس عظیم انسان کو کہا جاتا ہے جس نے ایمان کی حالت میں محمد رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہو اور وفات بھی اسی حالت میں ہوئی ہو-
✿ ہر صحابی رشد وہدایت میں مینارہ نور ہے. اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان کی صفات عالیہ اور اوصاف حمیدہ کا تذکرہ بکثرت فرمایا ہے. اس لیے کہ صحابہ کرام ہی قرآن مجید کے اولین مخاطب ہیں.
⭐ إِنَّ اللَّهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ …..
📚 (مسنداحمد: ٣٦٠٠، طبرانی اوسط: ٣٦٠٢، حسنه الألباني في تخريج الطحاوية ص٥٣٠، وقال الشيخ شعيب الأرنؤوط: إسناده حسن.)
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو اس نے قلب محمد ﷺ کو تمام انسانوں کے قلوب میں سے بہتر پایا، اس لیے اس نے محمد ﷺ کو اپنے لیے منتخب کر لیا اور ان کو رسالت کے ساتھ مبعوث کیا۔ پھر اس نے آپ ﷺ دل کے انتخاب کے بعد باقی بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی اور اصحاب محمد ﷺ کے قلوب کو تمام انسانوں کے قلوب سے بہتر پایا، اس لیے اس نے انہیں اپنے نبی کے وزراء ( اورساتھی) بنا دیا.
✺ جو اللہ تعالی کی راہ میں دین اسلام کے لیے لڑتے رہے. 📚 (طبراني کبیر: ٨٥٨٢)
✺ سيدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول حکما مرفوع ہے. جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ تمام صحابہ کرام اللہ تعالی کے چنیدہ ہیں. ان کے دل بالکل پاک اور صاف ہیں.
⭐ اسی سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ مرفوع روایت بھی ہے جس کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں:
إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى اخْتَارَنِيْ وَاخْتَارَ لِيْ أَصْحَابًا فَجَعَلَ لِيْ مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَّلَا عَدْلٌ. 📚 (مستدرک حاکم: ٦٦٥٦. صححه الحاکم و وافقه الذهبي. طبرانی اوسط: ٤٥٦،)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے مجھے منتخب فرمایا اور میرے ساتھیوں کو بھی چنا. ان میں سے کچھ کو اللہ تعالی نے میرے لیے وزیر اور خلفاء اور بعض کو انصار و مددگار اور بعض کو میرا سسرالی بنایا ہے. جو شخص بھی ان کے بارے کم و بیش بات کرے گا اس پر اللہ تعالی، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول کیا جاۓ گا اور نہ ہی نفل.
✺ محترم قارئین! اس حدیث سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ صحابہ کرام کی کیا عظمت وشان ہے. مزید وضاحت کے لیے ہم نے زیر نظر مضمون تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:
✺●═🍃◐🌸◑🍃═●✺
(1) عظمت صحابہ قرآن کی نظر میں
(2) عظمت صحابہ مصطفيٰ ﷺ کی نظر میں.
(3) عظمت صحابہ اور سلف صالحين.
💠 (1) عظمتِ صحابہ قرآن کی نظر میں: ♦️
✺●═🍃◐🌸◑🍃═●✺
⭐ وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ١ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ. 🌻(التوبة: 100)
اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
✺ قارئین کرام اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی نے صحابہ کرام کو اپنی رضامندی اور جنت کا سرٹیفیکٹ اس دنیا میں ہی عطا کردیا تھا. وہ رضا مندی جو اللہ تعالی اہل جنت کو بھی سب سے آخر میں عطا کرے گا وہ دنیا میں ہی صحابہ کرام کو عطا فرما دی :
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ لِأَهْلِ الْجَنَّةِ : يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ. يَقُولُونَ : لَبَّيْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْكَ. فَيَقُولُ : هَلْ رَضِيتُمْ ؟ فَيَقُولُونَ : وَمَا لَنَا لَا نَرْضَى، وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ ؟ فَيَقُولُ : أَنَا أُعْطِيكُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ. قَالُوا : يَا رَبِّ، وَأَيُّ شَيْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ ؟ فَيَقُولُ : أُحِلُّ عَلَيْكُمْ رِضْوَانِي فَلَا أَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا
📚 (صحيح بخاري: 6549، مسلم: 183، 2829)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا کہ اے جنت والو! جنتی جواب دیں گے ہم حاضر ہیں اے ہمارے پروردگار! تیری سعادت حاصل کرنے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اب تم لوگ خوش ہوئے؟ وہ کہیں گے اب بھی بھلا ہم راضی نہ ہوں گے کیونکہ اب تو، تو نے ہمیں وہ سب کچھ دے دیا جو اپنی مخلوق کے کسی آدمی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تمہیں اس سے بھی بہتر چیز دوں گا۔ جنتی کہیں گے اے رب! اس سے بہتر اور کیا چیز ہو گی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب میں تمہارے لیے اپنی رضا مندی کو ہمیشہ کے لیے دائمی کر دوں گا یعنی اس کے بعد کبھی تم پر ناراض نہیں ہوں گا۔
⭐ مذکورہ بالہ آیت کریمہ میں تین جماعتوں (1) مهاجرين (2) انصار (3) اور ان کی اخلاص کے ساتھ پیروی کرنے والوں پر اللہ تعالی کے کیے گئے انعامات کا تذکرہ ہے.
مھاجر وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین کے لیے اپنے وطن، گھروں اور بچوں کی قربانی دی.
اور انصار وہ ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ مھاجر بھائیوں کے لیے قربان کردیا.
اور ان کی پیروی کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ان جیسا ایمان لاۓ اور راہ حق میں قربانیاں پیش کیں.
یاد رہے کہ: رسول اللہ ﷺ کے تمام صحابہ ان تین جماعتوں میں شامل ہیں جس سے ثابت ہوا کہ یہ خوشخبری تمام صحابہ کرام کے لیے ہے.
⭐ اللہ کے رسول ﷺ صحابہ کرام کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلأنْصارِ، ولِأبْناءِ الأنْصارِ، ولِأبْناءِ أبْناءِ الأنْصارِ، ولِنِساءِ الأنْصارِ ولِأزْواجِ الأنْصارِ، ولِذَرارِيِّ الأنْصارِ ولِمَوالِي الأنْصارِ۔
اے اللہ! انصار، انکی اولاد، انکی اولاد کی اولاد اور ان کے مردوں عورتوں اور غلاموں کی مغفرت فرما.
📚(صحیح بخاری: 4906. مسلم: 2506. ترمذی ۔ مسنداحمد وغیرھم)
اور آپ ﷺ نے فرمایا: تمام لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ لوگ انصار ہیں.
📚(صحيح مسلم، کتاب الفضائل الاصحاب، باب من فضائل الانصار، رقم الحديث: 172-173-174)
⭐ دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا:
وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِيْمٌ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰٓىِٕكَ مِنْكُمْ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌؒ۔ 🌻 (الانفال: 74-75)
اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں، انھی کے لیے بڑی بخشش اور باعزت رزق ہے۔اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا تو وہ تم ہی سے ہیں، اور رشتے دار اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔ بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
❁ ان آیات میں اللہ تعالی نے تمام صحابہ کرام ہجرت سے قبل اور بعد ایمان لانے والوں بارے وضاحت فرمائی ہے اور انہیں جہاد کرنے والا، دین کی مدد کرنے والا اور حقیقی مؤمن قرار دیا ہے.
⭐ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے:
لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًاۙ۔ 🌻 (الفتح: 18)
بلاشبہ یقینا اللہ ایمان والوں سے راضی ہوگیا، جب وہ اس درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، تو اس نے جان لیا جو ان کے دلوں میں تھا، پس ان پر سکینت نازل کردی اور انھیں بدلے میں ایک قریب فتح عطا فرمائی۔
⭐ اس آیت میں اللہ تعالی نے حدیبیہ کے مقام پر بیعت رضوان میں شریک ہونے والے صحابہ کرام کا ذکر فرمایا ہے، جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے دست مبارک پر موت کی بیعت کی. ان صحابہ کرام کی تعداد ایک ہزار سے پندرہ سو تک تھی. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اس وقت زمین پر تم سب سے بہترین انسان ہو اور نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ: درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا.
📚 (صحیح بخاري ومسلم وغيرهما ومسلم کتاب الفضائل، رقم: 2496)
⭐ معزز قارئين! غور کریں کہ اللہ تعالی نے کس طرح صحابہ کی فضیلت اور عظمت بیان کی ہے.
💠 صحابہ کرام کا جذبہ انفاق فی سبیل اللہ اور اللہ کے ہاں اس کی قدر: ♦️
✺●═🍃◐🌸◑🍃═●✺
⭐ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:
لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ اُولٰٓىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْا١ؕ وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ. 🌻(الحديد: 10)
تم میں سے جس نے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور جنگ کی وہ (یہ عمل بعد میں کرنے والوں کے) برابر نہیں۔ یہ لوگ درجے میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنھوں نے بعد میں خرچ کیا اور جنگ کی اور ان سب سے اللہ نے اچھی جزا کا وعدہ کیا ہے اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، خوب باخبر ہے۔
✿ اس آیت میں اللہ تعالی نے واضح فرمادیا کہ فتح مکہ سے پہلے مشکل حالات میں خرچ کرنے والے صحابہ کرام کے اجر و ثواب کو بعد والوں میں سے کوئی نہیں پہنچ سکتا.
⭐ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيْفَهٗ.
📚 (صحیح بخاري: 3673)
اگر تم (آخر میں ایمان لانے والے صحابہ کرام)میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کر ڈالے تو وہ ان (سابقین، اولین )کے ایک مد یا آدھے مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا.
💠 صحابہ کا ایمان دوسروں کے ایمان کے لیے نمونہ اور کسوٹی ♦️
✺●═🍃◐🌸◑🍃═●✺
⭐ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:
فَاِنۡ اٰمَنُوۡا بِمِثۡلِ مَاۤ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ فَقَدِ اہۡتَدَوۡا ۚ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا ہُمۡ فِیۡ شِقَاقٍ ۚ فَسَیَکۡفِیۡکَہُمُ اللّٰہُ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۱۳۷﴾ البقرہ۔
سو اگر یہ اہل کتاب ایسے ہی ایمان لائیں جیسے تم (صحابہ کرام) ایمان لائے ہو تو وہ بھی ہدایت پالیں گے اور اگر اس سے منہ پھیریں تو وہ ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہیں۔ لہٰذا اللہ ان کے مقابلے میں آپ کو کافی ہے اور وہ ہر ایک کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔
✺ معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کے بعد ایمان لانے والوں کے لیے صحابہ کرام کا ایمان ایک کسوٹی اور حصول ہدایت کے لیے شرط ہے.
💠 اب تم جو بھی عمل کرو ♦️
اسلام اور کفر کے درمیان ہونے والی پہلی جنگ عظیم کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کی سورة آل عمران وغیرہ میں بیان فرمایا ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد انتہائی کم 313 تھی اور تمام بہت ذیادہ طاقت میں تھے. لیکن حقیقی سپر پاور اللہ تعالی نے صحابہ کرام کی ایسی غیبی مدد فرمائی کہ کفار کے چھکے چھڑا دیے. اس جنگ بدر میں شریک ہونے والے صحابہ کرام کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا:
اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الْجَنَّةُ، أَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ.
📚 (بخاري، کتاب المغازي، باب فضل من شهد بدرا، رقم: 3983، 3007، 4274، 7890، 6259)
اب تم جو چاہو عمل کرو، میں نے تمہیں معاف کرکے تمہارے لیے جنت کو واجب کردیا ہے.
💠 گذشتہ آسمانی کتب میں صحابہ کا تذکرہ ♦️
✺●═🍃◐🌸◑🍃═●✺
⭐ اللہ تعالی نے محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کے متعلق ارشاد فرمایا:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ١ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِيْمًاؒ۔ 🌻(الفتح: 29)
محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ (صحابہ کرام)جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔
✺ یہ آیت اپنے مطلب میں بالکل واضح ہے. اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص اپنی زبان ان پاکباز ہستیوں کے خلاف استعمال کرے تو پھر یہ اس کی خباثت کی واضح دلیل ہے.
💠 عظمتِ صحابہ مصطفی کریم ﷺ کی نظر میں ♦️
✺●═🍃◐🌸◑🍃═●✺
❁ صحابہ کرام رضوان اللہ عليهم اجمعين کا وجود امت کے لیے امن و سلامتی اور برکت کا باعث ہے.
⭐ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِيْ ثمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ يَجِيْءُ أَقْوَامٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِيْنَهٗ وَ يَمِيْنَهٗ شَهَادَتَهٗ.
📚(صحیح بخاري، کتاب فضائل اصحاب النبي ﷺ: 3650، 3651، مسلم: 6469 تا 6478)
بہترین زمانہ میرا ہے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے پھر ان لوگوں کا جو اس کے بعد آئیں گے۔ اس کے بعد ایک ایسی قوم پیدا ہو گی کہ گواہی دینے سے پہلے قسم ان کی زبان پر آ جایا کرے گی اور قسم کھانے سے پہلے گواہی ان کی زبان پر آ جایا کرے گی۔
✿اس حدیٹ میں نبی کریم ﷺ نے صحابہ کے زمانہ کو سب سے بہترین زمانہ قرار دیا ہے.
⭐ نبی کریم ﷺ اکثر آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے. ایک دفعہ آپ ﷺ نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوۓ فرمایا:
آسمان کے تارے آسمان کے لیے باعث امن ہیں جب یہ چلے جائیں گے تو آسمان کو وہ چیز لاحق ہوجاۓ گی جس کا وعدہ کیا گیا ہے (يعنی قيامت). اور میں اپنے صحابہ کے لیے امان ہوں ۔ جب میں چلا جاؤں گا تو میرے اصحاب پر وہ ( فتنے ) آ جائیں گے جن سے ان کو ڈرایا گیا ہے اور میرے صحابہ میری امت کے لیے امان ہیں ۔ جب وہ چلے جائیں گے تو میری امت وہ ( فتنے ) آ جائیں گے جن سے اس کو ڈرایا گیا ہے.
📚 (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب بيان ان بقاء النبي ﷺ امان لاصحابہ ، رقم: 6466)
⭐ یہاں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو ستاروں سے تشبیہ دی ہے. ستاروں کا ختم ہونا قیامت کے واقع ہونے کی نشانی ہے اور قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ستاروں کے متعلق فرمایا:
وَ بِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُوْنَ۔🌻(النحل: 16)
اور ستاروں کے ذریعے لوگ ہدایت حاصل کرتے ہیں یعنی رات کے سفر میں بھٹکا ہوئے مسافر ستاروں کو دیکھ کر اطراف معلوم کرتے ہیں. اگر ستارے نہ ہوتے تو یہ بھٹکتا ہی رہتے. اسی طرح صحابہ کرام بھی امت کے لیے باعث رشد و ہدایت اور ضمانت امن وسلامتی ہیں. اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فتنوں کے دور میں بچاؤ کے اسباب ذکر کرتے ہوۓ فرمایا:
فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِىْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّيْنَ.
📚 (ترمذي، ابواب العلم، باب ما جاء في الاخذ بالسنة، رقم: 2676، الصحيحة رقم: 937)
یعنی اس وقت تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر مضبوطی سے تمسک اختیار کرنا.
❁ صحابہ کرام کے بعد امت محمدیہ تنزلی اور تباہی کی طرف جاتی رہی اور بڑے فتنوں اور فسادات کا شکار ہوگئی.
⭐ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام نے بڑی محنت و مشقت اور بھوکا پیاسا رہ کر بھی نبی ﷺ سے دین حاصل کیا. قرآن اور احادیث مبارکہ یاد کرکے دوسروں کو سکھایا. اس طرح مختلف زمانے گذرنے کے بعد بھی دین اسلام صحیح سالم حالت میں ہم تک پہنچا.
💠 صحابہ ڪرام کا وجود باعثِ برڪت ♦️
✺●═🍃◐🌸◑🍃═●✺
⭐ نبی کریم ﷺ نے فرمايا:
ایک زمانہ آئے گا کہ اہل اسلام کی جماعتیں جہاد کریں گی تو ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تمہارے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا کوئی صحابی بھی ہے؟ وہ کہیں گے کہ ہاں ہیں۔ تب (اس صحابی کی دعا کی برکت سے) ان کی فتح ہو گی۔ پھر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ مسلمانوں کی جماعتیں جہاد کریں گی اور اس موقع پر یہ پوچھا جائے گا کہ یہاں رسول اللہ ﷺ کے صحابی کا کوئی شاگرد ( تابعی ) بھی موجود ہیں؟ جواب ہو گا کہ ہاں ہیں اور ان کے ذریعہ فتح کی دعا مانگی جائے گی، اور فتح نصیب ہوگی اس کے بعد ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مسلمانوں کی جماعتیں جہاد کریں گی اور اس وقت سوال اٹھے گا کہ کیا یہاں کوئی بزرگ ایسے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے شاگردوں میں سے کسی کے شاگرد ہوں(تبع تابعی)؟ جواب ہو گا کہ ہاں ہیں، تو ان کے ذریعہ فتح کی دعا مانگی جائے گی پھر ان کی فتح ہو گی.
📚 (صحیح بخاري، کتاب فضائل اصحاب النبي ﷺ، رقم: 3649-8297-3594)
💠 عظمت صحابہ اور سلف صالحين ♦️
✺●═🍃◐🌸◑🍃═●✺
⭐ سيدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
إِنَّ اللهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ،فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ.
📚 (مسند احمد ج 1 ص379 ح 3600 صححه الالباني الضعيفة تحت حديث : 533. وحسنه الارناؤط رحمهم الله )
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو اس نے قلب محمد ﷺ کو تمام انسانوں کے قلوب میں بہتر پایا، اس لیے اس نے محمد ﷺ کو اپنے لیے منتخب کر لیا اور ان کو رسالت کے ساتھ مبعوث کیا۔ پھر اس نے اس دل کے انتخاب کے بعدباقی بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی اوراصحاب محمد ﷺ کے قلوب کو تمام انسانوں کے قلوب سے بہتر پایا، اس لیے اس نے انہیں اپنے نبی کے وزراء ( اورساتھی) بنا دیا. جنہوں نے دین کی مدد کے کیے جانیں پیش کیں.
⭐ وفي رواية له قال : مَن كانَ مِنكُمْ مُتَأسِّيًا فَلْيَتَأسَّ بِأصْحابِ مُحَمَّدٍ ﷺ؛ فَإنَّهُمْ كانُوا أبَرَّ هَذِهِ الأُمَّةِ قُلُوبًا وأعْمَقَها عِلْمًا وأقَلَّها تَكَلُّفًا وأقْوَمَها هَدْيًا وأحْسَنَها حالًا، قَوْمًا اخْتارَهُمُ اللَّهُ تَعالى لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ ﷺ، فاعْرِفُوا لَهُمْ فَضْلَهُمْ واتَّبِعُوهُمْ فِي آثارِهِمْ؛ فَإنَّهُمْ كانُوا عَلى الهُدى المُسْتَقِيمِ»).
📚 (جامع بيان العلم وفضله 2/947 ح 1810 ، الصحيحة تحت حديث : 2648)
⭐ اللہ تعالي فرماتا ہے کہ:
قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ.🌻(النمل:59)
کہہ دے سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے اس کے ان بندوں پر جنھیں اس نے چن لیا.
عظیم مفسر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: اللہ کے ان چنیدہ ہوۓ بندوں سے مراد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ہیں.
📚 ( تفسير الطبري 20/2 ، تفسير ابن کثير 3/370 الاستيعاب 1/13تفسير القرطبي)
⭐ ام المؤمنين سيده عائشہ رضی اللہ عنها نے اپنے بھانجے عروہ رحمہ اللہ کو نصیحت کرتے ہوۓ فرمایا:
يَا ابْنَ أُخْتِي، أُمِرُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَبُّوهُمْ.
یعنی لوگوں کو تو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ نبی ﷺ کے اصحاب کے لیے استغفار کریں مگر انھوں نے ان کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا !!. 📚 (صحيح مسلم :3022)
⭐ امير المومنين سيدنا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے فرماتے ہیں کہ :
واللهِ! لَقَدْ رَأيْتُ أصْحابَ مُحَمَّدٍ ﷺ؛ فَما أرى اليَوْمَ شَيْئًا يُشْبِهُهُمْ، لَقَدْ كانُوا يُصْبِحُونَ صُفْرًا شُعْثًا غُبْرًا، بَيْنَ أعْيُنِهِمْ كَأمْثالِ رُكَبِ المَعْزِ، قَدْ باتُوا لِلَّهِ سُجَّدًا وقِيامًا يَتْلُونَ كِتابَ اللهِ ﷿، ويراوحون بَيْنَ جِباهِهِمْ وأقْدامِهِمْ، فَإذا أصْبَحُوا وذَكَرُوا اللهَ ﷿؛ مادُوا كَما تَمِيدُ الشَّجَرُ فِي يَوْمِ الرِّيحِ، وهَمِلَتْ أعْيُنُهُمْ حَتّى تُبَلَّ ثِيابُهُمْ…
📚 (البداية والنهايه ج 8 ص 7 ط احياء التراث. أبو نعيم في الحلية 1/76 وابن عساكر 42/492 .)
⭐ مطلب آپ نے صحابہ کرام کے عمل، رات کے قیام، تہجد اور اللہ تعالی کے خوف کی مثالیں بیان فرمائی اور خوف تعریفیں کی.
⭐نوٹ ان الفاظ کے ساتھ ایک روایت شیعہ مذہب کی کتاب نهج البلاغة (خطبہ:95) میں بھی موجود ہے. مزید دیکھیے کتاب عظمت صحابہ از پروفیسر محمد جمن کنبھر حفظہ اللہ ص 98)
⭐ سيدنا سعيد بن زيد رضی اللہعنہ فرماتے ہیں:
لَمَشْهَدُ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُغَبَّرُ فِيهِ وَجْهُهُ ؛ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ، وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ.
📚 (سنن ابوداؤد: 4650)
بے شک پھر ان ( صحابہ کرام ) میں سے کسی کی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی جنگ میں صرف اس قدر شرکت کہ جس میں اس کا چہرہ غبار آلود ہو جائے یہ زیادہ بہتر ہے اس سے کہ تم میں کوئی شخص اپنی عمر بھر عمل کرے اگرچہ اس کو نوح علیہ السلام کی عمر ہی کیوں دے دی جائے۔
⭐ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنهما فرماتے تھے :
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَلَمُقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمْرَهُ. 📚(سنن ابن ماجة:162)
اصحاب محمد ﷺ کو گالیاں نہ دو، ان کا نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں صرف ایک لمحہ رہنا تمہارے ساری عمر کے عمل سے بہتر ہے .
⭐ مشهور تابعی ميمون بن مهران رحمہ الله نے فرمایا:
ثَلاثٌ ارْفُضُوهُنَّ: سَبُّ أصْحابِ مُحَمَّدٍ ﷺ، والنَّظَرُ فِي النُّجُومِ، والنَّظَرُ فِي القَدَرِ۔
تین کاموں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دو: محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کو برا کہنا، نجومیوں کی تصدیق کرنا اور تقدیر کا انکار کرنا.
📚 (فضائل الصحابة للامام احمد بن حنبل : رقم 19 ، 1739)
⭐ امام عوام بن حوشب اور شهاب بن حراش رحمهم اللہ سے مختف الفاظ سے منقول ہے کہ:
أردكْتُ مَن أدْرَكْتُ مِن صَدَرَةِ هَذِهِ الأُمَّةِ، وهُم ويَقُولُونَ: اذكرُوا مَجْلِسَ أصْحابِ رَسُولِ اللهِ -ﷺ- ما تَأْتَلِفُ عَلَيْهِ القُلُوبُ، ولاَ تَذْكُرُوا الَّذِي شَجَرَ بَيْنهُم، فَتُحرِّشُوا عَلَيْهِم النّاسَ.
📚 (ميزان الاعتدال:3750 .الڪامل لابن عدي . الشريعة للآجري:1981.جامع بيان العلم وفضله :2197. السنة للخلال )
اس امت کے اسلاف (خير القرون والے صحابہ ،تابعین، وتبع تابعین) فرمایا کرتے تھے: لوگوں کے سامنے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی نیکیاں بیان کیا کرو اور ان کے اجتہادی اختلافات بیان کرکے لوگوں کو ان کے بارے بھڑکایا نہ کرو.
⭐ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:
۔۔كُنّا عِنْدَ مالِكٍ فَذَكَرُوا رَجُلًا يَنْتَقِصُ أصْحابَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَرَأ مالِكٌ هَذِهِ الآيَةَ: ﴿مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ والَّذِينَ مَعَهُ أشِدّاءُ﴾ [الفتح ٢٩] حَتّى بَلَغَ: ﴿يُعْجِبُ الزُّرّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الكُفّارَ﴾ [الفتح ٢٩] فَقالَ مالِكٌ: مَن أصْبَحَ فِي قَلْبِهِ غَيْظٌ عَلى أحَدٍ مِن أصْحابِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَدْ أصابَتْهُ الآيَةُ۔
جو انسان اس حال میں صبح کرے کہ اس کے دل میں کسی ایک صحابی کے لیے غصہ (نفرت ، بغض یا حسد) موجود ہو تو وہ اس آیت (الفتح :29) میں ذکر کی گئی وعید کا مستحق ہوگا.
📚 (حلية الاولياء ج 6 ص 327 ، شرح السنة للبغوي ج 1ص 22)
⭐ امام ابو ذرعہ رحمہ الله نے فرمایا :
جو بھی انسان صحابہ کرام کی تنقیص کرے تو وہ زندیق یعنی سخت قسم کا گمراہ ہے .📚 (تاريخ بغداد 38/132 والکفاية /97 ).
⭐ إمام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
خَصْلَتانِ مَن كانَتْ فِيه؛ الصِّدْقُ وحُبُّ أصحابِ محمَّدٍ ﷺ، فَأرْجُو أنْ ينجُوَ إنْ سَلِم۔
جس انسان میں (دو) خصلتیں جمع ہوگئیں: سچائی اور اصحابِ محمد ﷺ سے محبت تو میں امید رکھتا ہوں کہ اگر وہ (شرک و کفر) سے محفوظ رہا تو ضرور نجات پاجائے گا.
📚 (الطیوریات 2/331 ح 274 وسندہ حسن)
✿ صحابہ کرام کے بارے اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے جسے عقیدہ کی عظیم کتاب العقيدة الطحاوية (93) میں یوں ذکر فرمایا گیا ہے کہ:
ونُحِبُّ أصْحابَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ولا نُفَرِّطُ فِي حُبِّ أحَدٍ مِنهُمْ ولا نَتَبَرَّأُ مِن أحَدٍ مِنهُمْ ونُبْغِضُ مَن يُبْغِضُهُمْ وبِغَيْرِ الخَيْرِ يَذْكُرُهُمْ ولا نَذْكُرُهُمْ إلّا بِخَيْرٍ حُبُّهُمْ دِينٌ وَإيۡمانٌ وإحْسَانٌ، وبُغْضُهُمْ كُفْرٌ ونِفاقٌ وطُغْيانٌ.
ہم رسول اللہ ﷺ کے تمام صحابہ سے محبت کرتے ہیں اور کسی ایک کی محبت میں افراط وتفریط کا شکار نہیں ہوتے اور نہ ہی کسی صحابی سے اعلان برائت کرتے ہیں بلکہ جو آدمی صحابہ کرام کا ذکر خیر نہ کرے بلکہ نفرت کرے تو ہم ایسے لوگوں سے بغض اور نفرت کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ سے محبت کرنا دین ہے، ایمان ہے، نیکی اور بھلائی ہے اور ان سے بغض رکھنا اور نفرت کرنا کفر، نفاق اور سرکشی ہے.
❁ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں صحابہ کرام سے سچی پکی محبت عطا فرماۓ اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوۓ دین اسلام کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرماۓ. (آمين یا رب العالمین)۔