سوال : کیا رمضان کے دن میں بطور علاج انجکشن لگوانے یاحقنہ کرانے سے صوم متاثر ہوتا ہے ؟
جواب : علاج والے انجکشن دو قسم کے ہوتے ہیں :
(1) وہ انجکشن جن سے غذا اور قوت مقصود ہو، اور اس کی وجہ سے آدمی کھانے پینے سے بے نیاز ہو جائے، تو غذا کے ہم معنی ہونے کی وجہ سے ایسا انجکشن مفطر صوم ہو گا۔ اس لئے کہ جب کسی صورت میں نصوص شرع کے وہ معنی پائے جائیں جن پر وہ مشتمل ہیں تو اس صورت پر اس نص کا حکم لاگو ہو گا۔
(2) وہ انجکشن جو غذا اور قوت کا کام نہیں دیتا یعنی آدمی اس سے کھانے اور پینے سے بے نیاز نہیں ہوتا ہے، تو ایسا انجکشن مفطر صوم نہیں ہو گا۔ اس لئے کہ نص شرع اس کو لفظ اور معنی کسی صورت میں شامل نہیں ہے۔ کیوں کہ نہ تو یہ کھانا اور پانی ہے اور نہ کھانا اور پانی کے ہم معنی ہے۔ اور اصل صیام کا صحیح ہونا ہے جب تک کہ دلیل شرعی کے تقاضے سے کوئی ایسی چیز نہ ثابت ہو جو صوم کو فاسد کرنے والی ہو۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “
——————
سوال : رمضان کے دنوں میں صائم کے خوشبو استعمال کر نے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : رمضان کے دن میں خوشبو سونگھنے اور استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ وہ ’’ بخور“ نہ ہو۔ کیونکہ بخورمیں دھوئیں کی شکل میں جرم ہوتا ہے جو معدہ تک پہونچتا ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “
——————
سوال : رمضان کے دن میں آنکھ اور کان میں دوا استعمال کرناکیا مفطر صوم ہے یا نہیں ؟
جواب : صحیح بات یہ ہے کہ آنکھ میں دوا ڈالنا مفطر صوم نہیں ہے۔ اگرچہ اس سلسلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ کیوں کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ جب دوا کا مزہ حلق تک پہونچ جائے تو وہ مفطر صوم ہے۔ لیکن صحیح بات یہی ہے کہ وہ مطلق طور پر مفطر نہیں ہے۔ اس لئے کہ آنکھ (منفذ) کھانے پینے کی جگہ نہیں ہے۔ پھر بھی جو شخص دوا کا مزہ حلق میں پائے اور اختلاف سے بچتے ہو ئے احتیاطاً اس دن کی قضا کر لے تو کوئی حرج نہیں، مگر صحیح بات یہی ہے کہ وہ مفطر صوم نہیں ہے، چاہے آنکھ میں دوا ڈالے یا کان میں۔ ’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “
——————
سوال : کتاب ’’ الضیاء اللامع“ میں ماہ رمضان اور صیام سے متعلق ایک خطبہ کے اندر درج ذیل عبارت ہے :
ولا يفطر أيضا إذاغلبه القئ وإذاداوي عينيه أو أذنه أو قطر فيها
’’ اور جب آدمی کو خود بخود قئی ہو جائے، اور جب اپنی آنکھوں یا کانوں کا علاج کرائے یا آنکھ اور کان میں دوا ڈالے تو بھی اس کا صوم نہیں ٹوٹتا“۔
اس سلسلہ میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
جواب : مذکورہ بالا عبارت میں جو یہ بات کہی گئی ہے کہ جو شخص اپنی آنکھ اور کان میں دوا ڈالے تو اس سے اس کا صوم فاسد نہیں ہو گا، وہ صحیح ہے۔ اس لئے کہ عرف عام میں اور شریعت کی زبان میں اسے نہ تو کھانا کہا جاتا ہے اور نہ پینا۔ اور اس لئے بھی کہ یہ ایسے راستے سے داخل ہوتا ہے جو کھانے اور پینے کا راستہ نہیں ہے۔ اور اگر آنکھوں اور کانوں میں دوا ڈالنا رات تک مؤخر کر دے تو اختلاف سے بچنے کے لئے زیادہ محتاط بات ہے۔ اسی طرح اگر خود بخود قے ہو جائے تو اس سے بھی صوم فاسد نہیں ہوتا ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ نیز شریعت اسلامیہ رفع حرج پر مبنی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :
وَمَاجَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [22-الحج : 78]
’’ اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی“۔
علاوہ ازیں اور بھی دلائل ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
من ذرعه القئ فلاقضاء عليه، ومن استقاء فعليه القضاء [صحيح : صحيح سنن أبى داؤ د، الصوم باب الصائم يستقي عامد اً 32 رقم 2084۔ 2380 بروايت ابوهريره رضي الله عنه، صحيح سنن ترمذي، الصوم باب من استقاء عمداً 25 رقم 577۔ 723، صحيح سنن ابن ماجه، الصيام 7 باب ماجاء فى الصائم يقئي 16 رقم 1359۔ 1676، صحيح الجامع رقم 6243، الإرواء رقم 923۔ 930]
’’ جس کو خود بخود قے ہو جائے تو اس پر قضا نہیں ہے اور جو شخص قصداً قے کرے تو اس پر قضا ضروری ہے “۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ“
——————
سوال : کیا صیام و صلاۃ کے دوران بالوں میں منہدی لگانا جائز ہے ؟ میں نے سنا ہے کہ منہدی لگانا مفطر صوم ہے۔
جواب : اس قول کا صحت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے کہ صیام کے دوران منہدی لگانا نہ تو صوم کو توڑتا ہے اور نہ صائم پر کسی طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ جیسے سرمہ لگانا، کان اور آنکھ میں دوا ٹپکانا یہ سب چیزیں نہ تو صائم کے لئے مضر اور نقصان دہ ہیں اور نہ صوم کو توڑتی ہیں۔
رہا مسئلہ اثناء صلاۃ منہدی لگانے کا تو یہ سوال میری سمجھ میں نہیں آیا۔ کیوں کہ جو عورت صلاۃ ادا کر رہی ہو اس وقت وہ منہدی نہیں لگا سکتی۔ شاید کہ سوال کامقصد یہ ہو کہ عورت جب منہدی لگا لے تو کیا اس کا وضو صحیح ہو گا ؟
اس کا جو اب یہ ہے کہ منہدی صحت وضو سے مانع نہیں ہے۔ کیوں کہ منہدی جرم (جسم) والی چیز نہیں ہے جو پانی پہونچنے سے مانع ہو۔ یہ تو صرف رنگ ہے اور وضو میں موثر صرف جسم والی چیز ہوتی ہے جو پانی پہنچنے سے مانع ہو۔ وضو کے صحیح ہونے کے لئے ایسی چیز کا زائل کرنا ضروری ہے۔ ’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “
——————
سوال : بھول کر کھانے پینے والے شخص کا کیا حکم ہے ؟ اور جو شخص کسی کو بھول کر کھاتا اور پیتا دیکھے کیا اس پر اس کے صوم کو یاد دلانا واجب ہے ؟
جواب : جو شخص صوم کی حالت میں بھول کر کھا لے، یا پی لے تو اس کا صوم صحیح ہو گا۔ البتہ یاد آنے پر فوراً باز آ جانا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ اگر کھانے کا لقمہ یا پانی کا گھونٹ اس کے منہ میں ہو تو اس کو تھوک دینا ضروری ہے۔ اس کے صوم کے صحیح ہونے کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے : من نسي وهو صائم فأكل أو شرب فليتم صومه، فإنما أطعمه الله وسقاه [ صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب الصائم إذا أكل أو شرب ناسياً 26 رقم 1933 بروايت ابو هريره رضي الله عنه، صحيح مسلم، الصيام 13 باب أكل الناسي وشربه وجماعه لايفطر 33 رقم 171۔ 1155]
’’ جو شخص صوم کی حالت میں بھول کر کھا لے، یا پی لے، تو اسے اپنا صوم پورا کرنا چاہیے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کھلایا اور پلایا ہے “۔
نیز انسان بھول چوک کی وجہ سے کسی ممنوع چیز کو کر ڈالے تو اس پر اس کا مواخذہ نہیں ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا [2-البقرة:286]
’’ اے ہمارے رب ! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا“۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا قد فعلت جا میں نے ایسا کر دیا۔
اور جو شخص صائم کو کھاتے پیتے دیکھے اس پر اسے یاد دلانا ضروری ہے۔ کیوں کہ اس کا شمار منکر کی تبدیلی میں ہے۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
من رأي منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه [صحيح: صحيح مسلم، الإيمان 1 باب بيان كون النهي عن المنكر عن الإيمان 20 رقم 78۔ 49]
’’ تم میں سے جو شخص کوئی غلط کام دیکھے تو چاہیے کہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے اور اگر نہ طاقت رکھے تو اپنی زبان سے اصلاح کرے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنے دل سے برا جانے “۔
اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صائم کا حالت صوم میں کھانا اور پینا منکر میں سے ہے۔ لیکن چونکہ نسیان کی حالت میں مواخذہ نہیں ہوتا ہے اس لئے یہ معاف ہے۔ مگر دیکھنے والے کے لئے انکار نہ کرنے کا کوئی عذر نہیں ہے۔
شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃاللہ علیہ
——————
سوال : رمضان کے دن میں ایک سے زائد مرتبہ غسل کر نے یا پورا دن ایرکنڈیشن میں بیٹھنے کا کیاحکم ہے ؟ جب کہ یہ ایرکنڈیشن رطوبت پیدا کرتا ہو ؟
جو اب : یہ جائز ہے اور اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود صوم کی حالت میں گرمی یا پیاس کی وجہ سے اپنے سر پر پانی ڈالتے تھے۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما، صوم کی حالت میں اپنا کپڑا پانی سے تر کر لیتے تھے تاکہ گرمی کی شدت اور پیاس کم ہو جائے۔ اور رطوبت صوم میں مؤثر نہیں ہوتی۔ کیوں کہ یہ وہ پانی نہیں ہے جو معدہ تک پہونچتا ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “
——————
سوال : ایک شخص بیان کرتا ہے کہ جس وقت وہ اپنی بیوی کے ساتھ کھیل کود، یا بوس وکنار کرتا ہے تو اپنے پائجامہ میں اپنے عضو تناسل سے رطوبت پاتا ہے۔ اس کا سوال یہ ہے کہ طہارت اور صوم کی صحت اور عدم صحت کے اعتبار سے اس پر کیا آثار مترتب ہوتے ہیں ؟
جواب : سائل نے اپنے سوال میں اس بات کا ذکر نہیں کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کھیل کود کی وجہ سے منی کا احساس کرتا ہے۔ صرف اتنا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے پائجامہ میں رطوبت پاتا ہے۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ کہ جو رطوبت وہ پاتا ہے وہ مذی ہے، منی نہیں ہے۔ اور مذی نجس ہے۔ کپڑے یا پائجامہ کے جس حصہ پر لگے اس کا دھونا ضروری ہے۔ اور اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اور ذَکر (عضو تناسل) اور خصیتین کو دھونے کے بعد وضو کرنا ضروری ہے۔ تاکہ طہارت حاصل ہو جائے۔ اہل علم کے صحیح قول کی بنا پر اس سے نہ صوم فاسد ہوتا ہے اور نہ غسل ضروری ہوتا ہے۔ البتہ اگر خارج ہونے والی چیز منی ہے تو اس سے غسل واجب ہو گا اور صوم بھی فاسد ہو جائے گا۔ منی اگرچہ پاک ہے مگر طبیعت اس سے گھن محسوس کرتی ہے۔ اور کپڑے یا پائجامہ کے جس حصہ پر لگ جائے اس کا دھونا مشروع ہے۔ اور صائم کے لئے مناسب اور افضل یہ ہے کہ اپنے صوم میں ایسی چیزوں سے احتیاط برتے جو شہوت کو بھڑکانے والی ہوں۔ خواہ بیوی کے ساتھ کھیل کود ہو، یا بوس و کنا ر۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ“
——————
سوال : اس شخص کا کیا حکم ہے جو رمضان کے مہینہ میں اپنی بیوی کے ساتھ حرام کام کا ارتکاب کرے ؟ صوم کی حالت میں کرے تو اور رات میں کرے تو ؟ اور اس کا کفارہ کیا ہے ؟
جواب : جو شخص رمضان کے مہینہ میں غروب آفتاب سے طلوع فجر کے درمیان اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ اگر دن میں طلوع فجر سے غروب آفتاب کے درمیانی وقفہ میں بیوی کے ساتھ ہم بستری کرے تو وہ گنہگار اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان ہو گا۔ اور اس پر قضا اور کفارہ دونوں واجب ہو گا۔ کفارہ درج ذیل ہے :
(1) ایک غلام آزاد کرنا (2) اگر غلام نہ پائے تو مسلسل دو مہینے کا صوم رکھنا (3) اگر اس کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلانا۔ اپنے ملک کی عام غذا میں سے جو اس کے علاقہ کے لوگ کھاتے ہوں ہر مسکین کو نصف صاع (تقریباً سوا کلو)۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ“
——————
سوال : جب آدمی رمضان کے دن میں اپنی بیوی سے زبردستی جماع کرے تو اس کا کیا حکم
ہے ؟ واضح رہے کہ میاں بیوی دونوں غلام آزاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں اور طلب معیشت میں مشغول رہنے کی وجہ سے صوم بھی نہیں رکھ سکتے۔ تو کیا صرف کھانا کھلانا کافی ہے ؟ اور اس کی مقدار اور اس کی نوعیت کیا ہے ؟
جواب : جب مرد اپنی بیوی کو جماع پر مجبور کرے اور دونوں صوم سے ہوں تو عورت کا صوم صحیح ہے اور اس پر کوئی کفارہ نہیں۔ البتہ مرد پر رمضان کے دن میں جماع کرنے کی وجہ سے کفارہ ضروری ہے۔ جو درج ذیل ہے :
(1) ایک غلام آزاد کرنا (2) اگر غلام نہ پائے تو مسلسل دو مہینے کا صوم رکھنا (3) اگر اس کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ جیسا کہ صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے اور اس پر قضا بھی ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “
——————
سوال : جب صائم کو رمضان کے دن میں احتلام ہو جائے تو کیا اس کا صوم باطل ہو جائے گا یا نہیں ؟ اور کیا اس پر فوری طور پر غسل کرنا واجب ہے ؟
جواب : احتلام صوم کو باطل نہیں کرتا۔ کیوں کہ وہ صائم کے اختیار سے نہیں ہوتا ہے۔ البتہ اس پر غسل جنابت ضروری ہے۔ اور اگر صلاۃ فجر کے بعد احتلام ہو جائے اور صلاۃ ظہر کے وقت تک غسل کو مؤخر کر دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح اگر آدمی اپنی بیوی سے رات کو جماع کرے اور طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے :
أنه كان يصبح جنبا من جماع ثم يغتسل و يصوم [صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب إذا جامع فى رمضان ولم يكن له شئي 30 رقم 1936 بروايت ابو هريره رضي الله عنه، والهبة 51 باب إذا وهب هبة 20 رقم 2600 والنفقات 69 باب نفقة المعسر على أهله 13 رقم 5368 والأدب 78 باب التبسم والضحك 68 رقم 6087، صحيح مسلم، الصيا م 13 باب تغليظ تحريم الجما ع فى نهار رمضان على الصائم 14 رقم 81، 1111 ]
’’ کہ آپ جماع کی وجہ سے جنابت کی حالت میں صبح کرتے پھر غسل کرتے اور صوم رکھتے “۔
اسی طرح حیض اور نفاس والی عورتیں اگر رات میں پاک ہو جائیں اور طلوع فجر کے بعد غسل کر یں تو ان پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور ان دونوں کا صوم صحیح ہو گا۔ لیکن ان کے لئے اور اسی طرح جنبی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ غسل یا صلاۃ کو طلوع آفتاب تک مؤخر کرے۔ بلکہ ان سب پر واجب ہے کہ طلوع آفتاب سے پہلے غسل کرنے میں جلدی کریں۔ تاکہ صلاۃ فجر کو اپنے وقت پر ادا کر سکیں۔
اور مرد پر لازم ہے کہ صلاۃ فجر سے پہلے غسل جنابت میں جلدی کرے تاکہ وہ صلاۃ فجر باجماعت ادا کر سکے۔ اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “