مرتبہ: ابوعميرحزب الله بلوچ حفظہ اللہ تعالی
اردو ترجمہ: حافظ محسن انصاری حفظہ اللہ
قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبہ: آیت نمبر: 24)
(اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم)کہہ دے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور رہنے کے مکانات، جنھیں تم پسند کرتے ہو، تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت دنیا جہاں کہ ہر چیز سے ذیادہ ہونا ضروری ہے یہاں تک کہ اپنی جان سے بھی ذیادہ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ
مسلمانوں کے لیے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انکی جانوں س بھی ذیادہ محبوب، پیارے اور قریبی ہیں اور ان کی ازواج مطھرات مؤمنوں کی مائیں ہیں (سورة الاحزاب آيت 6)
لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (سورة الفتح: آیت نمبر: 9)
تاکہ تم(اے مسلمانوں) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور دن کے شروع اور آخر میں اس کی تسبیح کرو۔
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (آل عمران: آیت نمبر:31)
(اے پیارے پیغمبر تمام مسلمانوں کو)کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہیں تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بےحد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
لیجیے اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے سلسلہ میں کچھ حدیثیں ملاحظہ فرمائیں:
أَحِبُّوا اللَّهَ لِمَا يَغْذُوكُمْ مِنْ نِعَمِهِ وَأَحِبُّونِي بِحُبِّ اللَّهِ وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي (جامع الترمذی: 3789)
اللہ تعالی سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی بے انتہا نعمتیں عطا کر رہا ہے، اور اللہ سے محبت اور اس کے حکم کی وجہ سے محبت کرو مجھ سے، اور میرے اہل بیت سے محبت کرو میری محبت اور حکم کی وجہ سے.
ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ : أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ (صحیح البخاری: 16 ،صحیح مسلم: 23)
تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔
سيدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى السَّاعَةُ ؟ قَالَ : وَمَا أَعْدَدْتَ لِلسَّاعَةِ ؟ قَالَ : حُبَّ اللَّهِ وَرَسُولِهِ. قَالَ : فَإِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ . قَالَ أَنَسٌ : فَمَا فَرِحْنَا بَعْدَ الْإِسْلَامِ فَرَحًا، أَشَدَّ مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ : فَأَنَا أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ، وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِأَعْمَالِهِمْ (صحیح البخاری: 3688، 6171، 7153، صحیح مسلم: 2639)
ایک صاحب (ذوالخویصرہ یا ابوموسیٰ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں پوچھا کہ قیامت کب قائم ہو گی؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے قیامت کے لیے تیاری کیا کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کچھ بھی نہیں، سوا اس کے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہارا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہو گا جن سے تمہیں محبت ہے۔“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں کبھی اتنی خوشی کسی بات سے بھی نہیں ہوئی جتنی آپ کی یہ حدیث سن کر ہوئی کہ ”تمہارا حشر انہیں کے ساتھ ہو گا جن سے تمہیں محبت ہے۔“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتا ہوں اور ان سے اپنی اس محبت کی وجہ سے امید رکھتا ہوں کہ میرا حشر انہیں کے ساتھ ہو گا، اگرچہ میں ان جیسے عمل نہ کر سکا۔
سيدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو کھاتے اور پسند کرتے دیکھا ہے تب سے میں بھی کدو کو پسند کرتا ہوں (صحیح البخاری: 1364)
فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ . (حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (صحیح البخاری: 16، صحیح مسلم: 44)
اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہےتم میں سے کوئی شخص ( اس وقت تک ) مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کی اولاد ، اس کے والد، اہل و عیال، باپ دادا اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں۔
مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِي لِي حُبًّا، نَاسٌ يَكُونُونَ بَعْدِي، يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِي بِأَهْلِهِ وَمَالِهِ (صحیح مسلم: 2532)
میری امت میں میرے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنے والوں میں وہ لوگ(بھی) ہیں جو میرے بعد ہوں گے، ان میں سے(ہر ) ایک یہ چاہتا ہو گا کہ کاش ! اپنے اہل و عیال اور مال کی قربانی دے کر مجھے دیکھ لے۔
سيدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نبی کريم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ . فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : فَإِنَّهُ الْآنَ، وَاللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الْآنَ يَا عُمَرُ (صحیح البخاری: 6632)
ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوا میری اپنی جان کے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا ) جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: پھر واللہ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، عمر! اب تیرا ایمان پورا ہوا۔
فَقَالَ عُمَرُ : مَهْلًا يا عَبّاسُ، فَوَ اللهِ لَإسْلامُكَ يَوْمَ أسْلَمْتَ كانَ أحَبَّ إلَيّ مِن إسْلامِ الخَطّابِ لَوْ أسْلَمَ، وَمَا بِي إلّا أنّي قَدْ عَرَفْتُ أَنّ إسْلامَكَ كانَ أحَبَّ إلىٰ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِن إسْلامِ الخَطّابِ لَوْ أسْلَمَ (سیرۃ ابن ہشام: 2/403)
سيدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نبی کريم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کرتے کہ اللہ کی قسم! آپ کا مسلمان ہونا مجھے اپنے والد کے اسلام قبول کرنے سے ذیادہ پسند تھا وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپکا مسلمان ہونا میرے والد خطاب کے مسلمان ہونے سے ذیادہ پسند اور محبوب تھا۔
عَنْ عُمَرَ ، أَنَّهُ فَرَضَ لِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ فِي ثَلَاثَةِ آلَافٍ وَخَمْسِمِائَةٍ، وَفَرَضَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي ثَلَاثَةِ آلَافٍ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لِأَبِيهِ : لِمَ فَضَّلْتَ أُسَامَةَ عَلَيَّ ؟ فَوَاللَّهِ مَا سَبَقَنِي إِلَى مَشْهَدٍ. قَالَ : لِأَنَّ زَيْدًا كَانَ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَبِيكَ، وَكَانَ أُسَامَةُ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكَ، فَآثَرْتُ حُبَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حُبِّي. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ (جامع ترمذی: 3813)
سیدنا عمر رضی الله عنہ نے سیدنا اسامہ بن زید رضی الله عنہما کے لیے بیت المال سے ساڑھے تین ہزار کا، وظیفہ مقرر کیا، اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے لیے تین ہزار کا تو عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے اپنے والد سے عرض کیا: آپ نے اسامہ کو مجھ پر ترجیح دی؟ اللہ کی قسم! وہ مجھ سے کسی غزوہ میں آگے نہیں رہے(یعنی مجھ سے بڑھ کر کونسا کارنامہ انجام دیا ہے؟)، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس لیے کہ زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے والد سے اور اسامہ تم سے زیادہ محبوب تھے، اس لیے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب کو اپنے محبوب پر ترجیح دی. امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ام المؤمنين سيدہ عائشہ رضی اللہ عنها کی طرف سے انکے حجرہ مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تدفین کی اجازت کی خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا:
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ، مَا كَانَ مِنْ شَيْءٍ أَهَمُّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ
سب تعریف اللہ تعالی کے لیے کہ مجھے اجازت مل گئی، میرے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں تھی (صحیح البخاری: 3700)
سيدنا ابوبکر صديق رضی اللہ عنہ اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
سيدنا ابوبکر صديق رضی اللہ عنہ کی نبی کريم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے بے شمار واقعات ہیں: سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ : إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ، وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ. فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ : فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا، وَأُمَّهَاتِنَا. فَعَجِبْنَا لَهُ، وَقَالَ النَّاسُ : انْظُرُوا إِلَى هَذَا الشَّيْخِ يُخْبِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَبْدٍ خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا، وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ وَهُوَ يَقُولُ : فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا، وَأُمَّهَاتِنَا. فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْمُخَيَّرَ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ هُوَ أَعْلَمَنَا بِهِ (صحیح البخاری: 3904، صحیح مسلم: 2382)
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے، فرمایا ”اپنے ایک نیک بندے کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ دنیا کی نعمتوں میں سے جو وہ چاہے اسے اپنے لیے پسند کر لے یا جو اللہ تعالیٰ کے یہاں ہے( آخرت میں) سے پسند کر لے۔ اس بندے نے اللہ تعالیٰ کے ہاں ملنے والی چیز کو پسند کر لیا۔“ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ زار و قطار رونے لگے اور عرض کیا ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔(ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) ہمیں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس رونے پر حیرت ہوئی، بعض لوگوں نے کہا اس بزرگ کو دیکھئیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نعمتوں اور جو اللہ کے پاس ہے اس میں سے کسی کے پسند کرنے کا اختیار دیا تھا اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ان دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار دیا گیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ اس بات سے واقف تھے۔
نبی کريم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا تمام سامان سمیٹ کر لے آئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ دیکھ کر فرمانے لگے کہ: میں ابوبکر کا کبھی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا( سنن ابی داؤد: 1678)
بدبخت کافر عقبہ بن ابی معيط جب کعبۃ اللہ میں نماز پڑھتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک پر سختی سے چڑھ گیا تو سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے اسے دھکا دیا اور اس موقع پر روتے ہوئے یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے کفار کو تنبیہ کرنے لگے:
أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُم (صحیح البخاری: 3678، مسنداحمد: 7036)
مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بارے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ آپ اس سفر میں میرے ساتھ ہونگے تو یہ سن کر آپ بہت ذیادہ خوش ہوئے حالانکہ یہ سفر آسان نہیں تھا بلکہ انتہائی مشکل اور پر خطر تھا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیدنا ابوبکر کی خوشی بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ:
فَواللَّهِ ما شَعَرْتُ قَطُّ قَبْلَ ذَلِكَ اليَوْمِ أنَّ أحَدًا يَبْكِي مِنَ الفَرَحِ حَتّى رَأيْتُ أبا بَكْرٍ يومئذٍ يَبْكِي
اللہ کی قسم مجھے اس سے پہلے یہ خبر نہیں تھی کہ کوئی انسان خوشی میں بھی رو سکتا ہے! جب میں نے اپنے والد محترم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ان دنوں خوشی میں روتے دیکھا (البدایہ والنہایہ لابن کثیر: 3/178، 218، 4/445)
ہجرت والے سفر میں کچھ دیر سیدنا ابوکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلنے لگے تو فورا خیال آیا کہ کوئی سامنے سے حملہ نہ کردے تو آپ پھر آگے چلنے لگے اور فرمایا کہ: اگر کوئی تکلیف پہنچے تو مجھے پہنچے میں برداشت کرلوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پہنچے. غار میں پہلے پہنچے اور صفائی ستھرائی کے بعد ہر قسم کے خطرے سے تسلی کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اندر آنے دیا …
وفي طريق الهجرة كما ذكر ابن القيم في زاد المعاد، والبيهقی في الدلائل: والحاكم في المستدرك : 4268
…حَدَّثَنا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ قالَ: ذُكِرَ رِجالٌ عَلى عَهْدِ عُمَرَ فَكَأنَّهُمْ فَضَلُّوا عُمَرَ عَلى أبِي بَكْرٍ ، فَلَمّا بَلَغَ ذَلِكَ عُمَرُ قالَ: واللهِ لَلَيْلَةٌ مِن أبِي بَكْرٍ خَيْرٌ مِن آلِ عُمَرَ، ولَيَوْمٌ مِن أبِي بَكْرٍ خَيْرٌ مِن آلِ عُمَرَ، لَقَدْ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَيْلَةَ انْطَلَقَ إلى الغارِ ومَعَهُ أبُو بَكْرٍ ، فَجَعَلَ يَمْشِي ساعَةً بَيْنَ يَدَيْهِ وساعَةً خَلْفَهُ حَتّى فَطِنَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقالَ: يا أبا بَكْرٍ مالِكَ تَمْشِي ساعَةً بَيْنَ يَدَيَّ وساعَةً خَلْفِي؟ فَقالَ: يا رَسُولَ اللهِ أذْكُرُ الطَّلَبَ، فَأمْشِي خَلْفَكَ، ثُمَّ أذْكُرُ الرَّصَدَ فَأمْشِي بَيْنَ يَدَيْكَ، فَقالَ: يا أبا بَكْرٍ، لَوْ كانَ شَيْءٌ أحْبَبْتَ أنْ يَكُونَ لَكَ دُونِي؟ قالَ: نَعَمْ، والَّذِي بَعَثَكَ بِالحَقِّ ما كانَتْ لِتَكُنْ مِن مُلِمَّةٍ إلّا أحْبَبْتُ أنْ تَكُونَ لِي دُونَكَ، فَلَمّا انْتَهَيْنا مِنَ الغارِ قالَ أبُو بَكْرٍ : مَكانَكَ يا رَسُولَ اللهِ حَتّى اسْتَبْرِئَ لَكَ الغارَ فَدَخَلَ فاسْتَبْرَأهُ حَتّى إذا كانَ فِي أعْلاهُ ذَكَرَ أنَّهُ لَمْ يَسْتَبْرِ الجُحْرَةَ، فَقالَ: مَكانَكَ يا رَسُولُ اللهِ حَتّى اسْتَبْرِئَ الجُحْرَةَ، فَدَخَلَ فاسْتَبْرَأ، ثُمَّ قالَ: انْزِلْ يا رَسُولَ اللهِ، فَنَزَلَ فَقالَ عُمَرُ: والَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتِلْكَ اللَّيْلَةُ خَيْرٌ مِن آلِ عُمَر َ(دلائل النبوۃ للبیہقی: 2/476)
اس سفر میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانے پینے کا انتظام فرماتے، ایک موقع پر فرط محبت میں عظیم انداز میں فرمانے لگے:
وَقَدْ عَطِشَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : فَحَلَبْتُ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ فِي قَدَحٍ، فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ (صحیح البخاری: 5607)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیاس لگی تو میں نے کوشش کرکے دودھ ہاتھ کیا اور آپ کی خدمت میں پیش کردیا، آپ نے دودھ سیراب ہوکر نوش فرمایا اتنا کہ میں خوش ہوگیا۔
قال ابوبكر رضی اللہ عنہ:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي (صحیح البخاری: 3711)
سيدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت والوں سے سلوک کرنا مجھ کو اپنی قرابت والوں کے ساتھ سلوک کرنے سے زیادہ پسند ہے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آخری دنوں میں یہ وصیت کی کہ مجھے بھی اسی طرح کفن دینا جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا اور آپ نے پیر کے دن فوت ہونے کی خواہش کی اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی پیر کے دن ہی ہوئی تھی۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
دَخَلْتُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ : فِي كَمْ كَفَّنْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ : فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ سَحُولِيَّةٍ ، لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ، وَلَا عِمَامَةٌ، وَقَالَ لَهَا : فِي أَيِّ يَوْمٍ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ : يَوْمَ الِاثْنَيْنِ. قَالَ : فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا ؟ قَالَتْ : يَوْمُ الِاثْنَيْنِ. قَالَ : أَرْجُو فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ اللَّيْلِفَنَظَرَ إِلَى ثَوْبٍ عَلَيْهِ كَانَ يُمَرَّضُ فِيهِ بِهِ رَدْعٌ مِنْ زَعْفَرَانٍ ، فَقَالَ : اغْسِلُوا ثَوْبِي هَذَا وَزِيدُوا عَلَيْهِ ثَوْبَيْنِ فَكَفِّنُونِي فِيهَا ، قُلْتُ : إِنَّ هَذَا خَلَقٌ ، قَالَ : إِنَّ الْحَيَّ أَحَقُّ بِالْجَدِيدِ مِنَ الْمَيِّتِ إِنَّمَا هُوَ لِلْمُهْلَةِ ، فَلَمْ يُتَوَفَّ حَتَّى أَمْسَى مِنْ لَيْلَةِ الثُّلَاثَاءِ ، وَدُفِنَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ (صحیح البخاری: 1387)
میں (والد ماجد) ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں(ان کی مرض الموت میں) حاضر ہوئی تو آپ نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تم لوگوں نے کتنے کپڑوں کا کفن دیا تھا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تین سفید دھلے ہوئے کپڑوں کا۔ آپ کو کفن میں قمیض اور عمامہ نہیں دیا گیا تھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کس دن ہوئی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ پیر کے دن۔ پھر پوچھا کہ آج کون سا دن ہے؟ انہوں نے کہا آج پیر کا دن ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پھر مجھے بھی امید ہے کہ اب سے رات تک میں بھی رخصت ہو جاؤں گا۔ اس کے بعد آپ نے اپنا کپڑا دیکھا جسے مرض کے دوران میں آپ پہن رہے تھے۔ اس کپڑے پر زعفران کا دھبہ لگا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا میرے اس کپڑے کو دھو لینا اور اس کے ساتھ دو اور ملا لینا پھر مجھے کفن انہیں کا دینا۔ میں نے کہا کہ یہ تو پرانا ہے۔ فرمایا کہ زندہ آدمی نئے ( کپڑے )کا مردے سے زیادہ مستحق ہے ‘ یہ تو پیپ اور خون کی نذر ہو جائے گا۔ پھر منگل کی رات کا کچھ حصہ گزرنے پر آپ کا انتقال ہوا اور صبح ہونے سے پہلے آپ کو دفن کیا گیا.
سيدنا علی رضی اللہ عنہ اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
وسُئِلَ عَلِيّ بن أبِي طالِب كَيْفَ كانَ حُبُّكُمْ لِرَسُولِ اللَّه صلی اللہ علیہ وسلم؟ قالَ كانَ وَاللهِ أحَبَّ إلَيْنا مِن أمْوالِنا وأَوْلادِنا وآبائِنا وأُمَّهاتِنا ومِنَ الماءِ البارِدِ عَلى الظَّمَإ (الشفاء للقاضی عياض: 2/22 ، 52 ، 568 ، رحمة للعالمين)
سيدنا علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری محبت کتنی تھی؟ سيدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے مال، ملکیت، آل و اولاد، اپنی ماؤں اور سخت پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی ذیادہ پیارے اور محبوب تھے۔
صحابیات اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ حَاصَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ حَيْصَةً قَالُوا: قُتِلَ مُحَمَّدٌ، حَتَّى كَثُرَتِ الصَّوَارِخُ فِي نَاحِيَةِ الْمَدِينَةِ، فَخَرَجَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ مُتَحَزِّمَةً فَاسْتُقْبِلَتْ بِابْنِهَا وَأَبِيهَا وَزَوْجِهَا وأَخِيها، لَا أَدْرِي أَيُّهُمُ اسْتُقْبِلَتْ بِهِ أَوَّلَ، فَلَمَّا مَرَّتْ عَلَى آخِرِهِمْ قَالَتْ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: أَبُوكِ، أَخُوكِ، زَوْجُكِ، ابْنُكِ، تَقُولُ: مَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم؟ يَقُولُونَ: أَمَامَكِ حَتَّى دُفِعَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَأَخَذَتْ بِنَاحِيَةِ ثَوْبِهِ ثُمَّ قَالَتْ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا أُبَالِي إِذْ سَلِمْتَ مَنْ عَطِبَ (أخرجہ الطبرانی في الأوسط رقم: 7499، قال الهيثمی في مجمع الزوائد 6/115، رقم:10087، رواه الطبرانی في الأوسط عن شيخه محمد بن شعيب ولم أعرفه، وبقية رجاله ثقات . سيرة ابن هشام)
عَنْ سَعْدِ بْنِ أبِي وقّاصٍ، قالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِامْرَأةِ مِن بَنِي دِينارٍ، وقَدْ أُصِيبَ زَوْجُها وأخُوها وأبُوها مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِأُحُدٍ، فَلَمّا نُعُوا لَها، قالَتْ: فَما فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم؟ قالُوا: خَيْرًا يا أُمَّ فُلانٍ، هُوَ بِحَمْدِ اللَّهِ كَما تُحِبِّينَ، قالَتْ: أرُونِيهِ حَتّى أنْظُرَ إلَيْهِ ؟ قالَ: فَأُشِيرَ لَها إلَيْهِ، حَتّى إذا رَأتْهُ قالَتْ: كُلُّ مُصِيبَةٍ بَعْدَكَ جَلَلٌ! (سيرت ابن هشام 2/99، وابن کثير، البداية والنهايہ،سير اعلام)
هذه السيدة هی هند زوجة عمرو بن الجموح الأنصارية (رحمة للعالمين للمنصورفوري)
سيدنا عمرو بن جموح رضی الله عنہ کی گھر والی هند رضی اللہ عنها کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی مثال ملنا مشکل ہے اس لیے کہ جب اسے بتایا گیا کہ آپ کے شوہر، والد اور بھائی شہید ہوگئے ہیں! تو وہ معلوم کرنے لگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بخیر و عافیت اور سلامت ہیں نا؟ پھر جیسے ہی ان کی نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی تو کہنے لگی آپ کو صحیح سالم دیکھنے کے بعد اب ہر مصیبت ہلکی ہوگئی!
چھوٹے بچے اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
سيدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ جنگ بدر کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
بَيْنَا أَنَا وَاقِفٌ فِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ، فَنَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي وَشِمَالِي، فَإِذَا أَنَا بِغُلَامَيْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ حَدِيثَةٍ أَسْنَانُهُمَا
بدر کی لڑائی میں، میں صف کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ میں نے جو دائیں بائیں جانب دیکھا، تو میرے دونوں طرف قبیلہ انصار کے دو نوعمر لڑکے تھے اور مجھ سے ابوجہل کے بارے پوچھنے لگے کہ آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں! لیکن بیٹے تم لوگوں کو اس سے کیا کام ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ :
أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ رَأَيْتُهُ لَا يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ، حَتَّى يَمُوتَ الْأَعْجَلُ مِنَّا. فَتَعَجَّبْتُ لِذَلِكَ، فَغَمَزَنِي الْآخَرُ فَقَالَ لِي مِثْلَهَا
مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ بدبخت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے وہ مل گیا تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم میں سے کوئی جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہو گا،مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی۔ پھر دوسرے نے اشارہ کیا اور وہی باتیں اس نے بھی کہیں.ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابوجہل دکھائی دیا جو لوگوں میں( کفار کے لشکر میں) گھومتا پھر رہا تھا۔ میں نے ان لڑکوں سے کہا کہ جس کے متعلق تم لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے، وہ سامنے (پھرتا ہوا نظر آ رہا) ہے۔ دونوں نے اپنی تلواریں سنبھالیں اور اس پر جھپٹ پڑے اور حملہ کر کے اسے قتل کر ڈالا (صحیح البخاری: 3141، 3988)
قارئین کرام یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہی تھی کہ ان نو عمر بچوں نے عرب کے ایک سردار اور بڑے بہادر سے ٹکر لی۔
مختلف صحابہ کرام اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
فَرَجَعَ عُرْوَةُ إلى أصْحابِهِ، فَقالَ: أيْ قَوْمِ، واللَّهِ لَقَدْ وفَدْتُ عَلى المُلُوكِ، ووَفَدْتُ عَلى قَيْصَرَ، وكِسْرى، والنَّجاشِيِّ، واللَّهِ إنْ رَأيْتُ مَلِكًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أصْحابُهُ ما يُعَظِّمُ أصْحابُ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم مُحَمَّدًا، واللَّهِ إنْ تَنَخَّمَ نُخامَةً إلّا وقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنهُمْ، فَدَلَكَ بِها وجْهَهُ وجِلْدَهُ، وإذا أمَرَهُمْ ابْتَدَرُوا أمْرَهُ، وإذا تَوَضَّأ كادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلى وضُوئِهِ، وإذا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أصْواتَهُمْ عِنْدَهُ، وما يُحِدُّونَ إلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ (صحیح البخاری: 2731، 2732)
اسلام قبول کرنے سے پہلے سیدنا عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مشرکین مکہ کے سفیر تھے، حدیبیہ کے موقع پر بھی مسلمانوں کے پاس سفیر بن کر آئے تھے، انہوں نے واپس جاکر مشرکین مکہ کو کہا کہ: بہتر یہی ہے مسلمانوں سے صلح کرلو کیونکہ میں نے قیصر وکسری اور نجاشی کے درباروں میں بھی سفارتکاری کی ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی جتنی محبت، ادب اور تعظیم آپ کی کرتے ہیں اتنی کوئی کسی کی نہیں کرتا. اللہ کی قسم! اگر آپ تھوکتے بھی ہیں تو آپ کا لعاب مبارک کسی نا کسی ساتھی کے ہاتھ پر گرتا ہے اور وہ اسے اپنے جسم پر ملنا سعادت سمجھتا ہے. آپ کے ہر حکم کی فرمانبرداری کرتے ہیں اگر آپ وضوء کرتے ہیں تو آپ کے وضوء کا پانی حاصل کرنے کے لیے جھپٹتے ہیں اور ایک دوسرے سے سبقت کرتے ہیں. آپ کے سامنے اپنی آواز پست رکھتے ہیں، تعظیم کا ایسا عظیم انداز ہے کہ آپ کے چہرہ مبارک کی طرف نظریں جما کر نہیں دیکھتے۔
سيدنا ابوهريرہ رضی اللہ عنہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي إِذَا رَأَيْتُكَ طَابَتْ نَفْسِي وَقَرَّتْ عَيْنِي…فَأَنْبِئْنِي عَنْ أَمْرٍ إِذَا أَخَذْتُ بِهِ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ…
اے اللہ کے رسول! جب میں آپ کا دیدار کرتا ہوں تو میرا تن من باغ بہار ہوجاتا ہے اور میری آنکھوں کو قرار آجاتا ہے… مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجیے جس کے کرنے سے میں جنت میں داخل ہوجاؤںاور وہاں بھی آپ کا ساتھ نصیب ہوجائے( مسند احمد: 7933، مستدرک للحاکم: 7278)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے پیار کرتے اور ان کی فضیلت بیان کرتے سنا تو فرمایا:
فَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بَعْدَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ
جب سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا حسن سے پیار کرتے اور فضیلت بیان کرتے سنا ہے تب سے میں بھی سیدنا حسن سے سب سے ذیادہ محبت کرتا ہوں (صحیح البخاری: 5884)
طارق بن شھاب فرماتے ہیں کہ:
سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ : شَهِدْتُ مِنَ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ مَشْهَدًا لَأَنْ أَكُونَ صَاحِبَهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا عُدِلَ بِهِ ؛ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَدْعُو عَلَى الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ : لَا نَقُولُ كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى : اذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا، وَلَكِنَّا نُقَاتِلُ عَنْ يَمِينِكَ، وَعَنْ شِمَالِكَ، وَبَيْنَ يَدَيْكَ، وَخَلْفَكَ. فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْرَقَ وَجْهُهُ، وَسَرَّهُ. يَعْنِي قَوْلَهُ (صحیح البخاری: 3952)
میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو سنا وہ فرما رہے تھے کہ میں نے مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے ایک ایسی بات سنی کہ اگر وہ بات میری زبان سے ادا ہو جاتی تو میرے لیے دنیا جہاں کی ہر چیز کے مقابلے میں زیادہ عزیز اور پسند ہوتی(جنگ بدر کے موقع پر) وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت(سخت پریشانی کی کیفیت میں)مشرکین پر بددعا کر رہے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم وہ نہیں کہیں گے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا کہ جاؤ، تم اور تمہارا رب ان سے جنگ کرو، بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں، آگے اور پیچھے جمع ہو کر لڑیں گے۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک چمکنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو گئے۔
فَلَمّا قالَ ذَلِكَ رَسُول الله صلی اللہ علیہ وسلم، قالَ لَهُ سَعْدُ بْنُ مُعاذٍ: واَللَّهِ لَكَأنَّكَ تُرِيدُنا يا رَسُولَ اللَّهِ؟ قالَ أجَلْ، قالَ: فَقَدْ آمَنّا بِكَ وصَدَّقْناكَ، وشَهِدْنا أنَّ ما جِئْتَ بِهِ هُوَ الحَقُّ، وأعْطَيْناكَ عَلى ذَلِكَ عُهُودَنا ومَواثِيقَنا، عَلى السَّمْعِ والطّاعَةِ، فامْضِ يا رَسُولَ اللَّهِ لِما أرَدْتَ فَنحْن مَعَك، فو الّذي بَعَثَكَ بِالحَقِّ، لَوْ اسْتَعْرَضْتَ بِنا هَذا البَحْرَ فَخُضْتَهُ لَخُضْناهُ مَعَكَ، ما تَخَلَّفَ مِنّا رَجُلٌ واحِدٌ، وما نَكْرَهُ أنْ تَلْقى بِنا عَدُوَّنا غَدًا، إنّا لَصُبُرٌ فِي الحَرْبِ، صُدُقٌ فِي اللِّقاءِ. لَعَلَّ اللَّهَ يُرِيكَ مِنّا ما تَقَرُّ بِهِ عَيْنُكَ، فَسِرْ بِنا عَلى بَرَكَةِ اللَّهِ. فَسُرَّ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِقَوْلِ سَعْدٍ، ونَشَّطَهُ ذَلِكَ، ثُمَّ قالَ: سِيرُوا وأبْشِرُوا، فَإنَّ اللَّهَ تَعالى قَدْ وعَدَنِي إحْدى الطّائِفَتَيْنِ، واَللَّهِ لَكَأنِّي الآنَ أنْظُرُ إلى مَصارِعِ القَوْمِ .
(السيرة لابن هشام: 1/615 ، 2/188 ، 253 ، فتح الباری 7/287، زاد المعاد 3/173، الرحيق المختوم ص200، دلائل النبوة للبيهقی: 3/31 ، 34 ، 107)
سيدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے آپ کی محبت میں یہ عظیم الفاظ کہے کہ: اگر آپ ہمیں سمندر یا دریا میں کودنے کا حکم دیتے تو ہم کودنے میں دیر نہیں کرتے، ہمیں اس چیز کا بالکل خوف نہیں کہ ہماری صبح دشمنوں سے ملاقات ہوجآئے. ہم آپ کے حکم پر ہر وقت اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں … اگر کفار سے جنگ ہوئی تو ہم ایسے کارنامے دکھآئے گیں کہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائے گیں..
فَيَقُولُ أَبُو طَلْحَةَ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي لَا تُشْرِفْ ؛ يُصِيبُكَ سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ الْقَوْمِ، نَحْرِي دُونَ نَحْرِكَ (صحیح البخاری: 3811)
جنگ احد میں سيدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے تیر چلاتے چلاتے تین کمانے توڑ دیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حالات معلوم کرنے کے لیے اچک کر دیکھنے لگے تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا نبی اللہ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اچک کر ملاحظہ نہ فرمائیں، کہیں کوئی تیر آپ کو نہ لگ جائے۔ میرا سینہ آپ کے سینے کے لیے ڈھال ہے..
زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
كَانَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِرْعَانِ يَوْمَ أُحُدٍ، فَنَهَضَ إِلَى الصَّخْرَةِ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ، فَأَقْعَدَ طَلْحَةَ تَحْتَهُ، فَصَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ حَتَّى اسْتَوَى عَلَى الصَّخْرَةِ، فَقَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ : أَوْجَبَ طَلْحَةُ (جامع الترمذی: 1692)
غزوہ احد کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر دو زرہیں تھیں، آپ چٹان پر چڑھنے لگے، لیکن نہیں چڑھ سکے، آپ نے طلحہ بن عبیداللہ کو اپنے نیچے بٹھایا، پھر آپ ان پر چڑھ گئے یہاں تک کہ چٹان پر سیدھے کھڑے ہو گئے، زبیر کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”طلحہ نے (اپنے عمل سے جنت ) واجب کر لی..
دیکھیں یہ محبت کا کتنا خوبصورت انداز تھا!
فَقامَ أبُو دُجانَةَ وتَرَّسَ نَفْسَهُ دُونَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، يَقَعُ النَّبْلُ في ظَهْرِهِ، وهُوَ مُنْحَنٍ عَلى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم، حَتّى امْتَلَأ ظَهْرُهُ سِهامًا، وهُوَ لا يَتَحَرَّكُ، غَيْرَ مُبالٍ ما أصابَهُ في سَبِيلِ اللَّهِ
(تاريخ الطبری. سيرة ابن هشام 3/91 ، دلائل النبوة للبيهقی3/234)
سيدنا ابودجانہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے پھر جو تیر بھی آتا سیدنا ابودجانہ کو لگتا اور وہ ذرا بھی حرکت نہ کرتے کہ کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے!
اِنْتَهىٰ أنَسُ بْنُ النّضْرِ، عَمّ أنَسِ بْنِ مالِكٍ، إلى عُمَرَ بْنِ الخَطّابِ، وطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ، فِي رِجالٍ مِن المُهاجِرِينَ والأنْصارِ، وقَدْ ألْقَوْا بِأيْدِيهِمْ فَقالَ ما يُجْلِسُكُمْ؟ قالُوا: قُتِلَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم قالَ فَماذا تَصْنَعُونَ بِالحَياةِ بَعْدَهُ؟ قُومُوا فَمُوتُوا عَلى ما ماتَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمّ اسْتَقْبَلَ القَوْمَ فَقاتَلَ حَتّى قُتِلَ..قال أنَسُ بْنُ مالِكٍ: لَقَدْ وجَدْنا بِأنَسِ بْنِ النّضْرِ يَوْمئِذٍ سَبْعِينَ ضَرْبَةً فَما عَرَفَهُ إلّا أُخْتُهُ عَرَفَتْهُ بِبَنانِهِ (البداية والنهاية: 4/ 34، 39، 5/ 410، سيرة ابن هشام وابن کثير ، دلائل النبوة للبيهقی، واصلہ في البخاری)
غزوہ احد میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ پھیلائی گئی تو سيدنا انس بن نضر رضی اللہ عنہ اٹھے اور جنگ چھوڑ کر دکھ میں بیٹھے صحابہ کرام جن میں سیدنا عمر بن خطاب، طلحہ بن عبیداللہ اور دیگر مہاجرین و انصار صحابہ کرام بھی تھے ان سے فرمانے لگے کہ بیٹھے کیوں ہو؟ اٹھو! بھلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہنے کا کیا فائدہ! جب دین کی خاطر آپ خود جام شہادت نوش فرماگئے تو تم بھی ان کے لیے قربان ہوجاؤ پھر اس انداز میں لڑے کہ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے اور دیکھا گیا کہ آپ کے جسم پر ستر سے زائد زخم تھے اور کوئی انہیں پہچان نہ سکا پھر ان کی بہن نے انگلیوں کے پورے دیکھ کر انہیں پہچانا۔
قَوْلُهُ تَعالى: ومَن يُطِعِ اللَّهَ والرَّسُولَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ الآيَةَ: نَزَلَتْ فِي ثَوْبانَ مَوْلى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وكانَ شَدِيدَ الحُبِّ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَلِيلَ الصَّبْرِ عَنْهُ، فَأتاهُ ذاتَ يَوْمٍ وقد تَغَيَّرَ لَوْنُهُ يُعْرَفُ الحُزْنُ فِي وجْهِهِ، فَقالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: مَا غَيَّرَ لَوْنَكَ ؟ فَقالَ: يا رَسُولَ اللَّهِ ما بِي مَرَضٌ ولا وجع غيرَ أني إن لَمْ أرَكَ اسْتَوْحَشْتُ وحْشَةً شَدِيدَةً حَتّى ألْقاكَ، ثُمَّ ذَكَرْتُ الآخِرَةَ فَأخافُ أنْ لا أراكَ لِأنَّكَ تُرْفَعُ مَعَ النَّبِيِّينَ، وإنِّي إنْ دَخَلْتُ الجَنَّةَ كُنْتُ فِي مَنزِلَةٍ أدْنى مِن مَنزِلَتِكَ، وإنْ لَمْ أدْخُلِ الجَنَّةَ لَا أَرَاكَ أبَدًا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ ( تفسير البغوی والقرطبی)
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ:جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ إِنَّكَ لَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، وَإِنَّكَ لَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَهْلِي، وَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ وَلَدِي! وَإِنِّي لَأَكُونُ فِي الْبَيْتِ فَأَذْكُرُكَ، فَمَا أَصْبِرُ حَتَّى آتِيَكَ فَأَنْظُرُ إِلَيْكَ، وَإِذَا ذَكَرْتُ مَوْتِي ومَوْتَكَ عَرَفْتُ أَنَّكَ إِذَا دَخَلْتَ الْجَنَّةَ رُفِعْتَ مَعَ النَّبِيِّينَ، وَأَنِّي إِذَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ خَشِيتُ أَنْ لَا أَرَاكَ. فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى نَزَلَ جِبْرِيلُ بِهَذِهِ الْآيَةِ: وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ (اخرجہ الطبرانی فی الاوسط، رقم: 477، 480، وفی الصغیر، رقم: 52، قال الہیثمی فی مجمع الزوائد7/7، رقم: 10937، رواہ الطبرانی فی الصغیر والاوسط رجالہ رجال الصحیح غیر عبداللہ بن عمران العابدی وھو ثقۃ)
سيدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی شدید محبت کرتے تھے کہ ہر وقت آپ کی خدمت کرتے رہتے یہاں تک کہ رات کے وقت آپ کے دروازے پر بیٹھ جاتے اور جیسے ہی آپ بیدار ہوتے دوڑ کر آپ لیے وضوء کا پانی پیش کرتے.. بیٹھے بیٹھے ایک دفعہ سوچنے لگے کہ قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو بلند درجات میں انبیاء کرام کے ساتھ ہونگے اور میں اس درجہ تک پہنچ نہیں سکونگا تو پھر آپ سے ملاقات، آپ کی زیارت اور دیدار کیسے نصیب ہوگا! سخت پریشانی کے عالم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے پر آپ نے کوئی جواب نہیں دیا حتی کہ جبریل علیہ السلام خود رب العزت کی طرف سے یہ جواب لے کر نازل ہوئے:
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِیْقًا (النساء: 69)
اور جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرے تو یہ (جنت میں)ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں۔
سیدنا ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ رات دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مصروف وہ فرماتے ہیں کہ :
كُنْتُ أَبِيتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ، فَقَالَ لِي : سَلْ . فَقُلْتُ : أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ. قَالَ : أَوَغَيْرَ ذَلِكَ ؟ قُلْتُ : هُوَ ذَاكَ. قَالَ : فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ (صحیح مسلم: 489)
میں(خدمت کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ( صفہ میں آپ کے قریب) رات گزارا کرتا تھا ،(جب آپ تہجد کے لیے اٹھتے تو ) میں وضو کا پانی اور دوسری ضروریات لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ (ایک مرتبہ) آپ نے مجھے فرمایا: ( کچھ) مانگو ۔‘‘ تو میں نے عرض کی : میں آپ سے یہ چاہتا ہوں کہ جنت میں بھی آپ کی رفاقت نصیب ہو ۔ آپ نے فرمایا :’’ یا اس کے سوا کچھ اور ؟‘‘ میں نے عرض کی : بس یہی ۔ تو آپ نے فرمایا :’’ تم اپنے معاملے میں سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔
سيدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
وَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَجَلَّ فِي عَيْنِي مِنْهُ، وَمَا كُنْتُ أُطِيقُ أَنْ أَمْلَأَ عَيْنَيَّ مِنْهُ ؛ إِجْلَالًا لَهُ، وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ ؛ لِأَنِّي لَمْ أَكُنْ أَمْلَأُ عَيْنَيَّ مِنْهُ وَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ( صحیح مسلم: 121)
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب کوئی نہ تھا اور نہ آپ سے بڑھ کر میری نظر میں کسی کی عظمت تھی ، میں آپ کی عظمت کی بنا پر آنکھ بھر کر آپ کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا اور اگر مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھا جائے تو میں بتا نہ سکوں گا کیونکہ میں آپ کو آنکھ بھر کر دیکھتا ہی نہ تھا اور اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا…
سيدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنهما فرماتے ہیں کہ:
لَمَّا حَضَرَ أُحُدٌ دَعَانِي أَبِي مِنَ اللَّيْلِ، فَقَالَ : مَا أُرَانِي إِلَّا مَقْتُولًا فِي أَوَّلِ مَنْ يُقْتَلُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنِّي لَا أَتْرُكُ بَعْدِي أَعَزَّ عَلَيَّ مِنْكَ غَيْرَ نَفْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ عَلَيَّ دَيْنًا فَاقْضِ، وَاسْتَوْصِ بِأَخَوَاتِكَ خَيْرًا (صحیح البخاری: 1351)
جب جنگ احد کا وقت قریب آ گیا تو مجھے میرے والد عبداللہ نے رات کو بلا کر وصیت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سب سے پہلا مقتول میں ہی ہوں گا اور دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسرا کوئی مجھے(اپنے عزیزوں اور وارثوں میں) تم سے زیادہ عزیز نہیں ہے ‘ میں مقروض ہوں اس لیے تم میرا قرض ادا کر دینا اور اپنی( نو) بہنوں سے اچھا سلوک کرنا۔
عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ، رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ قَالَ: بَيْنَمَا هُوَ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ وَكَانَ فِيهِ مِزَاحٌ بَيْنَا يُضْحِكُهُمْ فَطَعَنَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَاصِرَتِهِ بِعُودٍ فَقَالَ: أَصْبِرْنِي فَقَالَ: اصْطَبِرْ قَالَ: إِنَّ عَلَيْكَ قَمِيصًا وَلَيْسَ عَلَيَّ قَمِيصٌ، فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَمِيصِهِ، فَاحْتَضَنَهُ وَجَعَلَ يُقَبِّلُ كَشْحَهُ، قَالَ إِنَّمَا أَرَدْتُ هَذَا يَا رَسُولَ اللهِ ( سنن ابی داؤد: 5224)
اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ ایک انصاری صحابی تھے اور ان کی طبیعت میں مزاح تھا وہ کچھ لوگوں سے باتیں کر رہے تھے اور لوگوں کو ہنسا رہے تھے کہ اسی دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کوکھ میں لکڑی سے ایک کونچہ دیا، تو وہ بولے: اللہ کے رسول! مجھے اس کا بدلہ دیجیے، آپ نے فرمایا: بدلہ لے لو تو انہوں نے کہا: آپ تو قمیص پہنے ہوئے ہیں میں تو ننگا تھا، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اٹھا دی، تو وہ آپ سے چمٹ گئے، اور آپ کے پہلو کے بوسے لینے لگے، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! میرا منشأ یہی تھا۔
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَدَّلَ صُفُوفَ أصْحابِهِ يَوْمَ بَدْرٍ، وفِي يَدِهِ قِدْحٌ يُعَدِّلُ بِهِ القَوْمَ، فَمَرَّ بِسَوادِ بْنِ غَزِيَّةَ حَلِيفِ بَنِي عَدِيِّ بْنِ النَّجّارِ، وهُوَ مُسْتَنْتِلٌ مِنَ الصَّفِّ، فَطَعَنَ فِي بَطْنِهِ بِالقِدْحِ وقالَ: اسْتَوِ يا سَوادُ . فَقالَ يا رَسُولَ اللَّهِ، أوْجَعْتَنِي، وقَدْ بَعَثَكَ اللَّهُ بِالحَقِّ والعَدْلِ، فَأقِدْنِي. فَكَشَفَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ بَطْنِهِ، فَقالَ: اسْتَقِدْ قالَ: فاعْتَنَقَهُ فَقَبَّلَ بَطْنَهُ، فَقالَ: ما حَمَلَكَ عَلى هَذا يا سَوادُ؟ قالَ: يا رَسُولَ اللَّهِ، حَضَرَ ما تَرى، فَأرَدْتُ أنْ يَكُونَ آخِرَ العَهْدِ بِكَ، أنْ يَمَسَّ جِلْدِي جِلْدَكَ. فَدَعا لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِخَيْرٍ وقالَهُ ( سيرة ابن هشام 2/196، 266، 278، 3/626، السیرۃ والبدایہ والنہایہ)
ایسا ہی ایک قصہ جنگ بدر میں صفیں درست کرتے وقت سيدنا سواد بن غزيہ رضی اللہ عنہ کا بھی ہے اس قصہ میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے یہ کام اس لیے کیا کہ جنگ کا موقع تھا اور کوئی خبر نہیں تھی کہ آگے کیا ہوگا؟ میں نے سوچا کہ میرا آخری عمل یہی ہو کہ میرا جسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطھر سے مل جائے۔
قالَ ابْنُ إسْحاقَ: وأمّا زَيْدُ بْنُ الدَّثِنَّةِ فابْتاعَهُ صَفْوانُ بْنُ أُمَيَّةَ لِيَقْتُلَهُ بِأبِيهِ، أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ، وبَعَثَ بِهِ صَفْوانُ بْنُ أُمَيَّةَ مَعَ مَوْلًى لَهُ، يُقالُ لَهُ نِسْطاسُ، إلى التَّنْعِيمِ ، وأخْرَجُوهُ مِن الحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ. واجْتَمَعَ رَهْطٌ مِن قُرَيْشٍ، فِيهِمْ أبُو سُفْيانَ ابْن حَرْبٍ، فَقالَ لَهُ أبُو سُفْيانَ حِينَ قَدِمَ لِيُقْتَلَ: أنْشُدُكَ اللَّهَ يا زَيْدُ، أتُحِبُّ أنَّ مُحَمَّدًا عِنْدَنا الآنَ فِي مَكانِكَ نَضْرِبُ عُنُقَهُ، وأنَّكَ فِي أهْلِكَ؟ قالَ: واَللَّهِ ما أُحِبُّ أنَّ مُحَمَّدًا الآنَ فِي مَكانِهِ الَّذِي هُوَ فِيهِ تُصِيبُهُ شَوْكَة تؤذيه، وأنّى جالِسٌ فِي أهْلِي. قالَ: يَقُولُ أبُو سُفْيانَ: ما رَأيْتُ مِن النّاسِ أحَدًا يُحِبُّ أحَدًا كَحُبِّ أصْحابِ مُحَمَّدٍ مُحَمَّدًا ( الطبری 2/542، وابن ہشام 2/172، وزاد المعاد: 3/245)
سيدنا زيد بن دثنہ اور خبيب رضی اللہ عنهما کو جب کفار گرفتار کرکے قتل کرنے کے لیے لے کر جانے لگے تو ان میں سے ایک کہنے لگا: دو خبر کہ اس وقت تم یہ پسند کروگے کہ اگر تمہاری جگہ محمد صلی اللہ علیہ وسلن ہوتے اور تمہیں چھوڑ دیا جاتا! تو وہ کہنے لگے: ہمیں تو یہ بھی پسند نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کانٹا بھی لگے اور اس کے بدلے ہماری جان بخشی ہوجآئے! جس پر ابوسفیان کہنے لگے کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں سے ذیادہ کسی کو بھی کسی سے اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا۔
وہ نابينا صحابی رضی اللہ عنہ جس نے اپنی لونڈی کو قتل کردیا تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سبب دریافت فرمایا تو عرض کیا:
وَلِي مِنْهَا ابْنَانِ مِثْلُ اللُّؤْلُؤَتَيْنِ، وَكَانَتْ بِي رَفِيقَةً فَلَمَّا كَانَ الْبَارِحَةَ جَعَلَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيكَ، فَأَخَذْتُ الْمِغْوَلَ فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأْتُ عَلَيْهَا حَتَّى قَتَلْتُهَا. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ
اے اللہ کےرسول! میرے اس سے موتیوں کے مانند دو بچے ہیں، وہ مجھے بڑی محبوب تھی تو جب کل رات آئی حسب معمول وہ آپ کو گالیاں دینے لگی، اور ہجو کرنی شروع کی تو مجھ سے برداشت نہیں ہوا میں نے ایک چھری اٹھائی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا دیا، وہ اس کے پیٹ میں گھس گئی یہاں تک کہ میں نے اسے مار ہی ڈالا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! سنو تم گواہ رہنا کہ اس کا خون لغو ہے( سنن ابی داؤد: 4361، سنن النسائی: 4070)
صحابی رسول سيدنا عمير بن اميہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے پر اپنی بہن کو قتل کردیا (المعجم الکبیر للطبرانی: 17/64، وقال الہیثمی: رواہ الطبرانی عن تابعین احدھم ثقۃ وبقیۃ رجالہ ثقات۔ مجمع الزوائد: 6/260)
صحابہ کرام کی پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تو کوئی پیمانہ ہی نہیں تھا یہاں تک کہ ایک مسلمان صحابی بھائی اپنے جگری کافر بھائی سے کہہ رہا ہے:
واللَّهِ لَقَدْ أمَرَنِي بِقَتْلِهِ رَجُلٌ لَوْ أمَرَنِي بِقَتْلِكَ لَضَرَبْتُ عُنُقَكَ. قالَ: آللَّهُ لَوْ أمَرَكَ مُحَمَّدٌ بِقَتْلِي لَقَتَلْتَنِي؟ قالَ: نَعَمْ واللَّهِ. فَقالَ: واللَّهِ إنَّ دِينًا بَلَغَ بِكَ هَذا لَدِينٌ عَجِيبٌ
اگر مجھے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تجھے قتل کرنے کا حکم دیں تو میں ضرور تجھے قتل کردونگا (اور آپ کے حکم کی تعمیل میں دیر نہیں کرونگا) (طبرانی کبير، المطالب العالية: 4259)
عَنْ مُعاذِ بْنِ جَبَلٍ قالَ: لَمّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إلى اليَمَنِ خَرَجَ مَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُوصِيهِ ومُعاذٌ راكِبٌ ورَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَمْشِي تَحْتَ راحِلَتِهِ، فَلَمّا فَرَغَ قالَ: يا مُعاذُ إنَّكَ عَسىٰ أنْ لا تَلْقَانِي بَعْدَ عَامِي هٰذَا ولَعَلَّكَ أنَ تَمُرَّ بِمَسْجِدِي هٰذا، وقَبْرِيۡ . فَبَكىٰ مُعاذٌ جَشَعًا لِفِراقِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، ثُمَّ التَفَتَ فَأقْبَلَ بِوَجْهِهِ نَحْوَ المَدِينَةِ فَقالَ: إنَّ أوْلى النّاسِ بِي المُتَّقُونَ مَن كانُوا وحَيْثُ كانُوا (مسند احمد 5/235، رقم الحدیث: 22052، دلائل النبوۃ للبیھقی: 5/404)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو الوداع کرتے وقت فرمایا کہ معاذ! ہوسکتا ہے کہ آج کے بعد آپ دوبارہ مجھ ملاقات نہ کرسکو. یا تو بس میری مسجد کے پاس سے آپ کا گذر ہوگا یا قبر کے پاس سے! یہ سن کر سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ زار و قطار رونے لگے۔
سيدنا ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو جب گرفتار کرکے مسجد نبوی کے ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کرنے کا حکم تو آزاد ہوکر مسلمان ہونے کے بعد فرمانے لگے:
يَا مُحَمَّدُ، وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ، فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ، وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ، فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيَّ، وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ، فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلَادِ إِلَيَّ..
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ میرے لیے برا نہیں تھا لیکن آج آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ میرے لیے محبوب نہیں ہے۔ اللہ کی قسم کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے۔ اللہ کی قسم! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ برا مجھے نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا شہر میرا سب سے زیادہ محبوب شہر ہے(صحیح البخاری: 4372)
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبُرْدَةٍ مَنْسُوجَةٍ فِيهَا حَاشِيَتُهَا، أَتَدْرُونَ مَا الْبُرْدَةُ ؟ قَالُوا : الشَّمْلَةُ. قَالَ : نَعَمْ. قَالَتْ : نَسَجْتُهَا بِيَدِي فَجِئْتُ لِأَكْسُوَكَهَا، فَأَخَذَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، فَخَرَجَ إِلَيْنَا وَإِنَّهَا إِزَارُهُ فَحَسَّنَهَا فُلَانٌ، فَقَالَ : اكْسُنِيهَا، مَا أَحْسَنَهَا، قَالَ الْقَوْمُ : مَا أَحْسَنْتَ، لَبِسَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، ثُمَّ سَأَلْتَهُ وَعَلِمْتَ أَنَّهُ لَا يَرُدُّ. قَالَ : إِنِّي وَاللَّهِ مَا سَأَلْتُهُ لِأَلْبَسَهُ، إِنَّمَا سَأَلْتُهُ لِتَكُونَ كَفَنِي، قَالَ سَهْلٌ : فَكَانَتْ كَفَنَهُ (صحیح البخاری: 1277)
ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بنی ہوئی حاشیہ دار چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تحفہ لائی۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے(حاضرین سے) پوچھا کہ تم جانتے ہو چادر کیا؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں! شملہ۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں شملہ( تم نے ٹھیک بتایا) خیر اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اسے بنا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنانے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کپڑا قبول کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اس وقت ضرورت بھی تھی پھر اسے ازار کے طور پر باندھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو ایک صاحب( عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ یہ تو بڑی اچھی چادر ہے ‘ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پہنا دیجیے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ نے (مانگ کر) کچھ اچھا نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی ضرورت کی وجہ سے پہنا تھا اور تم نے یہ مانگ لیا حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں نے اپنے پہننے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چادر نہیں مانگی تھی۔ بلکہ میں اسے اپنا کفن بناؤں گا۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہی چادر ان کا کفن بنی۔
تصور کریں کہ اس صحابی کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا محبت ہوگی کہ انہوں نے آپ کی چادر مبارک اپنے کفن کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگ لی!!!!
سيدنا زيد بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو جب ان کے بھائی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر اپنے گھر، والدین اور رشتےداروں کے پاس جانے کا اصرار کیا تو آپ نے جوابا فرمایا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَا أَخْتَارُ عَلَيْكَ أَحَدًا
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں ہرگز بھی اس کے ساتھ نہیں جاؤنگا بلکہ آپ کے ساتھ ہی رہونگا، قسم اللہ کی! میں آپ کے مقابلہ میں کسی اور کو اختیار نہیں کر سکتا! ( جامع الترمذی:3815)
جنگ کی حالت میں زخموں سے چور آخری سانسیں لیتے ہوئے *سيدنا سعد بن ربيع رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم(مسلمانوں) کی طرف پیغام بھیجا کہ:
وَأَخْبِرْ قَوْمَكَ : أَنَّهُ لَا عُذْرَ لَهُمْ عِنْدَ اللَّهِ إِنْ قُتِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَاحِدٌ مِنْهُمْ حَيٌّ
میں تو اپنا وعدہ پورا کرکے شہید ہونے والا ہوں لیکن اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شہید کردیے گئے اور تم میں سے ایک بھی زندہ رہا تو تہمارا کوئی بھی عذر اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوگا (مؤطا امام مالک: 41، 454، 1338، 1691 ، اسدالغابۃ: 1993)