تحریر: ابو عمیر حزب اللہ بلوچ صاحب حفظہ اللہ
اردو ترجمہ: حافظ محسن انصاری
حصول جنت کے لیے بھر پور کوشش کرنا انتہائی ضروری ہے :
وَسَارِعُوۤا۟ إِلَىٰ مَغۡفِرَةࣲ مِّن رَّبِّكُمۡ وَجَنَّةٍ عَرۡضُهَا ٱلسَّمَـٰوَ ٰتُ وَٱلۡأَرۡضُ أُعِدَّتۡ لِلۡمُتَّقِینَ.
] سورة آل عمران 133[
اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دوڑو اپنے رب کی جانب سے بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین (کے برابر) ہے، وہ ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔
✿ جنت کو حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے:
سَابِقُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ.
اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی چوڑائی کی طرح ہے، وہ ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، وہ اسے اس کو دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے. (سورة الحديد آيت: 21(
✿ آخرت اور جنت کے مقابلے میں دنیا کی حقیقت:
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی زندگی اور یہاں کے بنگلے، محلات اور بالا خانوں کا آخرت اور جنت کی کسی چھوٹی سے چھوٹی نعمت کے ساتھ بھی تقابل نہیں کیا جا سکتا۔
✿ كُلُّ نَفْسٍ ذَآىِٕقَةُ الْمَوْتِ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ.
ہر جان(ایک نا ایک دن) موت کو چکھنے والی ہے اور تمھیں تمھارے اجر قیامت کے دن ہی پورے دیے جائیں گے، پھر جو شخص آگ سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو یقیناً وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں۔
) سورة آل عمران آيت: 185(
✿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھیں کیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے اللہ کے راستے میں نکلو تو تم زمین کی طرف نہایت بوجھل ہوجاتے ہو؟ کیا تم آخرت (یعنی جنت ) کے مقابلے میں دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے ہو؟ تو دنیا کی زندگی کا سامان آخرت کے(عیش و عشرت اور آرام کے) مقابلے میں بہت ہی تھوڑا ہے (سورة التوبة آيت: 38(
✿. فَمَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚ
پس(اے انسانوں) تمھیں جو بھی چیز دی گئی ہے وہ دنیا کی زندگی کا معمولی سامان ہے اور جو (جنت اور اس کی نعمتیں) اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور زیادہ باقی رہنے والا ہے، ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اور صرف اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں. (سورة الشوری آيت 36(
✿ مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ وَ لَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْۤا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.
جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ ختم ہوجائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور یقیناً ہم ان لوگوں کو جنھوں نے صبر کیا، ضرور ان کا اجر بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔ (سورة النحل آيت: 96(
✿ بَلۡ تُؤۡثِرُونَ ٱلۡحَیَوٰةَ ٱلدُّنۡیَا وَٱلۡـَٔاخِرَةُ خَیۡرࣱ وَأَبۡقَىٰۤ ۔ (سورة الأعلى 16 – 17(
بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت(جنت) کہیں بہتر اور زیادہ باقی رہنے والی ہے۔
✿ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: قَالَ اللَّهُ: أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ. فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ : فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ. (صحيح بخاری: 3244، 4780(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں ، جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا ، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی خیال گزرا ہے ۔ اگر جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو ” پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں “ ۔ (سورة السجدة آيت: 17(
✿ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: الْجَنَّةُ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ، وَالنَّارُ مِثْلُ ذَلِكَ (صحيح بخاری: 6488(
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ تم سے قریب ہے اور اسی طرح دوزخ بھی۔
✿ نبي کریم ﷺ نے فرمایا:
وَلَقَابُ قَوْسِ أَحَدِكُمْ أَوْ مَوْضِعُ -سوط- قَدَمٍ مِنَ الْجَنَّةِ، خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَلَوْ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إِلَى الْأَرْضِ، لَأَضَاءَتْ مَا بَيْنَهُمَا، وَلَمَلَأَتْ مَا بَيْنَهُمَا رِيحًا، وَلَنَصِيفُهَا – يَعْنِي الْخِمَارَ – خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا . (صحيح بخاری: 6568(
اور جنت میں تمہاری ایک کمان یا کوڑے کے برابر جگہ یا ایک قدم کے فاصلے کے برابر جگہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، سے بہتر ہے اور اگر جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت روئے زمین کی طرف جھانک کر دیکھ لے تو آسمان سے لے کر زمین تک منور کردے اور ان تمام کو خوشبو سے بھردے اور اس کا دوپٹہ دنیا و مافیہا سے بڑھ کرہے۔
✿ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِالسُّوقِ دَاخِلًا مِنْ بَعْضِ الْعَالِيَةِ، وَالنَّاسُ كَنَفَيْهِ ، فَمَرَّ بِجَدْيٍ أَسَكَّ مَيِّتٍ، فَتَنَاوَلَهُ، فَأَخَذَ بِأُذُنِهِ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنَّ هَذَا لَهُ بِدِرْهَمٍ ؟ فَقَالُوا : مَا نُحِبُّ أَنَّهُ لَنَا بِشَيْءٍ، وَمَا نَصْنَعُ بِهِ ؟ قَالَ : أَتُحِبُّونَ أَنَّهُ لَكُمْ ؟ قَالُوا : وَاللَّهِ لَوْ كَانَ حَيًّا كَانَ عَيْبًا فِيهِ ؛ لِأَنَّهُ أَسَكُّ، فَكَيْفَ وَهُوَ مَيِّتٌ ؟ فَقَالَ : فَوَاللَّهِ لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذَا عَلَيْكُمْ. (صحيح مسلم:2957(
أَتَرَوْنَ هَذِهِ هَانَتْ عَلَى أَهْلِهَا حِينَ أَلْقَوْهَا ؟ قَالُوا : مِنْ هَوَانِهَا أَلْقَوْهَا. (جامع ترمذی: 2321(
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ کی) کسی بالائی جانب سے داخل ہوتے ہوئے بازار سے گزرے ،لوگ آپ کے پہلو میں(آپ کے ساتھ چل رہے) تھے۔آپ حقیر سے کانوں والے مرے ہوئے میمنے کے پاس سے گزرے،آپ نے اسے کان سے پکڑ کر اٹھایا،پھر فرمایا:تم میں سے کون اسے ایک درہم کے عوض لینا پسند کرے گا؟”توانھوں(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے کہا:ہمیں یہ کسی بھی چیز کے عوض لینا پسند نہیں،ہم اسے لے کر کیا کریں گے؟آپ نے فرمایا:”(پھر) کیا تم پسند کرتے ہو کہ یہ تمھیں مل جائے؟”انھوں(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے عرض کی:اللہ کی قسم!اگر یہ زندہ ہوتا تو تب بھی اس میں عیب تھا،کیونکہ(ایک تو) یہ حقیر سے کانوں والا ہے(بھلا نہیں لگتا)۔پھر جب وہ مرا ہوا ہے تو کس کام کا؟ اس پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ کی قسم!جتنا تمہارے نزدیک یہ حقیر ہے اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔"
‘کیاتم لوگ اسے دیکھ رہے ہو کہ جب یہ اس کے مالکوں کے نزدیک حقیر اور بے قیمت ہوگیا’ تو انہوں نے اسے پھینک دیا، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کی بے قیمت ہونے کی بنیاد ہی پر لوگوں نے اسے پھینک دیا ہے۔
✿دنیا اور آخرت میں اپنے گھر کی ضرورت اور اہمیت:
دنیا کی زندگی جتنی زیادہ عارضی ہے اتنا ہی انسان کے لیے اس زندگی میں اپنے لیے ذاتی گھر کی اشد ضرورت اور اہمیت ہے، اسی لیے انسان پوری زندگی اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے اچھا گھر بنانے کی فکر، محنت اور جستجو میں لگا رہتا ہے۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو ایسے گھرانے میں رشتہ دینا پسند نہیں کرتے جن کا اپنا ذاتی گھر نہ ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے لیے اس کے اچھے اور وسیع گھر کو اس کے لیے نیک بختی اور سعادت قرار دیا ہے، اور گھر کے غیر مناسب چھوٹے یا تنگ ہونے کو کم بختی یا بد بختی قرار دیا ہے :
✿ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: أَرْبَعٌ مِّنَ السَّعَادَة: اَلمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ، وَالَمْسْكَنُ الوَاسِعُ، وَالْجَارُ الصَّالِحُ، وَالْمَرْكَبُ الهَنِيءُ. وَأَرْبَعٌ مِّنَ الشَّقَاوَةِ: الجَارُ السُّوء، وَالْمَرْأَة السُّوء، وَالْمَرْكَبُ السُّوء، وَالْمَسْكَنُ الضيِّق.
) صحيح ابن حبان: 4032، مسنداحمد 1445، صَحِيح الجامِع: 887، الصَّحِيحَة: 282(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار چیزیں سعادت مندی میں سے ہیں: نیک بیوی، کشادہ گھر، اچھا پڑوسی، اور خوشگوار سواری۔ اور چار چیزیں بد بختی میں سے ہیں: برا پڑوسی، بری بیوی، بری سواری اور تنگ گھر۔
✿ دنیا میں اپنے علاقے اور گھر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دین کی خاطر اپنے گھر بار کو چھوڑ کر ہجرت کرنے کا بڑا ثواب بیان کیا گیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
✿ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلِهَا. (صحیح مسلم: 121(
بے شک ہجرت کرنے سے انسان کے گزشتہ تمام گناہ ختم کردیے جاتے ہیں۔
اسی طرح اسلام میں کتنے ہی جرموں کی سزا جلا وطنی مقرر کی گئی ہے۔
✿نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر کی وسعت کے لیے با قاعدہ دعائیں کیا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، ووَسِّعْ لِي فِي دارِي، وبارِكْ لِي فِيما رَزَقْتَنِي. (ترمذی 3500 مسند احمد: 16599 وحسنه الامام الألبانی والاناؤط، وقال الشيخ زبير علی زئی: إسنادہ ضعیف: الجریری اختلط (انوار الصحیفہ صفحہ نمبر: 296(
اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے میرے گھر میں کشادگی دے، اور میرے لیے میرے رزق میں برکت عطا فرما۔
✿جنت میں گھر کی اہمیت اور ضرورت:
✿ سیدہ آسیہ علیھا السلام فرعون بادشاہ کے گھر میں رہتی تھی کیا اس گھر میں عیش و عشرت، آسائشیں اور سہولتوں کی کوئی کمی ہوگی؟ پر انہوں نے فرعون کے گھر اور بادشاہی کے مقابلے میں ایمان اور جنت کو ترجیح دیتے ہوئے آخرت کے گھر کے لیے دعائیں مانگی:
وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَكَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ.
اور اللہ نے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی(آسیہ) کی مثال بیان کی، جب اس نے کہا اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل(کرتوتوں) سے بچالے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات عطا فرما (سورة التحريم آيت: 11(
✿ جنتی گھروں کی صفات:
✿ جنتی گھروں کے بارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَبِنَةٌ مِنْ ذَهَبٍ، وَلَبِنَةٌ مِنْ فِضَّةٍ، مِلَاطُهَا الْمِسْكُ الْأَذْفَرُ، حَصْبَاؤُهَا الْيَاقُوتُ وَاللُّؤْلُؤُ، وَتُرْبَتُهَا الْوَرْسُ وَالزَّعْفَرَانُ، مَنْ يَدْخُلُهَا يَخْلُدُ لَا يَمُوتُ، وَيَنْعَمُ لَا يَبْأَسُ، لَا يَبْلَى شَبَابُهُمْ، وَلَا تُخَرَّقُ ثِيَابُهُمْ . (جامع ترمذی: 2526، مسند احمد : 9744، 8043، طبرانی اوسط: 3701، الصَّحِيحَة: 2662، صَحِيح الجامِع: 3116، صَحِيح التَّرْغِيبِ والتَّرْهِيب: 3714 ، 3711(
✿ جنت کے گھر ایسے تعمیر کیے گئے ہیں کہ ایک اینٹ چاندی کی ہے اور ایک سونے کی اور اس کا گارا مشک اذفر کا ہے اوراس کے کنکر موتی لؤلؤ اور یاقوت کے ہیں، ورس اور زعفران اس کی مٹی ہے، جو اس میں داخل ہوگا وہ اس میں ہمیشہ زندہ رہے گا اسے کبھی موت نہیں آئے گی، ہمیشہ ایسی نعمتوں میں رہے گا جو کبھی ختم نہیں ہونگی، ان کی جوانی کبھی فنا نہیں ہوگی اور ان کے کپڑے پرانے نہیں ہوں گے۔
✿ قارئین کرام جو انسان بھی جنت میں داخل ہوگا اس کے لیے جنت میں رہائش کا مکمل بندوبست ہوگا، بلکہ ایک حدیث میں تو یہاں تک آتا ہے کہ جہنم سے سب سے آخر میں نکالا جانے والا اور جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والا شخص یعنی سب سے کم درجے والے انسان کو بھی جنت میں اس کی تمنا اور خواہشات سے دس گنا زیادہ بلکہ پوری دنیا سے دس گنا زیادہ عطا کیا جائے گا۔
(صحيح بخاری: 6571 ، 7438، صحيح مسلم: 186)
*جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ہزار محلات *
قالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبّاسٍ رضي الله عنهما: أعْطاهُ اللهُ في الجَنَّةِ ألْفَ قَصْرٍ مِن لُؤْلُؤ، تُرابُها المِسْك، في كُلِّ قَصْرٍ ما يَنْبَغِي لَه ٠ (طبراني اوسط: ٥٧٢، الصَّحِيحَة: ٢٧٩٠)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت میں ایک ہزار محلات عطا فرمائے ہیں، ہر ایک محل میں ضرورت کی ہر ہر چیز موجود ہے۔
نوٹ: یہ موقوف روایت حقیقت میں مرفوع حکمی ہے اس لیے کہ اس میں صحابی کے اجتہاد کا کوئی دخل نہیں ہوسکتا۔
✿سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا گھر:
عن أَبِي هُرَيرة رضي الله عنه قال : فِي الجَنَّةِ قَصرٌ مِن لُؤلُؤٍ لَيس فِيها صَدعٌ ولا وهنٌ ، أَعَدَّهُ الله لِخَلِيلِهِ إِبراهِيم صَلَّى الله عَلَيه وسَلم.
(الطبرا نی في الأوسط: 6543 ، 8114 ، والبزار: 2346 ، 8779 ، البداية والنهاية: 1 / 172 ، 199، 399، تاريخ دمشق لابن عساكر: 6/274، أشار إلى إعلاله البزار بالوقف .وقال أبو حاتم الرازی والدارقطنی : الموقوف أصح)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے اپنے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے لیے جنت میں موتیوں کا ایک خاص محل بنایا ہے۔
یہ روایت حکما مرفوع ہے۔
✿ *ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کا گھر:
أَتَى جِبْرِيلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ , فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي , وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ.(بخاری: 3820)
✿ جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس ایک برتن لیے آرہی ہیں جس میں سالن یا ( فرمایا ) کھانا یا ( فرمایا ) پینے کی چیز ہے جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے رب کی جانب سے انہیں سلام پہنچا دیجئے گا اور میری طرف سے بھی ! اور انہیں جنت میں موتیوں کے ایک محل کی بشارت دے دیجئے گا ، جہاں نہ شور و ہنگامہ ہوگا اور نہ تکلیف وتھکن ہوگی۔
✿ *سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا گھر:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي فِي الْجَنَّةِ فَإِذَا امْرَأَةٌ تَتَوَضَّأُ إِلَى جَانِبِ قَصْرٍ فَقُلْتُ لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ قَالُوا لِعُمَرَ فَذَكَرْتُ غَيْرَتَهُ فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا فَبَكَى عُمَرُ وَقَالَ أَعَلَيْكَ أَغَارُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. (صحيح بخاری: 3680)
✿ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں جنت دیکھی ۔ میں نے دیکھا کہ ایک عورت ایک محل کے کنارے وضو کررہی ہے ۔ میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے ؟ تو فرشتوں نے جواب دیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا ۔ پھر مجھے ان کی غیرت و حمیت یاد آئی اور میں وہیں سے لوٹ آیا ۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو دیئے اور عرض کیا یار سول اللہ ! کیا میں آپ پر بھی غیرت کروں گا ؟
✿ذیل میں ایسے اعمال اور صفتیں ذکر کی جاتی ہیں جن کے اپنانے والوں کو اللہ تعالی اور پیارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں گھر، محلات اور بالا خانوں کی بشارت دی ہیں:
✿ *ایمان، توحید اور عمل صالح:
✿اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ مَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰۤى اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ جَزَآءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَ هُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ.
اور نہ تمھارے مال ایسے ہیں اور نہ تمھاری اولاد جو تمھیں ہمارے ہاں قرب میں نزدیک کردیں، مگر جو شخص ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیا تو یہی لوگ ہیں جن کے لیے دو گنا بدلہ ہے، اس کے عوض جو انھوں نے عمل کیا اور وہ بالا خانوں میں بے خوف ہوں گے۔ (سورة سبا آيت 37)
✿ایمان اور عمل صالح کا معنی بہت وسیع ہے ، پر بنیادی طور پر ایمان میں:
1: اللہ پر ایمان
2:فرشتوں پر ایمان
3:اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے تمام پیغمبروں اور رسولوں پر ایمان
4:رسولوں پر نازل کی گئی وحی یعنی آسمانی کتابوں اور صحیفوں پر ایمان
5:آخرت کے دن اللہ تعالی کی ملاقات یعنی قیامت پر ایمان
6:اللہ تعالی کی طرف سے لکھی گئی اچھی یا بری تقدیر پر ایمان.(صحيح بخاری: 8، 50)
اور ایک حدیث میں ارکان اسلام یعنی توحید، رسالت کی گواہی، نماز، روزے اور زکوٰۃ کو ایمان کہا گیا ہے. (صحيح بخاری: 53)
✿ اللہ تعالی پر ایمان اور تمام انبیاء و رسل کی تصدیق:
✿ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ أَهْلَ الجَنَّةِ يَتَرَاءَوْنَ أَهْلَ الغُرَفِ مِنْ فَوْقِهِمْ، كَمَا يَتَرَاءَوْنَ الكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ الغَابِرَ فِي الأُفُقِ، مِنَ المَشْرِقِ أَوِ المَغْرِبِ، لِتَفَاضُلِ مَا بَيْنَهُمْ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ تِلْكَ مَنَازِلُ الأَنْبِيَاءِ لاَ يَبْلُغُهَا غَيْرُهُمْ، قَالَ: بَلَى وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، رِجَالٌ آمَنُوا بِاللَّهِ وَصَدَّقُوا المُرْسَلِينَ (صحيح بخاری: 3256)
✿ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنتی لوگ اپنے سے بلند کمرے والوں کو اوپر اسی طرح دیکھیں گے جیسے چمکتے ستارے کو جو صبح کے وقت رہ گیا ہو ، آسمان کے کنارے پورب یا پچھم میں دیکھتے ہیں ۔ ان میں ایک دوسرے سے افضل ہو گا، لوگوں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ! یہ تو انبیاء کے محل ہوں گے جنہیں ان کے سوا اور کوئی نہ پا سکے گا ۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں ، اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور انبیاء کی تصدیق کی ۔
*✿ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان، ہجرت اور جہاد:
✿ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: أَنَا زَعِيمٌ لِمَنْ آمَنَ بِي وَأَسْلَمَ وَهَاجَرَ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ وَأَنَا زَعِيمٌ لِمَنْ آمَنَ بِي وَأَسْلَمَ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى غُرَفِ الْجَنَّةِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَلَمْ يَدَعْ لِلْخَيْرِ مَطْلَبًا وَلَا مِنْ الشَّرِّ مَهْرَبًا يَمُوتُ حَيْثُ شَاءَ أَنْ يَمُوتَ.
(سنن النسائی: 3135 = 3133، صحيح ابن حبان: 4600 = 4619، مستدرک حاکم: 2391، إسنادہ حسن قاله الشيخ المحدث زبير علی زئی رحمه الله)
✿ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ’’جو شخص مجھ پر ایمان لایا، مسلمان (مطیع) ہوا اور اس نے ہجرت کی، میں اس کے لیے جنت کے کنارے میں ایک گھر اور جنت کے درمیان میں ایک گھر کا ضامن ہوں۔ اور جو شخص مجھ پر ایمان لایا، مسلمان (مطیع) ہوا اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس نے جہاد کیا، میں اس کے لیے جنت کے کنارے پر ایک گھر، جنت کے درمیان ایک گھر اور جنت کے انتہائی بلند حصے میں ایک گھر ( جنۃ الفردوس) کا ضامن ہوں۔ جس شخص نے یہ کام کیے، اس نے خیر حاصل کرنے کا کوئی موقع اور شر سے بھاگنے کا کوئی موقع نہ چھوڑا۔ وہ جہاں مرضی فوت ہو(یعنی اس کی موت ضرور خیر اور بھلائی پر ہی ہوگی)
✿ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ کی رسالت پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ یہ اعلان کروایا کہ مؤمن مسلمان کے سوا کوئی بھی جنت میں داخل نہیں ہوگا. (صحيح بخاری: 3062، 4203)
✿ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ کی قسم کوئی بھی یہودی یا عیسائی (یا کوئی بھی غیر مسلم) میرے (یعنی نبوت، دعوت) کے بارے میں سننے کے بعد مجھ پر اور میری شریعت (قرآن وحدیث) پر ایمان نہیں لایا تو وہ دوزخ میں داخل ہوگا۔ (صحيح مسلم: 153)
✿ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: میری ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! بھلا انکار کون کرے گا؟ فرمایا کہ جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو میری نا فرمانی کرے گا (یعنی میری بات نہیں مانے گا) اس نے در حقیقت جنت میں جانے سے انکار کیا۔ (صحيح بخاری: 7280)
✿ *دس دفعہ سورۃ الاخلاق (قل ھو اللہ) پڑھنا:
✿ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَنْ قَرَأَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ حَتَّى يَخْتِمَهَا عَشْرَ مَرَّاتٍ بَنَى اللَّهُ لَهُ قَصْرًا فِي الْجَنَّةِ . فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : إِذَنْ نَسْتَكْثِرَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اللَّهُ أَكْثَرُ وَأَطْيَبُ. (مسنداحمد: 15610، الصحيحة: 589)
✿ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قل ھو اللہ احد (سورۃ الاخلاص) مکمل طور پر دس دفعہ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک محل تیار کرتے ہیں۔ یہ بات سن کر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہنے لگے: پھر تو ہم کثرت سے پڑھ کر بہت زیادہ محلات حاصل کرے گیں! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی بھی کثرت اور عمدگی سے عطا کرنے والا ہے۔
✿ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کیا تم میں سے کوئی شخص اتنا بھی نہیں کرسکتا کہ ایک رات میں تہائی قرآن(دس سپارے) کی تلاوت کرلے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی: (کوئی شخص) ایک ہی رات میں تہائی قرآن کی تلاوت کیسے کرسکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قُلْ ھوَ اللَّہُ أَحَدٌ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے(تو یہ پڑھا کرو)۔ (صحيح مسلم: 811)
✿ ایک شخص نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھا کرتا تھا، جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو بتا دو کہ جب وہ (اللہ کی توحید پر مشتمل) اس سورت سے محبت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ (صحيح بخاری: 7375، صحيح مسلم: 813)
✿ *تقوی، پرہیزگاری اور اللہ کا خوف:
لَـٰكِنِ ٱلَّذِینَ ٱتَّقَوۡا۟ رَبَّهُمۡ لَهُمۡ غُرَفࣱ مِّن فَوۡقِهَا غُرَفࣱ مَّبۡنِیَّةࣱ تَجۡرِی مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَـٰرُ وَعۡدَ ٱللَّهِ لَا یُخۡلِفُ ٱللَّهُ ٱلۡمِیعَادَ. (سورة الزمر 20)
لیکن جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں، ان کے لئے (جنت میں) بالا خانے ہوں گے، جن کے اوپر بھی بالا خانے بنے ہوں گے، ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، یہ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا ہے۔
✿ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَ لَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ.
اور دنیا کی زندگی کھیل اور دل لگی کے سوا کچھ نہیں اور یقیناً آخرت کا گھر(جنت) ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ڈرتے ہیں، تو کیا اتنی سی بات تمہاری عقل میں نہیں آتی؟ (سورة الانعام آيت: 32)
✿صبر، نماز اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا:
✿ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ.
اور وہ جنھوں نے اپنے رب کا چہرہ(کا دیدار اور رضا) طلب کرنے کے لیے صبر کیا اور نماز قائم کی اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کیا اور برائی کو نیکی کے ساتھ ہٹاتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے لیے اس گھر کا اچھا انجام (جنت)ہے۔ (سورة الرعد: آيت: 22)
✿زمین میں تکبر اور فساد نہ کرنا:
✿ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ .
یہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لئے مخصوص کردیتے ہیں جو زمین میں بڑائی یا فساد نہیں چاہتے اور (بہتر) انجام تو پرہیزگاروں کے لئے ہے. (سورة القصص آيت: 83)
✿ *مؤمنین کی مختلف صفتیں اور جنت میں محلات اور بالا خانے:
اللہ رب العالمین نے سورۃ الفرقان ایت نمبر:63 سے آیت نمبر 74 تک اپنے خاص مؤمن بندوں کی صفات ذکر کی ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر تکبر، غرور اور بڑائی کے بغیر نرمی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ بلا وجہ، خواہ مخواہ ان سے اٹکتے ہیں تو وہ بحث و مباحثہ کی بجائے خاموشی اختیار کرتے ہوئے کنارہ کشی کرتے ہیں، اپنی راتیں رب کی بارگاہ میں رکوع، سجود اور قیام میں گذارتے ہیں، اپنی دعاؤں میں ہمیشہ دوزخ سے پناہی مانگتے ہیں، خرچ کرتے ہوئے کنجوسی اور فضول خرچی کی درمیانی راہ اختیار کرتے ہیں، اللہ تعالی کے ساتھ عبادت اور دعا میں کسی کو شریک نہیں کرتے، کسی کو نا حق قتل نہیں کرتے، نہ ہی بے حیائی، فحاشی اور زنا کا ارتکاب کرتے ہیں، ایمان اور عمل صالح پر قائم رہتے ہوئے اللہ کے در پر توبہ اور گریہ زاری کرتے ہیں، کبھی بھی جھوٹی گواہی نہیں دیتے، اور جہاں جھوٹ، فحاشی اور بے ہودہ کام ہو رہا ہو تو وہاں سے باعزت طریقے سے گزر جاتے ہیں، اللہ تعالی کی آیتوں، شریعت کے احکام اور نصیحتوں کو دل جان سے قبول کرتے ہیں اور ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے، اپنی اور اپنی اولاد کی تربیت اور اصلاح کی فکر رکھنے کے ساتھ ساتھ دعاؤں کا سہارا بھی لیتے ہیں۔
✿ یہ تمام صفات ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالٰی نے ان کے بدلے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
اُولٰٓىِٕكَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَ یُلَقَّوْنَ فِیْهَا تَحِیَّةً وَّ سَلٰمًاۙ. خٰلِدِیْنَ فِیْهَاحَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا.
یہی وہ لوگ ہیں جن کو ان کے صبر (واستقامت) کے ہر صلے میں(جنت کے محلات اور) بالاخانے دیے جائیں گے اور وہاں دعائے خیر اور سلام کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا، ہمیشہ اس میں رہنے والے ہیں۔ وہ ٹھہرنے اور رہنے کی اچھی جگہ ہے۔ (سورة الفرقان آيت: 75، 76)
✿ *مسجد بنانا اور اللہ کی مہربانی:
✿ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنْ بَنَى مَسْجِدًا يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ. (بخاری:450) صَغِيرًا كَانَ أَوْ كَبِيرًا. (سنن ترمذی:319) كَمَفْحَصِ قَطَاةٍ ، أَوْ أَصْغَرَ. (سنن ابن ماجه: 738) يُذْكَرُ فِيهِ اسْمُ اللَّهِ،(سنن ابن ماجه:735)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص خاص اللہ کی رضا کے لیے چھوٹی یا بڑی، بلکہ چڑیا کے گھونسلے جتنی مسجد تعمیر کرتا ہے کہ اس میں اللہ کا ذکر اور عبادت کی جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں محل تیار کرے گا۔
✿ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن تَوَضَّأ فِي بَيْتِهِ فَأحْسَنَ الوُضُوءَ، ثُمَّ أتى المَسْجِدَ، فَهُوَ زائِرُ اللهِ، وحَقٌّ عَلى المَزُورِ أنْ يُكْرِمَ الزّائِرَ..
جو شخص اپنے گھر میں اچھی طرح وضوء کرکے مسجد کی طرف آتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا مہمان ہے، اور مہمان کا حق ہوتا ہے کہ اس کی عزت، تکریم اور خاطر مدارت کی جائے. (طبرانی کبير: 6139، الصَّحِيحَة: 1169، صَحِيح التَّرْغِيبِ والتَّرْهِيب: 322)
✿مساجد کو آباد کرنا:
✿ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ غَدَا إِلَى الْمَسْجِدِ وَرَاحَ ، أَعَدَّ اللَّهُ لَهُ نُزُلَهُ مِنَ الْجَنَّةِ كُلَّمَا غَدَا أَوْ رَاحَ.
جو شخص مسجد میں صبح شام بار بار حاضری دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمانی کا سامان(گھر اور محلات وغیرہ) تیار کرے گا۔ وہ صبح شام جب بھی مسجد میں جائے. (صحيح بخاری: 662، صحيح مسلم: 669)
✿ *صفوں کو ملاتے ہوئے سنت کے مطابق نماز ادا کرنا:
✿ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَن سَدَّ فُرْجَةً فِي صَفٍّ رَفَعَهُ اللَّهُ بِها دَرَجَةً، وبَنىٰ لَهُ بَيْتًا فِي الجَنَّةِ .
(طبرانی اوسط: ٥٧٩٧، مصنف ابن ابی شيبه: ٣٨٢٤، الصَّحِيحَة : 1892، 2532)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص صف میں خالی جگہ پر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کرتا ہے اور اس کے لیے جنت میں گھر تعمیر کرتا ہے۔
✿ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صفوں میں اس طرح کھڑا کرتے کہ ہر ایک کا کندھا دوسرے صحابی کے کندھے سے، پاؤں پاؤں سے اور ایڑھی ایڑھی سے ملی ہوتی تھی. (صحيح بخاری: 725)
✿ * دن رات میں بارہ سنت رکعات کا اہتمام:
✿ عَنۡ أُمِّ حَبِيبَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتۡ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ صَلَّى اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ بُنِيَ لَهُ بِهِنَّ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ. قَالَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ : فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَقَالَ عَنْبَسَةُ فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ أُمِّ حَبِيبَةَ. وَقَالَ عَمْرُو بْنُ أَوْسٍ : مَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ عَنْبَسَةَ.وَقَالَ النُّعْمَانُ بْنُ سَالِمٍ : مَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ. (صحيح مسلم: 728)
ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جس نے ایک دن اور ایک رات میں بارہ رکعات ادا کیں اس کے لئے ان کے بدلے جنت میں ایک گھر بنا دیاجاتا ہے۔ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: جب سے میں نے ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا،میں نے انھیں کبھی ترک نہیں کیا۔ عنبسہ نے کہا:جب سے میں نے ان کے بارے میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سنا،میں نے انھیں کبھی ترک نہیں کیا۔