─━•<☆⊰✿﷽✿⊱☆>•━─
✺●═🍃◐🌸◑🍃═●✺
✍️ تحریر:الشیخ ابو عمير حزب الله بلوچ حفظہ اللہ*
✍️ اردو ترجمہ:حافظ محسن انصاری حفظہ اللہ •••━══❁✿❁ ══━•
♦️ عظمت اور حرمت والا مہینہ
محرم کا مہینہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اور یہ چار حرمت، عظمت اور بڑے شرف والے مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں: اربعة حرم (التوبة:36) اشهر الحرم (التوبة :5) الشھر الحرام: (البقرة: 194) قرار دیا ہے.
⭕ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ. [سورة التوبة 36]
بیشک مہینوں کی گنتی، اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے، جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان(بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے ہیں(جن میں جنگ کرنا ناجائز ہے)۔ یہی سیدھا دین ہے۔ سو ان میں (جنگ اور خونریزی کرکے) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو، جیسے وہ ہر حال میں تم سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ بیشک اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے.
⭕ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، ان میں سے تین ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم لگاتار ہیں اور چوتھا حرمت والا مہینہ رجب ہے .
📚 (صحيح بخاري: 4662 ، صحيح مسلم : 1679)
❀ ان حرمت والے مہینوں کا زمانہ جاہلیت میں کفار او مشرکین بھی ادب اور تعظیم کرتے ہوۓ اپنے فتنے فساد اور لڑائی، قتل و غارتگری بند کرکے اپنے ہتھیار کند کردیا کرتے تھے.
❀ مسلمانوں پر بھی ان حرمت والے مہینوں کی تعظیم واجب ہے اور جنگ و قتال حرام ہے البتہ اگر کفار پہل کرتے ہوۓ مسلمانوں پر حملہ آور ہوں تو پھر مسلمان اپنا دفاع کرتے ہوۓ لڑ سکتے ہیں.
❀ سب مہینے اور سال بلکہ سب کچھ ہی اللہ تعالی کا ہے لیکن نبی کریم ﷺ نے محرم کے مہینے کی خصوصی عظمت کی وجہ سے اسے شھر اللہ یعنی اللہ تعالی کا مہینہ قرار دیا ہے .
📚 (صحيح مسلم: 1163)
⭕ محرم کی دس تاریخ یعنی عاشوراء والے دن کعبة اللہ کو غلاف پہنایا جاتا تھا .
📚(صحيح بخاري: 1592ٖ)
⭕ عاشوراء کا روزہ
10 محرم یعنی عاشوراء کا روزہ زمانہ جاہلیت میں قریش بھی رکھتے تھے، نبی کریم ﷺ نے خود بھی یہ روزہ رکھا، مدینہ ہجرت کے بعد بھی آپ نے یہ روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی حکم دیا جب رمضان کے روزے فرض کیے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ: یہ روزہ فرض نہیں لیکن میں رکھونگا.
📚 (صحيح بخاري : 2002 ، 2003 ، مسلم : 1125، 1129)
یعنی رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے عاشوراء یعنی دس محرم کا روزہ رکھنا فرض تھا.
❀ اسی طرح مدینہ میں یہودی بھی یہ روزہ رکھتے تھے. جب ان سے پوچھا گیا تو کہنے لگے کہ اس دن اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں کو فرعون سے نجات دی تو موسی علیہ السلام نے بطور شکرانہ روزہ رکھا تھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہم موسی (عليه السلام) کہ تم سے زیادہ حقدار ہیں پھر آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی حکم دیا.
📚(بخاري: 2004 . 3397. مسلم : 1130)
⭐ نبی کریم ﷺ عاشوراء کے روزے کو خصوصی اہمیت دیتے اور افضل سمجھتے ہوۓ خوب اہتمام فرمایا کرتے تھے.
📚 (صحيح بخاري: 2006 مسلم : 1132)
⭐ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس روزے کا خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے اس حد تک کہ اپنے چھوٹے بچوں کو بھی عاشوراء کا روزہ رکھواتے اور کھلونے دے کر انہیں بہلاتے تاکہ وہ روزہ پورا کرلیں.
📚 (صحيح بخاري: 1960)
⭐ امیر المؤمنین سیدنا علی اور سیدنا ابوموسی الاشعری رضي الله عنهما عاشوراء یعنی 10 محرم کی روزے کی بہت زیادہ ترغیب دیا کرتے تھے. (مسند ابوداؤد الطيالسي: 1308)
❀ عاشوراء (10 محرم) کے روزے کی فضیلت بیان کرتے ہوۓ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ.
میں اللہ تعالی سے امید رکھتا ہوں کہ عاشوراء کا روزہ رکھنے سے اللہ تعالی گزشتہ ایک سال کے گناہ بخش دے گا .
📚(صحيح مسلم : 1162)
❀ دوسری حدیث میں ہے:
أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ ؛ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ. (صحيح مسلم : 1163)
آپ ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ: رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں. 📚 (صحيح مسلم: 1163)
❀ صحابہ کرام رضي الله عنهم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول عاشوراء کے دن کی یہودی اور عیسائی بھی تعظیم کرتے ہیں (اور ہم مسلمان بھی روزہ رکھتے ہیں تو اس سے ان کی موافقت ہوجاۓ گی!) آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اگر میں آئیندہ سال تک زندہ رہا تو نو تاریخ کا بھی روزہ رکھونگا پر آپ اگلے سال سے پہلے ہی وفات کرگئے.
📚 (صحيح مسلم : 1134)
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضي الله عنهما فرماتے ہیں :
خَالِفُوا اليَهُودَ وَصُومُوا التَّاسِعَ والۡعَاشِرَ وَلَاتَشَبَّهُوا بِالۡيَهُودِ
تم عاشوراء کا روزہ رکھنے میں یہودیوں کی مخالفت کرتے ہوۓ نو اور دس محرم کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مشابہت سے بچو .
📚 (مصنف عبدالرزاق 4/287 ح 7839 وسندہ صحیح، والسنن الکبریٰ للبیھقي.4/287 ، والسنن الماثورة للشافعي: 337 .)
معلوم ہوا کہ عاشوراء کے دو روزے رکھنے چاہییں ایک دس تاریخ کا اور دوسرا اس کے ساتھ نو تاریخ کا بھی روزہ رکھنا چاہیے تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہو اور ان کی مشابہت سے بچ سکیں.
❀ امام احمد، امام شافعی، اسحاق بن راھویہ رحمہم اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ دس تاریخ کا روزہ رکھنا چاہیے اس لیے کہ نبی کریم ﷺ نے خود یہ روزہ رکھا اور اس کے ساتھ نو تاریخ کا بھی روزہ رکھنا چاہیے اس لیے کہ اس روزہ کی اللہ کے رسول ﷺ نے نیت کہ آئیندہ سال نو تاریخ کا روزہ رکھونگا(نبی کریم ﷺ کی نیت بھی دلیل اور حجت ہے)
📚 (جامع ترمذي تحت حديث: 755 . شرح النووي: 1/ 359 )
⭐ نوٹ:
باقی ان الفاظ سے جو مرفوع روایت ذکر کی جاتی ہے:
صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ، صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا، أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا .
📚 (مسند احمد : 2154. ابن خزيمه: 2095 وضعفه الالباني والارناؤط رحمهم الله)
یہودیوں کی مخالفت کرتے ہوۓ عاشوراء 10 محرم کے ساتھ 9 تاریخ یا 11 تاریخ کا بھی روزہ رکھو. یہ روایت راوی “داؤد بن علی“ اور “ابن ابي ليلی“ کے ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں ہے .
❀ یاد رہے کہ ماہ محرم کے مذکورہ فضائل اور عاشوراء کے روزے رکھنے کے متعلق جو بھی فضائل وغیرہ ہیں ان کا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ یا واقعہ کربلا سے کوئی تعلق نہیں.
⭕ عاشوراء محرم کا روزہ شیعہ مذہب میں
اس روزے کے مستحب ہونے کے بارے میں خود شیعہ مذہب کی معتبر کتابوں اور اماموں سے روایتیں موجود ہیں :
⭐ امير المومنين سيدنا علی رضي الله عنه فرماتے : صُومُوا عَاشُورَاءَ التَّاسِعَ وَالعَاشِرَ فَاِنَّهُ يُكَفِّرُ ذُنُوبَ سَنَةِِ.
نو اور دس تاریخ عاشوراء کا روزہ رکھو کیونکہ اس سے ایک سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں .
(تهذيب الاحڪام 4/ 299 رقم 905 ، الاستبصار 2 /134 رقم 437 ، وسائل الشيعه 10 / 475 رقم 13839 )
شیعہ اصول کے مطابق اس روایت کی سند صحیح ہے.
مشہور شیعہ محقق ابو القاسم الخوئی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے. (المستند في شرح العروة الوثقيٰ ، موسوعة الخوئي 22 / 331)
⭐ امام ابوجعفر محمد الباقر رحمه الله فرماتے ہیں: صِيَامُ يَومِ عَاشُورَاءَ كَفَّارَةُ سَنَةِِ.
(9- 10 محرم) عاشوراء کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے .
(تهذيب الاحڪام 4/ 300 رقم 907 ، الاستبصار 2/ 134 رقم 437 وسائل الشيعه 10/ 475 رقمه 13849 )
شیعہ عالم علامہ خوئی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ، موسوعة الخوئي 22/ 316 )
(مزید روایات کے لیے دیکھیں : التهذيب : 905 تا 908 ، 1045 ، الكافي 86:4/ح1)
⭐ کئی شیعہ علماء غم حسین میں عاشوراء کے روزے کو مستحب کہتے ہیں: (شرائع الاسلام للحلي 1/ 149)
⭐ کچھ شیعہ عالم ان روزوں کے مستحب ہونے پر اجماع نقل کرتے ہیں:
(جواهر الڪلام لمحمد حسن نجفي 17/ 105)
⭐ شیعوں کے مشہور عالم شیخ المفید کہتا ہے کہ:
أَنَّ مَنۡ صَامَ يَومَ عَاشُوۡرَاءَ عَلىٰ طَرِيقِ الحُزُنِ بِمَصَائِبِ آلِ مُحَمَّدِِ عَلَيۡهِمِ السَّلَامُ فَقَدۡ أَصَابَ …
جو انسان آل محمد (صلي الله عليه وسلم ) کو پہنچنے والی تکلیف اور دکھ کے غم میں عاشوراء کا روزہ رکھتا ہے تو یہ بالکل صحیح ہے … (الاستبصار 2 / 135 ، 136 )
⭐ کچھ شیعہ علماء سیستانی وغیرہ کہتے ہیں کہ: 10 محرم کو سارے دن کچھ بھی کھانا پینا نہیں چاہیے عصر کے بعد صرف ایک گھونٹ پینا پانی چاہیے .
⭐ بڑے تعجب کی بات ہے کہ اس معتبر اور مناسب تعلیم کے بالکل برعکس ان دنوں میں شیعہ اور نام نہاد سنی قسما قسم کے شربت، بریانی، طعام اور حلیم وغیرہ کی دیگیں ڈھول بجاتے بجاتے چٹ کرجاتے ہیں!! یہ ہے ان کا آل محمد (ﷺ) کا غم اور دکھ !!
⭐ قارئین کرام شیعہ مذہب کی ایسی معتبر ترین روایتوں کے ہوتے ہوۓ کچھ شیعہ علماء کا عاشوراء کے روزہ کو حرام یا مکروہ کہنا انتہائی عجیب ہے !!
♦️ مروجہ بدعات و غیر شرعی رسومات
⭐ نوٹ : قارئین کرام محرم کے مہینے میں روزے رکھنے کے سوا کوئی بھی خاص عبادت نماز یا کوئی خاص ذکر، دا یا وظیفہ وغیرہ ثابت نہیں اس سلسلہ میں جتنی روایتیں بیان کی جاتی ہیں وہ سب جعلی، ضعیف، موضوع اور ناقابل اعتبار ہیں جن کا کوئی شرعی ثبوت نہیں .
⭐ عاشوراء کے دن اپنا دسترخوان وسیع کرنا اور گھر والوں کو خوب کھلانے پلانے کے بارے میں جتنی بھی روایتیں بیان کی جاتی ہیں وہ سب ناقابل اعتبار اور ضعیف ہیں. جیسا کہ یہ روایت :
مَنۡ وَسَّعَ عَلىٰ عِيَالِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهِ .
اس سے ملتے جلتے الفاظ والی تمام روایات ضعیف ہیں.
ہمارے شیخ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ مذکورہ روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
ضعیف جدًا، رواہ رزین (لم أجدہ) [و رواہ البیھقي في شعب الإیمان (3792، نسخۃ محققۃ: 3513) بإسناد مظلم عن ھیصم بن شداخ عن الأعمش عن إبراہیم عن علقمۃ عنہ بہ] و ھیصم بن شداخ: یروی عن الأعمش الطامات فی الروایات، لا یجوز الاحتجاج بہ، قالہ ابن حبان فی المجروحین (97/3) و للحدیث طرق ضعیفۃ جدًا۔ (تحقیق علی مشکاة المصابيح رقم الحدیث: 1926)
⭐ کچھ لوگوں میں یہ روایت مشہور ہے کہ محرم کے مہینے میں شادی یا کسی قسم کی خوشی نہیں منانی چاہیے، کسی بھی قسم کی مبارکباد نہیں دینی چاہیے. چارپائیوں پر سونا نہیں چاہیے بلکہ انہیں الٹا کردینا چاہیے، ننگے پاؤں چلنا چاہیے چپل بالکل نہ پہنیں، دودھ نہ پییں، سرمہ نہ لگائیں بلکہ غم اور دکھ کی کیفیت میں رہیں. ان سب باتوں کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں اس لیے ایسے غیر شرعی امور سے بچنا چاہیے .
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جس نے بھی ہمارے دین اسلام میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی یا کوئی بھی ایسا عمل کیا جو اس میں پہلے موجود نہ ہو اور ہم نے اس کا حکم نہ دیا ہو تو وہ مردود اور ناقابل قبول ہے .
📚 (صحيح بخاري: 2697 مسلم : 1718)
♦️ ماہ محرم اور سیاہ لباس
⭐ کوئی بھی اہل سنت موحد مسلمان یعنی سلفی عقیدہ والا انسان رافضیوں کی مجلسوں اور جلوسوں میں بالکل بھی شرکت نہ کرے خصوصی طور پر محرم کے مہینے میں سیاہ لباس پہننے سے اجتناب کریں کیونکہ یہ رافضیوں سے مشابہت اور ان سے اتحاد ہے. نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ .
جو آدمی جس قوم سے مشابہت کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے. (ابودؤد: 4031)
ہاں محرم کے سوا سیاہ لباس پہننا جائز ہے اور جو یہ عوام میں مشہور ہ کہ سیاہ لباس جہنمیوں کا لباس ہے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں.
❁ باقی یہ بات ضرور ہے کہ خود رافضیوں کی معتبر کتب میں سیاہ لباس تو کیا صرف سیاہ ٹوپی پہننے سے بھی منع کیا گیا ہے اور سیاہ رنگ کے لباس کو فرعون اور جہنمیوں کا لباس کہا گیا ہے . (دیکھیے رافضی کتب : علل الشرايع 2/ 43. 403 من لايحضره الفقيه 1/ 163. فروع الڪافي 3/ 403 . الاحڪام 2/ 213 وغيره )
♦️ قبرستان جانا
⭐ خاص اہتمام کے ساتھ صرف محرم کے مہینے میں قبروں پر لیپ وغیرہ کرکے تازہ کرنا اور خاص 9، 10 محرم کو عورتوں سمیت قبرستان زیارت کے لیے جانا قرآن و سنت سے ثابت نہیں، یاد رہے کہ شرک و بدعت سے بچتے ہوۓ موت کی یادگیری، فکر آخرت اور فوت شدگان کی مغفرت کی دعا کرنے کے لیے بغیر کسی مہینے اور دن کی تخصیص کیے بغیر قبرستان جانا جائز ہے .
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قبروں کی زیارت کیا کرو کہ اس سے تمہیں موت کی یاد رہے گی . 📚 (صحيح مسلم : 976.)
♦️ عَلم، تعزيہ ، نوحہ اور ماتم
⭐ اس میں کوئی شک نہیں کہ 10 محرم 61ھ میں سیدنا و محبوبنا حسين بن علی رضي الله عنهما کو کربلا میں مظلومانہ شہید کیا گیا، لیکن اس دکھ کی یاد میں ہر سال اس تاریخ کو سینہ کوبی ۽ زنجیرزنی کرنا گلی گلی، محلے محلے اور مجالس میں رونا، اپنے منہ پر طمانچے مارنا، سینہ پیٹنا، بال نوچنا، کپڑے پھاڑنا، نوحہ کرنا، دہکتے انگاروں یا آگ پر چلنا اور ماتم کرتے ہوۓ خود کو زخمی کرنا یہ سب حرام، بدعت اور ناجائز کام ہیں.
❁ شریعت میں مصائب اور تکالیف کے وقت صبر کے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی بہت ذیادہ فضیلت ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ. 📚(البقرة:153)
اے ایمان والو! (مصيبت کے وقت) صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ کی) مدد طلب کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
❁ اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ.
صبر کرنے والوں کو ان کا بے حساب اجر اور پورا پورا بدلہ دیا جاۓ گا. 📚(سورة الزُّمَرِ آيت 10)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: وہ آدمی ہم (مسلمانوں) میں سے نہیں جو مصیبت کے وقت چہرے پر طمانچے مارے، کپڑے پھاڑے اور جاہلیت والی پکار پکارتے ہوۓ چلاۓ . 📚(صحيح بخاري:1297)
آپ ﷺ نے فرمایا: نوحہ کرنا میری امت میں جاہلیت والے کاموں میں سے ہے، نوحہ کرنے والی عورت اگر بغیر توبہ کے مرگئی تو اللہ تعالی اسے تارکول کا لباس اور خارش کی قمیص پہنا کر دہکتی ہوئی آگ کا عذاب دے گا.
📚(صحيح مسلم: 934، ابن ماجه: 1581)
♦️ شیعہ مذہب میں ماتم وغیرہ
❁ خود شیعہ مذہب کی روایتوں میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی خاتون جنت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نصیحت کرتے ہوۓ فرمایا کہ :
اگر میں فوت ہوجاؤں تو اپنے منہ پر طمانچے نہ مارنا، کپڑے نہ پھاڑنا، بال نہ نوچنا، نہ ہی سیاہ لباس پہننا، نوحہ یا واویلا بھی نہ کرنا. (فروع ڪافي ڪتاب النڪاح ص : 228)
❁ ”امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ یقینا صبر اور آزمائش دونوں مومن پر آتے ہیں۔ مومن پر جب آزمائش آتی ہے تو وہ صبر کرنے والا ہوتا ہے اور بے صبری نہیں کرتا اور آزمائش جب کافر پر آتی ہے تو وہ بے صبری کرتا ہے۔” (فروع کافی، کتاب الجنائز۱۳۱/۱)
❁ امام جعفر صادق نے فرمایا مرنے والے پر چیخ و پکار اور کپڑے پھاڑنا جائز نہیں۔” (فروع کافی۱۸۸/۱)
”امام باقر نے فرمایا ، جس نے قبر کی تجدید کی یا کوئی شبیہ بنائی ، وہ اسلام سے خارج ہو گیا۔” (من لا یحضر ة الفقیۃ باب النوادر)
❀ اسی طرح کی مختلف رسمیں کرنا، عزاداری کی مجلسیں منعقد کرنا، نوحہ اور مرثیہ پڑھنا، عَلم، تعزيہ اور شبیہ بنا کر جلوسوں میں اٹھا کر گھومنا اور غیراللہ کے ناموں کی سبیلیں لگانا، مختلف قسم کے کھانے اور حلیم تیار کرنا،دُلدُل نامی گھوڑے گھمانے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں. اس لیے مسلمانوں کو ان کاموں سے بچنا چاہیے .
♦️ صحابہ کرام کی شان اور عظمت
✿ قارئین کرام کربلا والے دردناک واقعہ میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل بیت کی شہادت کی آڑ میں بہت سے لوگ کبار صحابہ کرام خاص طور پر سيدنا ابوبڪر صديق، سيدنا عمر فاروق، سيدنا عثمان اور سيدنا معاويه رضي الله عنهم کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں اور انہیں برا بھلا کہتے ہوۓ صریح گستاخیاں بلکہ گالیاں تک دے کر اپنی زبانیں اور ایمان خراب کرتے ہیں حالانکہ ان جلیل القدر ہستیوں کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں. یہ ہستیاں تو اس حادثہ سے کافی عرصہ پہلے اپنے رب کے دربار میں پہنچ چکے تھے.
✿ صحابہ کرام جیسی عظیم جماعت کا انتخاب خود اللہ رب العالمین نے فرمایا، اللہ تعالی نے ان کو اپنے کلام قرآن مجید میں ہدایت والے، کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار، ہر نیکی اور بھلائی میں سبقت لے جانے والے، کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل، پکے سچے مؤمن جیسی صفات بلکہ ان کے ایمان کو بعد میں آنے والوں کے لیے کسوٹی اور نمونہ قرار دیتے ہوۓ ان کے لیے دنیا و آخرت میں اپنی رضا مندی کا عظیم سرٹیفیکٹ عطا فرما دیا ہے، اللہ تعالی نے صرف قرآن میں ہی نہیں بلکہ توراة، انجیل اور دیگر آسمانی کتابوں میں صحابہ کرام کی تعریف اور توصیف فرمائی ہے.
✿ نبی کریم ﷺ نے تو اس زمانہ کو جس میں صحابہ موجود تھے سب سے بہترین زمانہ قرار دیا، ان کے بابرکت وجود کو دنیا والوں کے لیے امن، سلامتی اور کامیابی کی ضمانت قرار دیا، فتنوں کے زمانہ میں ان کی پیروی کو نجات کا باعث قراردیا.
یہ کتنی بڑی ناکامی، نامرادی اور بدبختی ہے جو صحابہ کرام جیسی عظیم جماعت کے بارے کم و بیش باتیں کرتے ہیں!
✿ امام ڪائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا فرمان ہے:
مَنۡ سَبَّ اَصْحابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، والمَلائِكَةِ، والنّاسِ أجْمَعِينَ، لا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنهُ صَرْفًا وَّلَا عَدْلًا .
جو آدمی میرے صحابہ کو گالیاں دے تو اس پر اللہ تعالی کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، اللہ تعالی اس کا نہ تو اس کی کوئی فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ ہی نفل.
📚 (طبراني ڪبير: 12709، سلسلة الاحاديث الصحيحة: 2340)
✿ اہل السنہ کے عقیدہ کی عظیم کتاب العقيدة الطحاوية (93) میں ہے کہ:
ونُحِبُّ أصْحابَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ولا نُفَرِّطُ فِي حُبِّ أحَدٍ مِنهُمْ ولا نَتَبَرَّأُ مِن أحَدٍ مِنهُمْ ونُبْغِضُ مَن يُبْغِضُهُمْ وبِغَيْرِ الخَيْرِ يَذْكُرُهُمْ ولا نَذْكُرُهُمْ إلّا بِخَيْرٍ حُبُّهُمْ دِينٌ وَإيۡمانٌ وإحْسَانٌ، وبُغْضُهُمْ كُفْرٌ ونِفاقٌ وطُغْيانٌ.
ہم رسول اللہ ﷺ کے تمام صحابہ سے محبت کرتے ہیں اور کسی ایک کی محبت میں افراط وتفریط کا شکار نہیں ہوتے اور نہ ہی کسی صحابی سے اعلان برائت کرتے ہیں بلکہ جو آدمی صحابہ کرام کا ذکر خیر نہ کرے بلکہ نفرت کرے تو ہم ایسے لوگوں سے بغض اور نفرت کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ سے محبت کرنا دین ہے، ایمان ہے، نیکی اور بھلائی ہے اور ان سے بغض رکھنا اور نفرت کرنا کفر، نفاق اور سرکشی ہے.