صوم کی فرضیت :
صوم اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ [2-البقرة:183]
’’ اے ایمان والو ! تم پر صوم فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ “
صوم کی فرضیت ہجرت کے دوسرے سال ہوئی، رمضان کے پورے مہینہ کا صوم ہر مسلمان عاقل، بالغ، مرد اور عورت پر فرض ہے۔
فضائل رمضان :
رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کا نزول ہوا جو قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لیے رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
إذا دخل رمضان فتحت أبواب السماء . و فى رواية . فتحت أبواب الجنة و غلقت أبواب جهنم و سلسلت الشياطين . و فى رواية . فتحت أبواب الرحمة [صحيح البخاري : كتاب الصوم باب 5، صحيح مسلم : كتاب الصيام باب بيان فضل رمضان ]
’’ رمضان کا مہینہ جب شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ۔ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ۔ رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔
صوم کی فضیلت :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من صام رمضان إيمانا و احتسابا غفرله ما تقدم من ذنبه [صحيح البخاري : كتاب الصوم باب 6، صحيح مسلم كتاب الصيام باب فضل القيام ]
’’ جس نے رمضان کے صوم ایمان و یقین کے ساتھ اجر و ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ “
ایک روایت میں ہے :
كل عمل ابن آدم يضاعف الحسنة بعشر أمثالها إلى سبع ماءة ضعف قال الله تعالىٰ إلا الصوم فإنه لي و أنا أجزي به يدع شهوته و طعامه من أجلي، للصائم فرحتان : فرحة عند فطره و فرحة عند لقاء ربه و لخلوف فم الصائم أطيب عند الله من ريح المسك و الصيام جنة [صحيح مسلم : كتاب الصيام باب فضل القيام ]
’’ انسان کے ہر نیک عمل پر ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے، لیکن صوم کا معاملہ دوسرے اعمال سے مختلف ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بندہ صرف میرے لیے ہی صوم رکھتا ہے اس لیے اس کا بدلہ میں ہی دوں گا، وہ محض میری خاطر اپنی خواہشاتِ نفسانی اور کھانے پینے کی چیزوں کو ترک کر دیتا ہے، صائم کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری جب اس کو اللہ کا دیدار نصیب ہو گا۔ اس کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے بھی بڑھ کر ہے۔ صوم برے کاموں اور عذاب الٰہی سے بچاؤ اور ڈھال ہے۔
رمضان کے چاند کی رویت :
رمضان کے صوم کے لیے 29 شعبان کو چاند دیکھنے کی کوشش کی جائے، اگر چاند نظر آ جائے تو صوم شروع کر دیا جائے ورنہ شعبان کے تیس دن پورے کرنے ضروری ہیں۔ شک کے دن کے صوم کی سخت ممانعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
من صام اليوم الذى يشك فيه الناس فقد عصيٰ أبا القاسم [سنن الترمذي : كتاب الصيام، باب3 ]
’’ جس نے شک والے دن صوم رکھا اس نے ابوالقاسم (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی کی۔ “
رمضان کے چاند کے ثبوت کے لیے ایک معتبر موحد مسلمان کی گواہی کافی ہے۔ کافر، مشرک اور غیر مسلم کی گواہی قابلِ قبول نہ ہو گی، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
جاء أعرابي إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال إني رأيت الهلال يعني هلال رمضان قال : أتشهد أن لا إله إلا الله قال : نعم، قال أتشهد أن محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال : نعم، قال يابلال أذن فى الناس أن يصومواغدا [سنن الترمذي : كتاب الصيام، باب7 ]
’’ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سوال کیا کہ کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے کہا: ہاں، آپ نے دریافت فرمایا کیا تو محمد کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہے، اس نے کہا: ہاں، اس پر آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ کل صوم ہے۔ “
عید الفطر کے چاند کی رویت :
عیدالفطر اور عیدالاضحی کے چاند کے لیے دو معتبر مسلمان مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ضروری ہے۔ سنن ابوداؤد کی روایت ہے :
عن رجل من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم قال : اختلف الناس فى آخر يوم من رمضان فقدم أعرابيان فشهداعند النبى صلى الله عليه وسلم بالله لأهلا الهلال أمس عشية فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس أن يفطروا . و زاد فى رواية . و أن يغدوا إلى مصلاهم [سنن أبوداؤد : كتاب الصوم باب شهادة رجلين على رؤية هلال شوال ]
’’ ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ لوگوں نے رمضان کے آخری دن کی تعیین میں اختلاف کیا، اسی اثنا میں دیہات کے دو باشندوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ کے نام سے یہ شہادت دی کہ انہوں نے کل شام کو چاند دیکھا ہے۔ اس شہادت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افطار کا حکم دے دیا۔ اور ایک روایت میں یہ اضافہ ہے۔ کہ لوگ صبح عیدگاہ جائیں۔ “
سنن ابوداؤد میں ایک اور روایت ابومالک اشجعی سے ملتی ہے کہ ان سے حسین بن حرث جدلی نے روایت کیا ہے :
أن أمير مكة خطب ثم قال : عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ننسك للرؤية فإن لم نره و شهد شاهداعدل نسكنا بشهادتهما . [سنن أبوداؤد : كتاب الصوم، باب شهادة رجلين على رؤية هلال شوال ]
’’ امیر مکہ نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے عہد لیا ہے کہ ہم چاند دیکھ کر ہی قربانی کریں گے اور اگر ہم چاند نہ دیکھ پائیں اور دو ثقہ گواہ رویت کی شہادت دیں تو ہم ان کی شہادت مان کر قربانی کریں۔ “
دور کی رویت :
مسافتِ بعیدہ کی رویت معتبر ہے یا نہیں ؟ اس سلسلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر مشرق میں رویت ثابت ہو گی تو مغرب میں ہر جگہ رویت معتبر ہو گی، لیکن اگر مغرب میں رویت ثابت ہوئی تو مشرق میں تقریباً پانچ سو میل (833 کلومیٹر) تک اس کا اعتبار ہو گا، کیو ں کہ علماء فلکیات کے نزدیک 500 میل سے زیادہ کی مسافت میں مطلع مختلف ہو جاتا ہے۔
اسلام کی سادگی کا تقاضا :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
إنا أمة أمية لانكتب و لانحسب [صحيح البخاري : كتاب الصيام، باب 13، صحيح مسلم : كتاب الصيام، باب وجوب صيام برؤية الهلال ]
’’ یعنی ہم ایک فطری ملت ہیں، ہم مہینوں وغیرہ کا اعتبار کرنے میں حساب و کتاب کے مکلف نہیں ہیں۔ “
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں کریب سے روایت کیا ہے کہ انہیں ام الفضل بنت الحارث نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا۔ کریب کہتے ہیں کہ میں شام آیا اور میں نے ام الفضل کی ضرورت پوری کی اور میں شام میں موجود تھا کہ رمضان کے چاند کی رویت ہو گئی، چنانچہ جمعہ کی رات میں میں نے چاند دیکھا، پھر رمضان کے آخر میں مدینہ آیا تو مجھ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سوال کیا، پھر چاند کا ذکر کیا اور کہا کہ تم نے چاند کب دیکھا تھامیں نے کہا کہ جمعہ کی رات کو، تو انہوں نے کہا کہ کیا تم نے خود چاند دیکھا ؟ میں نے کہا: جی ہاں، میں نے دیکھا اور لوگوں نے دیکھا اور سب نے صوم رکھا اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے (جو اولی الأمر تھے ) بھی صوم رکھا۔ اس پر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم نے سنیچر کی رات میں چاند دیکھا، لہٰذا ہم تو تیس دن پورے کریں گے، یا ہم چاند دیکھ لیں، میں نے عرض کیا کہ کیا معاویہ رضی اللہ عنہ کی رویت اور صوم پر آپ اکتفا نہیں کریں گے تو عبداللہ بن عباس نے جواب دیا کہ نہیں، ہمیں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ [صحيح مسلم : كتاب الصيام، باب بيان أن لكل بلد رؤيتهم : أبوداؤد كتاب الصيام باب إذا رئي الهلال قبل الأخرين ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے :
صوموالرؤيته و أفطروالرؤيته [صحيح مسلم : كتاب الصيام، باب وجوب صيام رمضان برؤية الهلال ]
’’ یعنی چاند دیکھ کر صوم رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔ “
مندرجہ بالانصوص نیز اسلام کی سادگی اور اس کا يسر اس بات کا متقاضی ہے کہ رویت ہلال میں اعتبار صرف قرب و جوار کا کیا جائے۔
نیت :
عبادت کی صحت کے لیے نیت شرعی شرط ہے اس لیے فریضۂ صیام کے لیے صبح صادق سے پہلے نیت کر لینا ضروری ہے، البتہ نفلی صوم کی نیت آفتاب ڈھلنے سے پہلے کر لی جائے تو بھی کافی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من لم يجمع الصيام قبل الفجر فلاصيام له [سنن ترمذي : كتاب الصيام، باب33 ]
’’ جس نے فجر سے پہلے صوم کی نیت نہیں کی اس کا صوم نہیں ہو گا۔ “
عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں :
دخل على النبى صلى الله عليه وسلم ذات يوم فقال هل عندكم شيئ فقلنالاقال فإني اذا صائم [صحيح مسلم : كتاب الصيام، باب جواز فطر الصائم نفلا ]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میرے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے ؟ ہم نے کہا نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تب میں صائم ہوں۔ “
نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں۔ زبان سے نیت کے مروجہ الفاظ کہنے کا صحیح حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔
سحری :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تسحروافإن فى السحور بركة [صحيح البخاري و صحيح مسلم : كتاب الصيام، باب فضل السحور ]
’’ سحری کھایا کرو سحری کھانے میں برکت ہے۔ “
دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فصل مابين صيامناو صيام أهل الكتاب أكلة السحر [صحيح مسلم : كتاب الصيام، باب فضل السحور ]
’’ ہمارے اور اہل کتاب کے صوم میں فرق یہ ہے کہ وہ سحری کھائے بغیر صوم رکھتے ہیں اور ہم سحری کھا کر رکھتے ہیں۔ “
سحری کا مسنون وقت اور طریقہ یہ ہے کہ صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے ہلکا کھاناکھا لیاجائے۔
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
تسحرنامع النبى صلى الله عليه وسلم ثم قام إلى الصلوٰة قلت : كم كان بين الأذان و السحور قال قدر خمسين آية [صحيح البخاري : كتاب الصيام، باب9 ]
’’ اللہ کے رسول کی سحری اور صلاۃ فجر کے درمیان فاصلہ پچاس آیات کے بقدر ہوا کرتا تھا۔ “
افطار :
سورج غروب ہو جانے کے بعد بلا کسی تاخیر کے افطار کر لینا چاہئے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لايزال الناس بخير ماعجلوا الفطر [صحيح البخاري : كتاب الصوم، باب45، صحيح مسلم كتاب الصيام باب تعجيل الفطر ]
’’ جب تک لوگ افطار میں جلدی کریں گے، بھلائی میں رہیں گے۔ “
حدیث قدسی میں ہے :
أحب عبادي إلى أعجلهم فطرا . [سنن الترمذي : كتاب الصيام، باب 13 ]
’’ میرے بندوں میں میرا سب سے محبوب وہ ہے جو صوم افطار کرنے میں جلدی کرتا ہے “۔
یعنی آفتاب غروب ہوتے ہی افطار کر لیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈوبتے ہی صلاۃ مغرب سے پہلے تازہ کھجور سے افطار کرتے، اگر تازہ کھجور نہ ملتی تو خشک سے افطار کرتے اور خشک نہ پاتے تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔ سلمان بن عامر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افطار کے متعلق ارشاد فرمایا :
إذا أفطر أحدكم فليفطر على تمر فإنه بركة فإن لم يجد فليفطر على ماء فإنه طهور [سنن الترمذي : كتاب الصيام، باب 10 ]
’’ جب کوئی افطار کرنا چاہے تو کھجور سے افطار کرے کیوں کہ وہ باعثِ خیر و برکت ہے، اگر کھجور نہ پائے تو پانی سے کرے کیوں کہ وہ طاہر و مطہر ہے۔ “
افطار کی دعا :
افطار کے وقت یہ دعا پڑھنا چاہئے :
ذهب الظمأ و ابتلت العروق و ثبت الأجر إن شاء الله [أبوداؤد : كتاب الصوم، باب القول عند الإفطار ]
’’ پیاس جاتی رہی، رگیں تر ہو گئیں اور ثواب لازم و ثابت ہو گیا اگر اللہ نے چاہا۔ “
افطار کرانے کا ثواب :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من فطر صائماكان له مثل أجره غير أنه لاينقص من اجر الصائم شيئا [سنن ترمذي : كتاب الصيام باب 82 ]
’’ جو شخص کسی صائم کو افطار کرائے گا اسے اس کے برابر اجر ملے گا بغیر اس کے کہ صائم کے اجر میں کچھ کمی واقع ہو۔ “
وہ امور جن سے صوم ٹوٹ جاتا ہے :
➊ دانستہ قصداً کھانا، پینا، خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔
➋ دانستہ جماع کرنا۔
➌ قصداً قے کرنا تھوڑی ہو یا زیادہ۔
➍ حقہ، بیڑی، سگریٹ پینا۔
➎ پان کھانا۔
➏ مبالغہ کے ساتھ ناک میں پانی یا دوا چڑھانا، یہاں تک کہ حلق کے نیچے اتر جائے۔
➐ کھانا پینا یا جماع کرنا یہ خیال کر کے کہ آفتاب غروب ہو گیا ہے حالانکہ آفتاب غروب نہیں ہوا تھا۔
➑ کھانا، پینا یا جماع کرنا یہ سمجھ کر کہ ابھی صبح نہیں ہوئی ہے حالانکہ صبح ہو چکی تھی۔
➒ منہ کے علاوہ کسی زخم کے راستہ سے نلکی کے ذریعہ غذا یا دوا پہنچانی۔
➓ حقنہ کرنا (ENAEMA) (پیٹ صاف کرنے کے لیے پاخانہ کے سوراخ (مقعد) سے پیٹ میں دوا چڑھانا۔ )
ان سب صورتوں میں ٹوٹے ہوئے صوم کی قضا ضروری ہے اور بیوی سے دانستہ صحبت (جماع) کر لینے کی صورت میں قضا کے ساتھ کفارہ دینا بھی ضروری ہے، کفارہ ایک مسلمان لونڈی یا غلام کا آزاد کرنا ہے، اگر اس کی قدرت نہ ہو یا اس کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو پے در پے ساٹھ صوم رکھے اور اگر اس کی طاقت بھی نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
وہ امور جن سے صوم نہیں ٹوٹتا :
1۔ تر یا خشک مسواک دن کے کسی حصہ میں بھی کرنا۔
2۔ سرمہ لگانا اور آنکھ میں دوا ڈالنی۔
3۔ سر یا بدن میں تیل ملنا۔
4۔ خوشبو لگانا۔
5۔ سر پر کپڑا تر کر کے رکھنا۔
6۔ فصد کرانا۔ رگ کھول کر اس سے طبی ضرورت کے تحت خون نکلوانا۔
7۔ پچھنا لگوانا، بشرطیکہ کمزوری کا خوف نہ ہو۔
8۔ انجکشن لگوانا، جو قوت اور غذا کا کام نہ دے۔
9۔ ضرورت کے وقت ہنڈیا کا نمک چکھ کر فوراً تھوک دینا اور کلی کرنا۔
10۔ صبح صادق کے بعد جنابت کا غسل کرنا۔
11۔ مرد کا بیوی سے صرف بوس و کنار کرنا بشرطیکہ اپنے کو قابو میں رکھ سکتا ہو اور جماع واقع ہو جانے کا خوف نہ ہو۔
12۔ دن میں احتلام ہو جانا۔
13۔ عورت کو دیکھ کر منی کا انزال ہو جانا۔
14۔ خود بخود قے ہو جانا خواہ تھوڑی ہو یازیادہ۔
15۔ تالاب وغیرہ میں غسل کرنا بشرطیکہ غوطہ لگانے کی صورت میں ناک یامنہ کے ذریعہ حلق کے اندر پانی نہ جائے۔
16۔ ناک میں پانی ڈالنا بغیر مبالغہ کے، ناک کے رینٹھ کا اندر ہی اندر حلق کے راستہ اندر چلا جانا۔
17۔ کلی کرنا بشرطیکہ مبالغہ نہ کرے۔
18۔ کلی کرنے کے بعد منہ میں پانی کی تری کا تھوک کے ساتھ اندر چلا جانا۔
19۔ مکھی کا حلق میں چلا جانا۔
20۔ بلامبالغہ استنشاق (ناک صاف کرنے کے لیے ناک میں پانی ڈال کر اسے اندر پہنچانا) کی صورت میں بغیر قصد و ارادہ پانی کا ناک سے حلق کے اندر اتر جانا۔
21۔ منہ میں جمع شدہ تھوک کو پی جانا مگر ایسا نہ کرنا بہتر ہے۔
22۔ مسوڑھے کے خون کا تھوک کے ساتھ اندر چلا جانا۔
23۔ کلی کرتے وقت بلا قصد و ارادہ پانی کا حلق میں اتر جانا۔
24۔ ذَکر (پیشاب کے راستہ) میں پچکاری کے ذریعہ دوا وغیرہ داخل کرنا۔
25۔ بھول کر کھا پی لینا اور بیوی سے صحبت کر لینا۔
(الف) من نسي وهوصائم فأكل أو شرب فليتم صومه فإنما أطعمه الله و سقاه [صحيحين ]
’’ جو صائم بھول کر کھا پی لے وہ اپنا صوم پورا کرے۔ اللہ نے اس کو کھلایا پلایا ہے۔ “
یعنی بھول کر کھاپی لینے سے صوم نہیں ٹوٹے گا اور نہ اس کی قضا کرنی ہو گی۔
(ب) من أفطر فى شهر رمضان ناسيافلاقضاء عليه و لاكفارة [ابن خزيمه، حاكم، ابن حبان ]
’’ جس نے رمضان کے مہینہ میں بھول کر افطار کر لیا اس کے اوپر نہ قضا ہے نہ کفارہ۔ “
مگر بھول کر جماع یا کھانے کی صورت میں جب یاد آ جائے فوراً چھوڑ دینا چاہئے۔
26۔ غبار، دھوئیں یا آٹے کا اڑ کر حلق کے اندر چلا جانا۔
27۔ موچھوں پر تیل لگانا۔
28۔ کان میں تیل یا پانی ڈالنا اور سلائی داخل کرنا۔
29۔ دانت میں اٹکے ہوئے گوشت یا کھانے کا ٹکڑا جو محسوس نہ ہو اور منتشر ہو کر رہ جائے حلق کے اندر چلا جانا۔
شرعی رخصت :
اگر کوئی شخص سفر میں ہو یا بیمار ہو تو اس کے لیے شریعت کی طرف سے اجازت ہے کہ رمضان میں صوم نہ رکھے بلکہ بعد میں قضا کر لے۔ ارشاد باری ہے :
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ [البقرة : 184 ]
’’ تم میں سے جو بیمار ہو یا سفر میں ہو، تو وہ اپنے صوم رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں پورے کرے۔ “
نیز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إن الله عزوجل وضع عن المسافر شطر الصلوٰة و الصوم [ النسائي : كتاب الصيام، باب وضع الصيام للمسافر ]
’’ اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لیے آدھی صلاۃ معاف کر دی ہے اور رمضان میں صوم ترک کر کے دوسرے دنوں میں قضا کی اجازت دے دی ہے۔ “
بڑھاپے کی وجہ سے جو لوگ انتہائی کمزور ہو گئے ہیں اور کمزوری کے باعث صوم رکھنے کی قدرت نہیں رکھتے یا صوم کی صورت میں اتنی کمزوری ہو جاتی ہو کہ ان کے لیے اٹھنا بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے تو شریعت کی طرف سے اجازت ہے کہ وہ صوم نہ رکھیں اور ہر صوم کے بدلہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں، قرآن کریم میں ہے :
وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ
اس آیت کی بابت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
هي للشيخ الكبير و المرأة الكبيرة لايستطيعان أن يصومافليطعمامكان كل يوم مسكينا [صحيح البخاري : كتاب التفسير سوره 2 باب 25 ]
یعنی ’’ یہ آیت بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے لیے ہے جو صوم کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو انہیں ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلاناچاہئے۔ “
میت کے صوم کی قضا :
ماہ رمضان کا مسافر یا بیمار اگر رمضان کے بعد اس قابل ہو گیا کہ چھوٹے ہوئے صیام کی قضا کر سکے لیکن اس نے قضا نہیں کی، پھر بیمار ہو کر مر گیا تو اس میت کے چھوٹے ہوئے صیام کی قضا اس کے ولی کے ذمہ ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
من مات و عليه صيام صام عنه وليه [صحيح بخاري : كتاب الصيام 43، صحيح مسلم : كتاب الصيام باب فضائل الصوم عن الميت ]
لیکن وہ مسافر یا بیمار جو رمضان کے بعد قضا کا موقع نہ پا سکا اور اس کی وفات ہو گئی تو اس کے ولی پر قضا واجب نہیں ہے۔