❀ «عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه.»
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان میں ایمان کی حالت میں اور اللہ کی خوشنودی کے لیے قیام الیل کیا تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے گئے۔“ [صحيح بخاري 37، صحيح مسلم 759: 173]
❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يرغب فى قيام رمضان من غير أن يأمرهم فيه بعزيمة، فيقول: من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من دنبه. »
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں قیام لیل کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے، لیکن اس کا تاکیدی حکم نہیں فرماتے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”جس نے رمضان میں ایمان کی حالت میں اور اللہ کی خوشنودی کے لیے قیام الیل کیا تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے گئے۔“ [صحيح مسلم 759: 174]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور باجماعت تراویح
❀ «عن عائشة رضي الله عنها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج ليلة من جوف الليل فصلى فى المسجد وصلى رجال بصلاته، فاصبح الناس فتحدثوا، فاجتمع اكثر منهم فصلى فصلوا معه، فاصبح الناس فتحدثوا، فكثر اهل المسجد من الليلة الثالثة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى فصلوا بصلاته، فلما كانت الليلة الرابعة، عجز المسجد عن اهله حتى خرج لصلاة الصبح، فلما قضى الفجر، اقبل على الناس فتشهد، ثم قال: اما بعد، فإنه لم يخف على مكانكم، ولكني خشيت ان تفترض عليكم فتعجزوا عنها، فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم والامر على ذلك.
وفي رواية مسلم: فإنه لم يخف على شأنكم الليلة، ولكني خشيت أن تفرض عليم صلاة الليل فتعجزوا عنها. »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کی) ایک درمیانی رات میں نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ صبح کو لوگوں نے اس کا چرچا کیا۔ دوسرے دن اس سے زیادہ لوگ جمع ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر صبح ہوئی تو اس کو لوگوں نے ایک دوسرے سے بیان کیا۔ تیسری رات میں اس سے زیادہ آدمی جمع ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، اور لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب چوتھی رات آئی تو مسجد میں لوگوں کا سمانا دشوار ہو گیا، (لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نہیں نکلے۔) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لیے نکلے، اور جب نماز ادا کر لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”اما بعد، مجھ سے تم لوگوں کی موجودگی پوشیدہ نہیں تھی، لیکن مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر فرض نہ کر دی جائے اور تم اس کے ادا کرنے سے عاجز آ جاؤ۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور حالت یہی رہی۔
امام مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: ”رات میں تمہاری حالت و کیفیت مجھ پر پوشیده نہیں تھی، لیکن مجھے اندیشہ ہوا کہ تم پر رات کی نماز (یعنی تہجد) فرض کر دی جائے اور تم اس کی ادائیگی سے عاجز آ جاؤ۔“ [صحيح بخاري 2012،صحيح مسلم 761: 178]
❀ «عن ابي ذر رضى الله عنه، قال:”صمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم رمضان، فلم يقم بنا شيئا من الشهر حتى بقي سبع، فقام بنا حتى ذهب ثلث الليل، فلما كانت السادسة لم يقم بنا، فلما كانت الخامسة قام بنا حتى ذهب شطر الليل، فقلت: يا رسول الله، لو نفلتنا قيام هذه الليلة، قال: فقال: إن الرجل إذا صلى مع الإمام حتى ينصرف حسب له قيام ليلة، قال: فلما كانت الرابعة لم يقم، فلما كانت الثالثة جمع اهله ونساءه والناس، فقام بنا حتى خشينا ان يفوتنا الفلاح، قال: قلت: وما الفلاح؟ قال: السحور، ثم لم يقم بقية الشهر.»
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے ماہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کسی رات کو بھی نماز نہیں پڑھائی یہاں تک کہ (رمضان ختم ہونے میں) سات راتیں باقی رہ گئیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تہائی رات تک نماز پڑھائی، پھر جب چھ راتیں باقی رہ گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہیں پڑھائی، پھر جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آدھی رات تک نماز پڑھائی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! کاش آج آپ مزید پڑھاتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی جب امام کے ساتھ نماز پڑھے، یہاں تک کہ امام فارغ ہو جائے، تو اس کو پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔“ اور جب چار راتیں باقی رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہیں پڑھائی، اور جب تین راتیں باقی رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام اہل خانہ اور لوگوں کو جمع کیا اور نماز پڑھائی، یہاں تک کہ ہم کو خوف ہوا کہ «فلاح» نکل جائے گی۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ «فلاح» کیا چیز ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ «فلاح» سے مراد سحری ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینے کے بقیہ ایام میں نماز نہیں پڑھائی۔ [سنن ابوداود 1375، سنن ترمذي 802، سنن نسائي 1364، سنن ابن ماجه 1327، صحيح]
❀ «عن نعيم بن زياد سمعت النعمان بن بشير رضي الله عنه على منبر حمص، يقول: قمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى شهر رمضان ليلة ثلاث وعشرين إلى ثلث الليل الاول، ثم قمنا معه ليلة خمس وعشرين إلى نصف الليل، ثم قمنا معه ليلة سبع وعشرين حتى ظننا ان لا ندرك الفلاح وكانوا يسمونه السحور.»
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رمضان کی تیسویں رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہائی رات تک نماز ادا کرتے رہے۔ پھر پچیسویں رات کو آدھی رات تک، اور ستائیسویں رات کو اتنی دیر تک نماز ادا کرتے رہے کہ ہمیں سحری کے وقت کے نکل جانے کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ [سنن نسائي 1606، حسن]
تراویح عہد فاروقی میں
❀ «عن عبد الرحمن بن عبد القاري، انه قال:” خرجت مع عمر بن الخطاب رضى الله عنه ليلة فى رمضان إلى المسجد، فإذا الناس اوزاع متفرقون، يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر:إني ارى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان امثل، ثم عزم فجمعهم على ابي بن كعب، ثم خرجت معه ليلة اخرى والناس يصلون بصلاة قارئهم، قال عمر رضى الله عنه : نعم البدعة هذه، والتي ينامون عنها افضل من التى يقومون يريد آخر الليل، وكان الناس يقومون اوله. »
عبد الرحمن بن عبد فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا، وہاں لوگوں کو دیکھا کہ ادھر ادھر منتشر ہیں، کہیں ایک شخص تنہا نماز پڑھ رہا ہے، تو کہیں ایک آدمی کے پیچھے کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ اگر ان سب کو ایک قاری پر جمع کر دوں تو زیادہ بہتر ہو گا، پھر اس کا عزم کر کے ان کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر جمع کر دیا۔ پھر میں ان کے ساتھ ایک دوسری رات میں نکلا، لوگ اپنے قاری کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ کتنی اچھی بدعت ہے! جس نماز کو چھوڑ کر تم سب سوتے ہو وہ اس سے افضل ہے جسے ادا کرتے ہو۔ آپ کی مراد رات کا آخری حصہ تھا، جبکہ لوگ ابتدائی حصہ میں کھڑے ہوتے تھے۔ [صحيح بخاري 2010]
نوٹ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بدعت لغوی معنی میں کہا، کیونکہ بدعت کے معنی نئی چیز کے ہیں، اور عشاء کے بعد جماعت کے ساتھ تراویح ایک نئی چیز تھی۔ لیکن چونکہ اس کی اصل اور بنیاد موجود تھی اس لیے اسے شرعی لحاظ سے بدعت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اور آپ نے اسے اچھا اس وجہ سے کہا کیونکہ اس طرح لوگ ایک ساتھ جماعت سے نماز تراویح ادا کر کے قیام رمضان کے اجر و ثواب کے مستحق ہو جا رہے تھے۔ اور لوگوں کی آسانی کے لیے آپ نے اسے عشاء کی نماز کے فورا بعد شروع کرا دیا، تاکہ جو لوگ رات کے پچھلے پہر نہ اٹھ سکتے ہوں وہ اس وقت قیام الیل کر لیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ نے یہ بھی وضاحت کر دی کہ عشاء کے بعد فورا قیام الیل کے مقابلے میں رات کے آخری پہر میں قیام الیل کرنا زیادہ فضیلت کا حامل ہے۔
تراویح کی رکعتوں کی تعداد
❀ «عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، انه سال عائشة رضي الله عنها:” كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان؟ فقالت: ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدى عشرة ركعة، يصلي اربعا، فلا تسال عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي اربعا، فلا تسال عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا، فقلت: يا رسول الله، اتنام قبل ان توتر؟، قال: يا عائشة، إن عيني تنامان ولا ينام قلبي”. »
ابوسلمہ بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رمضان میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کیسی ہوتی تھی ؟ انہوں نے جواب دیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور اس کے علاوہ دنوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعتیں پڑھتے تھے، تو مت پوچھو کہ وہ کتنی اچھی اور کتنی اچھی ہوتی تھیں! پھر چار رکعتیں پڑھتے، تو مت پوچھو کہ وہ کتنی لمبی اور کتنی اچھی ہوتی تھیں ! پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ ! میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں، لیکن میرا دل نہیں سوتا۔“ [صحيح بخاري 2013، صحيح مسلم 738: 125]
الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔
❀ «عن السائب بن يزيد، أنه قال: أمر عمر بن الخطاب رضي الله عنه أبى بن كعب وتميما الدايري رضي الله عنهما أن يقوما للناس بإحدى عشرة ركعة، قال: وقد كان القارئ يقرأ بالميين، حتى كنا نعتمد على العصي من طول القيام، وما كنا ننصرف إلا فى فروع الفجر. »
سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کو گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا۔ سائب کہتے ہیں کہ امام سو سو آیتیں پڑھتا تھا، یہاں تک کہ ہم لمبے قیام کی وجہ سے لاٹھی کا سہارا لیتے تھے، اور ہم فجر کے قریب ہی فارغ ہوتے تھے۔ [موطأ امام مالك، كتاب الصلاة فى رمضان، 4]
نوٹ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شروع شروع میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کو گیارہ رکعتیں پڑھانے کا حکم دیا، لیکن جب لمبے قیام کی وجہ سے لوگوں کو مشقت ہونے لگی تو آپ نے قراءت کو مختصر کرنے اور رکعتوں میں اضافہ کرنے کا حکم دیا کیونکہ تراویح کی نماز نفل نماز ہے، اور اس میں کمی بیشی کرنا جائز ہے۔ یہ امر متعد د آثار سے ثابت ہے، جیسے:
❀ «عن السائب بن يزيد قال: كانوا يقومون على عهد عمر بن الخطاب رضى الله عنه فى شهر رمضان بعشرين ركعة. قال: وكانوا يقرءون بالمئين، وكانوا يتوكئون على عصيهم فى عهد عثمان بن عفان رضي الله عنه من شدة القيام. »
سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں رمضان میں بیس رکعتیں پڑھتے تھے۔ نیز فرماتے ہیں: ”لوگ سو سو آیتیں پڑھتے تھے۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شدت قیام کی وجہ سے لوگ اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے۔“ [السنن الكبري للبيهقي 4288، صحيح]
❀ «عن السائب بن يزيد قال: كنا نقوم فى زمان عمر بن الخطاب بعشرين ركعة والوتر. »
سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس رکعتیں اور وتر پڑھتے تھے۔“ [معرفة السنن والآثار للبيهقي 5409، صحيح]
نوٹ: علامہ ابن عبد البر فرماتے ہیں: ممکن ہے کہ شروع میں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تو گیارہ رکعتیں پڑھی جاتی رہی ہوں، پھر طول قیام کی وجہ سے تخفیف کر کے اکیس رکعتیں پڑھی جانے لگی ہوں، قراءت میں تخفیف کر دی گئی ہو، اور رکوع و سجود میں اضافہ۔ [الاستذكار 154/5]
علامہ بیہقی رحمہ اللہ بھی یہی تاویل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”دونوں روایتوں کے درمیان جمع و تطبیق ممکن ہے، لوگ پہلے گیارہ رکعتیں پڑھتے رہے ہوں گے، پھر بیس رکعتیں اور تین وتر پڑھنے لگے ہوں گے۔“ [السنن الكبري للبيهقي 699/2]
علامہ عبد الحق اشبیلی فرماتے ہیں: بیان کیا جاتا ہے کہ لوگوں پر طویل قیام بھاری پڑنے لگا، تو انہوں نے اس کی شکایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کی، چنانچہ انہوں نے دونوں قاریوں کو حکم دیا کہ قیام میں تخفیف کریں اور رکوع کی تعداد میں اضافہ کر لیں، تو وہ دونوں 23 رکعتیں پڑھانے لگے۔ لوگوں نے پھر سے شکایت کی، چنانچہ قیام میں تخفیف کر دی گئی اور رکوع میں اضافہ کر دیا گیا، یہاں تک کہ 36 رکعتیں پڑھنے لگے اور تین وتر، پھر یہی معمول چل پڑا۔ [الصلاة والتهجد، ص 287]
امام مالک سے 39 رکعتوں کا قول مذکور ہے۔ انہوں نے اہل مدینہ کا یہی عمل پایا۔
اسی طرح 41 رکعتوں کی بھی روایت موجود ہے، جن میں سے 5 رکعتیں وتر ہوتی تھیں۔
اسی طرح 40 رکعتیں تراویح اور 7 رکعتیں وتر کی بھی روایت ہے۔
گویا ائمہ کرام اس معاملے میں وسعت کے قائل ہیں، اس لیے کہ تراوت مطلق نفل میں شمار ہوتی ہے، سنن رواتب میں نہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس میں کوئی تنگی نہیں ہے، اور نہ ہی اس کی کوئی حد متعین ہے، اس لیے کہ یہ نفل ہے۔ چنانچہ اگر قیام کو لمبا کریں اور سجدوں کو کم کریں تو بھی ٹھیک ہے، اور یہی مجھے پسند ہے، اور اگر رکوع و سجود کو بڑھائیں تو بھی ٹھیک ہے۔ [معرفة السنن والآثار للبيهقي 42/4]
علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام رمضان کی کوئی متعین حد مقرر نہیں کی، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں 13 رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکعتیں طویل ہوا کرتی تھیں۔ پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے لوگوں کو جمع کیا تو وہ 20 رکعتیں تراویح اور 3 رکعتیں وتر پڑھاتے تھے، اور وہ رکعتوں کے اضافے کے حساب سے قراءت ہلکی کرتے، کیونکہ ایک رکعت کو طویل کرنے کے مقابلے میں یہ چیز مقتدیوں کے لیے زیادہ ہلکی تھی۔ پھر سلف میں ایک گروہ 40 رکعت تراوتح اور 3 رکعت وتر پڑھتا، اور کچھ دوسرے 36 رکعت تراویح اور 3 رکعت وتر پڑھتے۔ اور یہ سب جائز ہے۔ ان میں سے جس طریقے کے مطابق بھی قیام رمضان کرے وہ بہتر ہے۔ اور افضل طریقہ مقتدیوں کی مختلف حالتوں کے لحاظ سے مختلف ہوگا، چنانچہ اگر وہ لمبے قیام کے متحمل ہوں تو 10 رکعتیں تراویح اور 3 رکعتیں وتر پڑھنا افضل ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں پڑھا کرتے تھے، اور اگر وہ اس کے متحمل نہ ہوں تو 20 رکعتیں پڑھانا فضل ہے۔ [مجموع فتاوي ابن تيميه 272/22]
مزيد تفصيل كے ليے ديكهيں: [الجامع الكامل فى الحديث الصحيح الشامل 826/4 -831]
امام کے ساتھ آخر تک تراویح میں شرکت کی فضیلت
❀ «عن أبى ذر رضي الله عنه، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال : ان الرجل إذا صلى مع الإمام حتى ينصرف حسب له قيام قليلة . »
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی جب امام کے ساتھ نماز پڑھے، یہاں تک کہ امام فارغ ہو جائے تو اس کو پوری رات کے قیام کاثواب ملے گا۔“ [سنن ابوداود 1375، سنن ترمذي 806، سنن نسائي 1364، سنن ابن ماجه 1328، صحيح]
نوٹ: یہ حدیث جماعت کے ساتھ قیام لیل کے بارے میں ہے جو پیچھے پر گزر چکی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام جتنی رکعتیں تراویح پڑھائے سب پڑھنے سے پوری رات نماز پڑھنے کا ثواب ملتا ہے۔ لہٰذا یہ کوشش ہونی چاہیے کہ امام کے ساتھ ساری رکعتیں پڑھی جائیں، اور بیچ میں چھوڑ کر الگ نہ ہو جائیں، کیونکہ چند رکعتیں مزید پڑھنے سے پوری رات نماز پڑھنے کا ثواب مل جائے گا، اور ماہ مضان میں جب کہ ہم اپنی جھولی پھیلائے اللہ تعالیٰ کی جانب سے برسنے والے اجر و ثواب کو سمیٹنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، اس میں اس طرح سے اتنے اجر و ثواب کو ہاتھ سے جانے دینا بڑی محرومی کی بات ہو گی؟
پھر عام طور پر ایسا نہیں ہوتا کہ ہم مسجد سے نکل کر اس وقت کو کسی ایسے کام میں صرف کریں جو نماز سے زیادہ افضل ہو، بلکہ آرام کرنے یا گپ شپ کرنے میں وہ وقت ضائع ہو جاتا ہے، اس لحاظ سے بھی یہی مناسب ہے کہ ہم امام کے ساتھ بقیہ رکعتوں میں بھی شریک رہیں اور پوری رات نماز پڑھنے کا ثواب پائیں۔
آخر میں اس بات کو یاد رکھیں کہ اگر ہمارا اب تک کا طرز عمل نماز کے بیچ میں الگ ہو جانے کا چلا آ رہا ہے، تو اس طرز عمل کو چھوڑ کر مکمل نماز میں شریک ہونا نفس پر بہت شاق گزرے گا، اور شیطان بھی اس سے باز رکھنے کی پوری کوشش کرے گا لیکن آپ یہ یاد رکھیے کہ رمضان کا مہینہ نفس پر کنٹرول پانے کا بہت سنہرا وقت ہے، اس لیے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنی اصلاح کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عنایت فرمائے، آمین۔